جیم نون گاف ”جنگ“ سے ”ہم سب“ تک


جیم نون گاف ’جنگ ’ کا را چی ، جنگ کراچی ۔ ہیں ! ابا کیا کراچی میں جنگ لگی ہے ؟ ابا نے نفی میں سر ہلایا اور میرے اس احمقانہ سوال پر مسکرا دیے۔ ابا جب بھی شہر جاتے اخبار ضرور لاتے اور میں اسی طرح ہجے کر کر کے اخبار کی سرخیاں پڑھا کرتا۔ یہ میری اخبار بینی کی ابتداء تھی۔ بچپن کی اسی ریاضت کا نتیجہ تھا کہ اخبار خرید کر بھی پڑھا تو محض سرخیوں پر نظر گھمانے پر اکتفا کیا۔ ایک عرصہ تک کالم پڑھنا فارغ لوگوں کا کام اور سراسر تضیع اوقات سمجھتا رہا۔ وقت کے تھپیڑوں اور تلاش معاش نے تھر پارکر کے لق و دق صحراء کی راہ دکھائی جہاں بنیادی ضروریات زندگی ہی ناپید تھیں، اخبار کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ ایسے میں حالات حاضرہ سے آگاہ رہنے کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا، جس کی رسائی کسی پاکستانی ریڈیو اسٹیشن تک نہ تھی۔

ایک دن ریڈیو پر چینل گردی کرتے اچانک بی بی سی اردو لندن کا چینل لگ گیا جس پر وسعت اللہ خان صاحب کا آڈیو کالم بات سے بات نشر ہو رہا تھا۔ یہ 2008 کی بات ہے، آڈیو کالم کا موضوع کیا تھا یہ تو اب یاد نہیں لیکن وسعت اللہ خان صاحب کا دھیمے لہجے کے ساتھ انداز بیان ایسا دلکش تھا جس نے یک بار اپنے سحر میں ایسا جکڑا کہ میں دم سادھے آخر تک سنتا چلا گیا۔ کمال کی جملہ سازی جس میں وفور خیالات، انداز و بیان میں سلاست و روانی تھی۔ مانوں اپنے فن میں یکتا مصور برش سمبھالے کینوس پر رنگ بکھیرنے میں مصروف ہو، جب وہ ختم کر چکے تو اس عکس کا ایک ایک نقش واضح ہو۔ اس دن اپنی کالم نہ پڑھنے والی کوتاہ خیالی پر شدت سے افسوس ہوا۔

تین سال تھرپار کر میں قیام رہا۔ اس دوران باقاعدگی سے آڈیو کالم سنتا رہا اور اخباری کالم پڑھنے سے متعلق تضیع اوقات والے مفروضہ سے رجوع کر لیا ۔ اندورن سندھ واپسی اور اخبار تک باقاعدہ رسائی کے بعد سے آج تک شاید ہی وسعت اللہ خان صاحب کی کو ئی تحریر پڑھنے سے رہی ہو۔ ان کے علاہ دور حاضر کے تقریبا تمام معروف کالم نگاروں کو پڑھا۔ وسعت اللہ خان صاحب کا ذکر بالخصوص اس لیے کیا کیونکہ کالم بینی کی طرف میلان انہی کا مرہون منت ہے۔

2010 سے انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا جس کی بدولت تمام بڑے ملکی اخبارات (ای پیپر ) ایک کلک کے فاصلہ پر مل جاتے۔ چناچہ وقت کے ساتھ میرے پسندیدہ کالم نگاروں کی فہرست بھی طویل ہوتی گئی۔

لکھنے لکھانے کا شغل فیس بک سے شروع کیا۔ کوئی ایک سمت متعین تھی نہ حلقہ احباب کی کوئی طویل فہرست۔ اپنے ارد گرد کے پیش آمدہ حالات کی بدولت جو کچھ دل کی زمین پر اترا فیس بک کے چوپال پر اپ لوڈ کر دیا ۔ انہی گل افشانیوں کو دیکھتے ہوئے ایک دوست نے بلاگ لکھنے کا مشورہ دیا۔ لیکن کیا لکھوں، کہاں لکھوں ؟ کہ اپنی ناسپاسی کا بھی خوب ادراک تھا۔ میرے جیسا کم علم جس کے پٹارے میں ذخیرہ الفاظ محدود ہیں۔ جو لفظوں کے تانے بانے نہیں بن سکتا وہ کیسی تحریر لکھے گا ؟ کون کہاں اور کیوں میری تحریر چھاپے گا؟ چھپے گا بھی یا نہیں؟ اور چھپ گیا تو کون اسے پڑھے گا۔ ان اشکال کا حل و بست بھی اسی دوست نے کیا اور ”ہم سب میں کیسے لکھا جائے“ کا لنک بھیج دیا۔

ہدایات پڑھ کر حوصلہ ہوا کہ یہ معاملہ پردازی زیادہ کٹھن نہیں ہے۔ ان دنوں تھر میں بچوں کی اموات کے حوالہ سے خبریں گردش میں تھیں، اس حوالہ سے اکثریت وہی کچھ جانتی تھی جو رطب و یابس نیوز چینل انہیں بتلا رہے تھے۔ لیکن تھر پارکر میں چند سال قیام کے باعث میرا مشاہدہ اس کے برعکس تھا اور حقائق کچھ اور تھے۔ پس اپنے مشاہدات کو قلمبند کرنے کے بعد ای میل کر دیا۔ یہ اپریل 2016 کی بات ہے، ”ہم سب“ کے ابتدائی دن تھے۔ اپنی تحریر کے شائع ہونے کی جستجو میں بار بار ہم سب کا پیج کھول کر دیکھتا۔ ”ہم سب“ کے صفحات پر موجود نئے چہرے نظر آئے جن میں وجاہت مسعود، عدنان کاکڑ، حسنین جمال، وسی بابا، فرنود عالم جیسے عصر حاضر کے لکھاری قابل ذکر ہیں جن کو پڑھا۔ بعد ازاں ”ہم سب“ پر لکھنے والے میری فہرست میں شامل ہوتے گئے ۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا انداز اپنے اسلوب ہیں۔ ”ہم سب“ پر تحریر بھیجے تیسرا دن تھا کہ میری تحریر بھی ”ہم سب“ کے صفحات پر شائع ہو گئی۔ کسی بھی فورم پر شائع ہونے والی یہ میری پہلی تحریر تھی۔ مشہور روزگار لکھاریوں کے درمیان اپنی تحریر دیکھ کر جو کیفیت تھی وہ بیان سے بارہ پتھر باہر تھی۔

دم تحریر ”ہم سب“ میرے لگے بندھے معمولات زندگی کا ایک لازمی جز ہے۔ ارتقاء کو انجماد نہیں، وسعت اللہ خان کو سننے، پڑھنے سے شروع ہونے والا سلسلہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا ”ہم سب“ تک پہنچا اور ”ہم سب“ کے بعد ڈان اردو، دانش اور مکالمہ نے بھی مجھ کم فہم کی تحاریر کو اپنے صفحات پر رونق بخشی۔

”ہم سب“ کی تحریریں کھولتا ہوں، پڑھتا ہوں، پڑھتے وقت بیاض برابر میں دھری رہتی ہے۔ تحریر سے جملے کشید کرتا ہوں اور بیاض پر لکھ لیتا ہوں۔ تحریریں بھول جاتی ہیں جملے یاد رہ جاتے ہیں۔ وجاہت مسعود کو پڑھتے وقت تو مجھ ایسے کج فہم کو اردو کی لغت بھی ساتھ رکھنی پڑتی ہے، مشکل الفاظ کے معنی دیکھنے کے لیے۔ روزانہ کی یہ مشق میری بیاض میں جملوں اور الفاظ کے ذخیرہ میں اضافہ کا سسب ہے اور ”ہم سب“ سے میرے سیکھنے کا یہ عمل مستمر ہے۔

اس کوچہ سے گزر ہے تو اس بات کا بخوبی احساس بھی کہ اس طرح کا پلیٹ فارم مہیا کرنا اور پھر اسے کامیابی سے چلانا، یہ کسب آسان نہیں۔ اس کے پیچھے مخلصانہ وابستگی، انتھک کوشش اور شبانہ روز کی محنت ہے جس کے لیے ’ ہم سب ’ کے مدیران خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).