کیا مادیت پسندی اختلاف رائے کو اظہار کا حق نہیں دیتی؟


 

محترم خرد صاحب، اپنے ملک کی دو نامور لِکھاریوں اور دانشور خواتین (نورالہدی شاہ اور دشتِ سُوس کی مُصنفہ جمیلہ ہاشمی کی بیٹی عائشہ صدیقہ, جو خود ایک قابل قدر مصنفہ، صحافی اور محقق ہیں) کے عمرہ ادا کرنے اور اُن کے عقیدت مندانہ اظہار پر آپ نے جن سخت الفاظ میں برہمی کا اظہار  کیا ہے،  میں اس پر اپنا سخت اعتراض آپ کے سامنے پیش کرتی ہوں۔ میرے خیال میں مادیت پسندی کبھی بھی کسی کے عقیدہ کے متضاد ایک تنگ نظر روش اپنانے پر مجبور نہیں کرتی، مادیت پسندی دانشمندوں کو انسانوں کے ساتھ ملاحت و تعظیم سے پیش آنا سکھاتی ہے! آپ جیسے علم و دانش کے قدردان انسانوں کے لب و لہجے میں نرگسیت کے بجائے نرمی و احترام ہونا چاہئے۔

سچ تو یہ ہے، میں اس وقت آپ کی علمیت پر تنقید نہیں کر رہی، میں تو خود اسی ہی نقطہ نظر کی شائق ہوں، آپ سے ملاقات ہمیشہ ایک یادگار علمی تجربہ ہوتا ہے، میں تو صرف اس اندازِ اظہارِ تنقید کی دیمک لگی دراڑوں پر نکتہ چیں ہوں جس کا آج یہ ملک شکار ہے، سچ بتاوں تو میں ابھی اُس دکھ کا اظہار ہی نہیں کر رہی جو مجہے ذاتی طور پر اپنی محبوب لکھاریوں کے بارے میں ان غیر شائستہ الفاظ پڑھ کر ہوا، اگر میں اس بنیاد پر بات کرتی تو وہ میرا دکھ ضبط کی حدوں سے گذر جاتا، اور میرا جواب اس حوالے سے شاید نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو جاتا، آپ جیسے علمی، فکری اور فلسفیانہ سوچ رکھنے والے انسان جس احترام کے اہل ہیں، میں اپنے الفاِظ میں اس احترام کو لازمی شامل رکھوں گی۔

محترم خرد صاحب، یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ جمیلہ ہاشمی، نورالہدی شاہ اور عائشہ صدیقہ کی پاکستان میں اور باہر کے ملک دوست حلقوں میں کس قدر تعظیم ہے۔ ہمارے ملک کی ان مایہ ناز و معتبر دانشوروں کے سماجی میڈیا پر ایک خیال پر آپ کے سخت اور احساسِ احترام سے عاری خیالات پڑھے تو ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ آپ کو اُن کا عقیدہ اتنا ناگوار کیسے لگ سکتا ہے کہ اُس کو رد کرنے کے لیئے آپ کو سنگین الفاظ کا سہارا لینا پڑے؟ ہم جیسے لوگ جو کہ مادیت پسندی اور دوسرے عظیم فکری و سائنسی تصورات پر یقین رکھنے والے ہیں، انہیں دنیا کو حسین مادیت پسندانہ تصور سے آراستہ کرنے کے لئے کیا یہی لب و لہجہ ملا تھا؟ معاف کیجئے گا، جن عظیم نظریات کی پیروکاری کا ہم دعوی کرتے ہیں، اگر وہ اعلی نظریات ہمیں شائستگی نہیں سکھاتے، تو ہم سمجھ جائیں کہ ان کے جوہر میں کوئی خطرناک خلا ہے۔ آج یہ میں علانیہ کہے دیتی ہوں، کہ جو نظریہ انسان کو نرگسیت پسند بنا دے وہ نہ صرف انسان دوست نظریہ نہیں ہے، لیکن وہ کبھی سماج کو اثبات کی جانب لے جانے کا اہل بھی نہیں ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ عظیم نظریات انتہاپسندوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد سماجوں میں اپنی اس شان سے لاگو نہیں ہو پاتے، جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

محترم خرد صاحب، آپ بتائیے، نظریہ مادیت پسندی ظاہر ہے کہ اس معاشرہ کو بہتر بنانے کے لیئے ہی ہے نا؟ یعنی جو بھی ترقی پسند و انسان دوست نظریات ہوتے ہیں وہ معاشروں کو ”انسانوں کے لیے“ ہی بہتر بنانے کی ایک سعی ہوتی ہے نا؟ تو کیا مادیت پسندی یہ کہتی ہے کہ عقیدہ پسندوں کو شدتِ نگاہِ نفرت سے دیکھیں؟ ہرگز نہیں! یا، چونکہ ہم نے معاشرے کو کامیاب، ترقی پسند و مادیت پسند بنانا ہوتا ہے، تو مادیت پسندی کے تصور کے مطابق ہمیں سب سے پہلے عقیدہ پرستوں کو تہس نہس کرنا ہوگا۔۔۔؟ ہرگز نہیں! ہمارے معاشرے میں انسانوں 95 فیصد آبادی سے زیادہ لوگ عقیدہ پرست ہیں؟ کیا ہم ان کی یہی قسمت لکھیں گے کی اہم انہیں اپنی نگاہِ نفرت، برہمی اور نازیبا گفتگو کا شکار کردیں گے؟ اور بالآخر ان کا خاتمہ کردیں گے؟

محترم خرد صاحب، آپ بھی ذرا غور کیجئے، تاکہ وہ نظریہ جس کی پیروکاری کا آپ اور ہم دعوی کرتے ہیں، وہ تو تُہمت سے بچے، ذرا اپنی لکھی ہوئی آراء کو ایک نگاہِ نرم سے دیکھیے:

محترم خرد صاحب، آپ کہتے ہیں، ”مذہب ڈھلوان کی مانند ہوتا ہے، اُس پر جب پاوں آتا ہے تو پھر (انسان) پھسلتا ہی جاتا ہے۔“ حقیقت یہ ہے محترم خرد صاحب کہ اصل میں یہ انتہاپسندانہ روش ہوتی ہے، جو ڈھلوان کی مانند ہوتی ہے، اس روش سے جو بشر پھسلتا ہے تو اُسے خود پھسلنے کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارا محبوب ملک ان مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔

محترم خرد صاحب، آپ کہتے ہیں، ”میں عشق پر عقل کی پاسبانی کا قائل ہوں“۔۔۔ عقل کی پاسبانی تسلیم، لیکن بہت ہی معذرت کے ساتھ کہوں، پاسبانی عقل کبھی بھی اپنے مخالف کے لیئے غیر شائستگی اختیار کرنے کا سرٹیفیکیٹ نہیں عطا کرتی۔

محترم خرد صاحب، آپ کہتے ہیں،”میں صرف اپنا حقِ اظہار استعمال کرلیتا ہوں، بطور دوست“

معذرت کے ساتھ، آپ کے لب و لہجے میں دوستی کم نظر آئی، اور رائے کے اظہار کا اختیار سب کو ہونا چاہئے، صرف آپ ہی کو کیوں؟ آپ ہماری لکھاریوں کو کہتے ہیں، اگر آپ جیسی باشعور خواتین ایسے جذبات کو پبلک کرنے لگیں  گی، تو پھر مذہب کے نام پر جہاں کہیں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ سب ٹھیک ہی ہے۔

تو محترم خرد صاحب، عُمرے پر جانا بم پھوڑنے کی مانند کب ہوا؟ دہشت گردانہ روش کیسے ہوا، ذرا ہمیں بھی تو بتائیے؟ یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عُمرے پر جانا اُس بدترین ظُلم کے مُترادف ہے جو کہ مذہب کے نام پر اس ملک اور دنیا کے مخصوص خِطوں میں ہو رہا ہے؟ یہ ایک اور منطقی خلا ہے جو مجھے آپ کی تنقید میں نظر آیا ہے کہ آپ نے ہماری ان بہترین لکھاریوں کو صرف عُمرہ ادا کرنے کے ”پاداش“ میں دہشت گردوں کے دائرے میں رکھ دیا۔ میں بار بار صرف یہی دہرانا چاہوں گی کہ تنقید میں تعظیم و شائستگی کی بجائے تنگ نظری ہوگی تو وہ تنقید تعصب میں بدل جاتی ہے، مثبت تنقید سے سماج پر مثبت اثرات نظر آتے ہیں، اور سماج بہتر ہونے لگتے ہیں۔

میرا دعوی ہے، کہ علمیت، فلسفہ اور مادیت پسندی کسی بھی صورت میں یہ روش نہیں سکھاتے، اگر یوں ہوتا تہ سب سے پہلے آپ اور ہم جیسے پیروکار، جو کہ انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں، ان عظیم نظریات سے دستبردار ہو جاتے۔

بقول آپ کے ہماری لِکھاریوں کا جمیلہ ہاشمی کے اس قلم، جس سے انہوں نے ”دشتِ سُوس“ جیسا شاہکار لکھا تھا، کی تعظیم کرنا صرف ان کی مذہبیت کی وجہ سے ہوگا، آپ ذرا غور کیجئے اور بتائیے، نورالہدی شاہ یا عائشہ صدیقہ اس قلم کی تقدیس کی بات مذہبی حوالے سے کر رہی ہیں یا یہ وہ ایک فرطِ جذبات اور محبت کا  اظہار تھا؟

کیا ہم ان بولشیوکوں کے پیروکار ہیں جنہوں نے 1917ء کے بولشیوک انقلاب میں لڑنے والے اور انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کرنے والے ہزاروں مسلمان سپاہیوں کو اس جنگ میں حصہ لینے کا یہ صلہ دیا کہ ان کو جلد از جلد عقیدہ سے عاری کرنے کے لیے ہر گلی کوچے میں قائم مسجدیں ڈھانا شُروع کردیں تھیں؟ اس لیے کہ ان کو معاشرے کو جلد از جلد لادینی بنانا تھا؟ تو اس روش سے کیا وہ معاشرے کو لادینی بنا پائے؟ بولیے کہ اس سفاکانہ حکمتِ عملی کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک گلی میں اگر مسجد ڈھاتے، تو اس گلی کے ہر گھر میں الگ الگ ایک مسجد کھل جاتی۔ اور اس کا بدترین نتیجہ جو ہوا وہ افغان جنگ میں ہم نے دیکھا کے کس طرح ریڈ آرمی کے مُسلمان لڑاکے اپنی فوج کو چھوڑ کر مجاہدین کی صفوں میں جا شامل ہوئے تھے، اس عمل کے پیچھے بہت سارے عوامل کے ساتھ انہی کمزور سیاسی حکمتِ عملیوں کا نتیجہ بھی تھی۔ تو سوویت یونین میں انتہا پسندی 1917ء کے انقلاب سے ہی ان عقیدہ پسندوں کے روحوں پر رینگنا شروع ہو گئی تھی، لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے، کہ ہم مانیں کہ مسجدیں ڈھانے والے ان سے کہیں زیادہ بدترین انتہا پسند تھے۔

سچ یہ ہے کہ ایک طرف جہاں مذہب کے نام نہاد عشاقوں سے پناہ مانگنی ہی چاہئے، وہاں ایک اور پناہ ان نام نہاد ترقی پسند اور مادیت پسند انتہا پسندوں سے بھی مانگنی چاہئے، جو ان عظیم نظریات کی پیروکاری میں اس حد تک گذر جاتے ہیں کہ ان کی نظر میں انسان غیر اہم ہو جاتا ہے، اور نتیجے میں انہی نظریات کی عظمت کو انسانی تاریخ میں بڑی چوٹ لگتی ہے۔

اس معاشرے کو اب تنگ نظری کے بجائے سوچ کی کُشادگی کی ضرورت ہے۔ لیکن یاد رکھیے، فقط مذہبی انتہا پسندوں کی تنگ نظری سے اس ملک کو آزاد نہیں کرنا، ہمیں اپنی ہی صفون میں سے عقلیت پسندوں اور علمیت کے علم برداروں کی تنگ نظر سفاکی سے بھی چُھٹکارا چاہئے۔ کیونکہ کوئی بھی نظریہ، بے شک عظمت کی اونچی وادیوں سے اتر آئے، تنگ نظر ہوگا تو انسان دوست نہیں بنے گا، اور انسان دوست نہیں بنے گا تو انسانی زندگی بھگتے گی! اور بہت بھگتے گی!

اس بات کو تو شاید آپ بھی مانتے ہیں کہ نرگسیت انسان کے مزاج کو برہم کر دیتی ہے، اور برہمی صرف برہنہ نہیں کرتی، برباد بھی کردیتی ہے! یہ ملک آج اس نرگسیت کی دین کو بھگت رہا ہے- جس میں صرف برہمی، برہنگی اور بربادی ہے!

 

ڈاکٹر سحر گل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سحر گل

سحر گل بینظیر بھٹو چیئر کراچی یونیورسٹی کی ڈائیریکٹر، محقق، کالم نگار، ناول نگار و افسانہ نگار اور اردو کی شاعرہ ہیں.

sahar-gul has 5 posts and counting.See all posts by sahar-gul