پاکستان میں امپاسٹر سنڈروم  کے بارے میں آگہی کی ضرورت


ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے امپاسٹر سنڈروم (Imposter Syndrome) کے بارے میں بہت اچھی تعارفی تحریر پیش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہمیں امپاسٹر سنڈروم (بہروپ روگ) کے بارے میں جاننے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ صرف طبی طور پر ہی نہیں، سیاسی اور سماجی طور پر بھی اس نفسیاتی کیفیت کے بارے میں جاننا ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں چند ممکنہ مثالیں دینا چاہوں گا۔

ہم نے ستر برس پہلےآزادی حاصل کی تھی۔ ہم ابھی تک اپنی آزادی کا یقین نہیں کر پائے۔ ہم میں سے کچھ ابھی تک غیر ملکی حکمرانوں والی نفسیات کا شکار ہیں۔ اور کچھ خود کو محکوم یا رعایا سمجھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہی نہیں آ رہا کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اپنی آزادی پر یقین حاصل کرنا دراصل آزادی کی ذمہ داری اٹھانے جیسا ہے۔ اس کے لئے ہمیں خود پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ سارا وقت ایک ڈنڈے والے رہنما کا انتظار کرنا جو ہم میں سے کچھ کو پھانسی دے دے، کچھ کو خوف زدہ کر دے، ہم میں سے کچھ کو بیٹھے بٹھائے اپنے جیسا عظیم بنا دے، اور باقی سب کو سیدھا راستہ دکھا دے۔ ان علامتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سیاسی طور پر امپاسٹر سنڈروم کا شکار ہیں۔

اسی طرح ہمارے آبا و اجداد نے بہت پہلے مذہب اور نیکی کی باتیں اختیار کی تھیں۔ ہمیں اپنے نیک ہونے پر اعتبار ہی نہیں آتا۔ اسی بے اعتباری کا نتیجہ ہے کہ ہم سارا وقت دوسروں پر اپنی نیکی جتاتے رہتے ہیں۔ ہمارے یقین کے ہارمون میں کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ ہم اونچی آواز میں دوسروں کو بتاتے رہتے ہیں کہ ہم نیکی کے بارے میں کیا کیا جانتے ہیں؟ ہم کتنے زیادہ نیک ہیں۔۔۔ اور پھر اسی جوش میں ہم دوسروں کو اپنی طرح کا نیک بنانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے نیک ہونے کا یقین نہیں ہوتا، اس لئے ہم دوسروں کو بھی پوری طرح سے نیک نہیں سمجھتے۔ ہمیں اپنے نیک ہونے پر یقین آئے تو دوسروں کو بھی نیک سمجھیں۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ایسے لوگ دوسروں کو نیک بنانے نکلتے ہیں جنہیں خود اپنے نیک ہونے پر بھی یقین نہیں ہوتا تو بہت خرابی پھیل جاتی ہے۔ ایک تو اسی نکتے پر جھگڑا ہو جاتا ہے کہ نیکی ہوتی کیا ہے؟ کچھ لوگ جسم کے مختلف حصوں پر بال کاٹنے اور بڑھانے کو نیکی سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک خاص طرح کا لباس پہننے کو نیکی سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ موسیقی سننے سے نیک بننے میں مدد ملتی ہے، دوسرا کہتا ہے کہ موسیقی سے نیکی برباد ہو جاتی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ناچنا نیکی ہے، دوسرا شور مچاتا ہے کہ ناچنے سے نیکی دور ہو جاتی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ زندگی سے لطف اٹھانا نیکی ہے، دوسرا کہتا ہے کہ زندگی کو حقارت سے دیکھنا نیکی ہے۔ کوئی اپنے اندر کی موسیقی سے ڈرتا ہے تو کوئی اپنے اندر کی خاموشی سے خوف کھاتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ انسان کے جسم کا احترام کرنا چاہیے۔ دوسرا کہتا ہے کہ جسم کو تکلیف دینے سے نیکی پیدا ہوتی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ نجی ملکیت سے خرابی جنم لیتی ہے۔ دوسرے کا موقف ہوتا ہے کہ مال و دولت جمع کرنا اور جائیداد بنانا کوئی غلط بات نہیں۔ ان سب باتوں پر اٹھنے والے جھگڑوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم دراصل اپنی نیکی پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم امپاسٹر سنڈروم کا شکار ہیں۔ ہمیں اپنی اپنی نیکی پر اعتماد کرنا چاہیے۔

ہم سب انسان عمر کے ایک خاص حصے پر پہنچ کر قانونی طور پر بالغ ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اپنے قول و فعل کے لئے ذمہ داری اٹھانا ہوتی ہے۔ بالغ ہونے کا مطلب ہے، اپنے فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانا، ان فیصلوں کی مدد سے اپنی زندگی کو ترتیب دینا۔۔۔۔ اور ان فیصلوں کے نتائج کو تسلیم کرنا۔ ہم میں سے بہت سے افراد کو یقین ہی نہیں آتا کہ ہم بالغ ہو چکے ہیں۔ زندگی کسی کو من مانی شرائط پر نہیں ملتی۔ کوئی غریب گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو کوئی غریب ملک میں پیدا ہوتا ہے۔ کسی کو بچپن میں یتیم ہونا پڑ جاتا ہے تو کسی کو حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ کسی کو اچھی تعلیم کے مواقع ملتے ہیں تو کوئی اپنے بزرگوں اور استادوں کی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ امپاسٹر سنڈروم کی علامت یہ ہے کہ ہم سارا وقت قسمت کو اور دوسروں کو کوستے رہیں۔ اپنی ہر مشکل کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیں، ہر ناکامی کے سامنے ہار مان لیں۔ امپاسٹر سنڈروم کی ان علامتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنی زندگی بھی برباد کر لیں اور دوسروں کی زندگی کو بہتر بنانے کا موقع بھی ضائع کر لیں۔

اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بہتر بنانے کے ان گنت طریقے ہیں۔ مثلاً دوسروں کی مدد کرنا، کسی بیماری کا علاج ڈھونڈنا، معاشرے میں زیادہ انصاف کا راستہ ہموار کرنا، معاشرے میں خوشی کی مقدار بڑھانا، اناج اگانا، مشین بنانا، ایسے سیاسی بندوبست کے لئے کوشش کرنا جس میں زیادہ افراد کو وسائل، فیصلوں اور فوائد میں شرکت کا موقع مل سکے۔ ایک گیت تیار کرنا، ایک نظم لکھنا، ایک مجسمہ بنانا، ایک باغ لگانا، ایک بچے کو سڑک پار کروانا، پیاسے کو پانی پلانا، مریض کو ہسپتال پہنچانا۔ ان سب کاموں اور ان جیسے دوسرے انگنت کاموں سے ہماری زندگی کو معانی ملتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم امپاسٹر سنڈروم سے نکل کر اپنی صلاحیت پر بھروسہ کرنا سیکھیں۔ امپاسٹر سنڈروم کی نشانی یہ ہے کہ اس کیفیت میں مبتلا شخص اپنی صلاحیت پر بھروسہ نہیں کرتا اور اپنے فیصلوں کی ذمہ داری اٹھانے سے ڈرتا ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ہی کی مثال لیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ملک میں، مشکل ذاتی حالات میں، تعلیم حاصل کی۔ اور اب اپنا علم دوسروں تک منتقل کرنا چاہتی ہیں۔ میری رائے میں میڈیکل کے طالب علموں کو اس زبردست موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور عام شہریوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں کہاں کہاں امپاسٹر سنڈروم کا شکار ہیں۔

مہذب انسان بننے کے لئے اور ترقی یافتہ معاشرہ بنانے کے لئے امپاسٹر سنڈروم کی پہچان پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ بہروپ روگ پر قابو پایا جا سکے۔ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی مفید تحریر سے میں نے کچھ اس طرح کے نتائج نکالے ہیں۔ میری رائے طالب علمانہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح بہت سے افراد امپاسٹر سنڈروم (imposter Syndrome) کی میڈیکل تعلیم کے لئے ڈاکٹر لبنیٰ مرزا سے رابطہ کریں گے اسی طرح سوچنے سمجھنے والے افراد ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں بہروپ روگ پر اپنے خیالات سے مجھ سمیت ہم سب کی رہنمائی کریں گے۔ خاص طور پر اگر ڈاکٹر اختر علی نقوی، ڈاکٹر خالد سہیل، ڈاکٹر عاصم بخشی اور وقار احمد ملک اپنے خیالات کا اظہار کریں تو ہم سب بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).