امن کیوں ضروری ہے؟


یہ ہمارا مدرسے میں پڑھائی کا آخری سال تھا اور فائنل ایگزام چل رہے تھے۔ برسات کے دن تھے، بارشوں بلکہ طوفانی بارشوں نے کراچی کی سڑکوں کو سیلابی نہروں کی شکل دیدی تھی۔ بارش ہلکی ہو تو بڑی رومان انگیز ہوتی ہے۔ نوجوان سب کچھ چھوڑ کر بارش کا لطف لینے نکل جاتے ہیں، مگر جب طوفانی ہوجاتی ہے تو زندگی کو مشکلات کا شکار بنادیتی ہے۔ رات گیارہ بج رہے تھے۔ پڑھتے پڑھتے خیال آیا کہ چائے پینے سڑک پر نکلا جائے، بھیگے موسم کا لطف بھی لیا جائے اور چائے پی کر کچھ دماغ بھی ہلکا کرلیا جائے۔

دوست کا ہاتھ پکڑ کر اسے کتاب سے اٹھایا۔ نیچے لاکر گیٹ کی راہ دکھائی اور سڑک پر نکل آئے۔ ہوٹل کے سامنے پہنچے ہی تھے کہ ایک موٹر سائیکل آکر رکی۔ موٹر سائیکل پر ایک نوجوان تھا جس کی گود میں ایک چھوٹی سی پھول سی بچی بیٹھی تھی۔ خدا جانے بارش کے کتنے تیز ریلے سہہ کر یہاں پہنچے تھے۔ جوان نے اپنی شرٹ، ایک دو شاپر اور کچھ کپڑوں سے بچی کو ڈھانپنے کی پوری کوشش کی تھی مگر لاغر سی گوری بچی پانی میں بھیگی سردی سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ میں نے لپک کر اسے اٹھایا۔ کرسی پر بٹھا کر اس پر سے بھیگے کپڑے اور شاپر اتارے۔ اس کے فراک اور بالوں سے پانی گررہا تھا۔ میں نے اپنے جذبہ ہمدردی میں اسے اٹھا کر ہوٹل کے چائے کے کیبن کے اندر بٹھادیا جہاں چولہا جل رہا تھا۔ بچی گم سم سردی سے تھر تھر کانپتی بیٹھی رہی۔ نوجوان موٹر سائیکل سے اترا، جھپٹ کر بچی کو اٹھایا۔ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے انہیں ٹیبل پر بٹھایا، اپنے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی چائے کا آرڈر دیا۔

چائے آگئی مگر وہ چائے پینے سے انکاری رہے۔ تب تک شاید کچھ جان میں جان آئی تھی اس لیے شکریہ شکریہ کرتے اٹھے اور باہر جاکر پڑوس کی دکان میں جاکر بیٹھ گئے۔ چائے بھی وہیں منگوائی اور وہیں بیٹھ کر آگ پر ہاتھ تاپنے لگے۔ میں سوچتا رہ گیا اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ بالآخر جو بات سمجھ آئی وہ یہ کہ ان دنوں کراچی لسانی فسادات کی لپیٹ میں تھا ۔ صبح شام ہڑتالیں، ہڑتالوں کے نام پر قتل وغارت کے واقعات روز کا معمول تھے۔ ایسے میں ہر شخص خود کو غیر محفوظ سمجھتا تھا۔ آپ پشتون ہیں اور چلتے چلتے اردو سپیکنگ کے علاقے میں نکل آئے ہیں تو ایک خوف سا دل وماغ میں لہرانے لگتا۔ آپ اردو سپیکنگ ہیں اور پشتونوں کے بیچ پہنچ چکے ہیں تو انجانے خدشات آپ کے گرد رقص کرنے لگتے۔

میں نے غور کیا اس وقت ہوٹل میں ملازمین اور گاہکوں سمیت ہم چند افراد پشتون ہی تھے، جبکہ یہ جوان اردو سپیکنگ تھا۔ برابر کی دکان باربی کیو کی تھی جو اردو سپیکنگ تھے۔ جوان کو خوف تھا کہ ہم ہمدردی کے بہانے اس کو یا بچی کو نقصان نہ پہنچادیں۔ مجھے اپنے خلوص کے جواب میں اس کے اس رویے پر افسوس بھی ہوا مگر پھر سوچا وہ بھی غلط نہیں ہے۔ جب سارا شہر خوف کی فضا میں سانسیں لے رہا ہو ایسے میں کوئی ایک شخص کیسے خوف سے بے پروا ہوسکتا ہے۔ وہ کیسے کسی پر اعتبار کرسکتا ہے اور کیوں کسی کی ہمدردی کو ہمدردی سمجھ سکتا ہے۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں سماج کی عکاسی کرتی ہوئی ایک تصویر ہے۔ جو بتاتی ہے کہ جن معاشروں میں امن مٹ جاتا ہے وہاں وحشت، خوف، دہشت، بداعتمادی اور ہراس کی زہریلی جڑیں پنپنے لگتی ہیں۔ اور جب معاشرہ اس قدر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجاتا ہے تو وہاں سے اخلاقی قدریں بھی چلی جاتی ہیں۔ محبت، خلوص، ہمدردی، رواداری اور باہمی احترام کے الفاظ اجنبی ہوکر روٹھ جاتے ہیں۔ خوشیوں کے نغمے یہاں نوحوں میں بدل جاتے ہیں۔ بلبلوں کی مدھر گیتوں کی جگہ درد سے کرلاتی کونجوں کی چیخیں فضا میں اٹھتی ہیں۔

جن معاشروں میں امن قائم ہوجاتا ہے اور زندگی ایک طویل دورانیے کے لیے اپنی ڈگر پر چلنے لگ جاتی ہے وہاں قانون کی پابندی، احترام، محبتیں اور اخلاقی قدریں قائم ہوجاتی ہیں۔ انسانوں میں آپسی ہمدردی کے جذبات پروان چڑھنے لگ جاتے ہیں۔ وہاں کسی طاقت اور اصول کے زور پر نہیں بلکہ انسانی طبعیتوں میں موجود شرافت اور قدریں ہی معاشرے میں سکون رائج کرتی ہیں۔ سماج میں برائی کو برائی ہی سمجھا جاتا ہے اس کے لیے کسی دلیل وحجت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کارل مارکس نے تو اس عمل کی انتہا میں ریاست کے وجود کو لایعنی قرار دیا ہے۔ اس لیے ان کے فلسفے میں ایک ایسا تصوراتی معاشرہ بھی موجود ہیں جہاں ریاست اور حکومت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں اور سماج اپنی طبعی تربیت کے باعث خود بخود درست ڈگر پرچل رہا ہے۔ ریاست یا حکومت کا وجود ضروری ہے یا نہیں؟ کوئی معاشرہ اس کے وجود سے مستغنی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس پر بحث ایک الگ موضوع ہے۔ سردست ایک مثال پیش کرنا مقصود تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی میں اپنی تعلیمات سے ایسی ہی سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا تھا۔ اسلام میں حکومت اور ریاست کا قیام بعد میں ہے، ایک اخلاقی قدروں پر قائم معاشرے کا قیام پہلے ہے۔ جہاد بالنفس کو جہاد اکبر کہنے کی جو روایت مشہور ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ نفس کی اخلاقی تربیت کرکے ایک بہترین معاشرہ قائم کیا جائے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شاید دنیا کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے نظریات اور تعلیمات کی روشنی میں ایسا معاشرہ قائم کردکھایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ دعوت ہی تھی جس نے جہالتوں اور جنگوں کے معاشرے کے بیچ میں ایک فلاحی امت کی بنیاد ڈالی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی امن کی بات کی تھی جب مکہ کے سردار آپ کے سر پر اوجھڑی ڈال جاتے حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر لوگ ایمان لاچکے تھے جن کے رعب سے قریش کے سردار کانپتے تھے۔ جن کی طاقت کا رعب اتنا تھا کہ مسلمانوں نے کھلم کھلا اپنے دین کا اظہار کردیا تھا مگر حضور نے اس وقت بھی جنگ کی اجازت نہیں دی۔ ظلم سہہ کر دین کی دعوت دینے کا حکم تھا۔ برداشت، تحمل، رواداری کی عملی تر بیت اس وقت ہی صحابہ کرام کی کردی گئی۔

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے طاقتور صحابی جو اکیلے قبیلے کے بیس پچیس جوانوں پر غالب آجاتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ وجدل سے منع فرمایا تو اتنی مار کھاتے کہ زخموں سے خون رسنے لگتا اور بے ہوش ہوجاتے مگر مجال ہے جو بدلہ لینے کے لیے کھڑے ہوجاتے یا اپنا غصہ دکھاتے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ہونے والے مظالم ایک الگ داستان ہے۔ حضرت خباب بن الارت کو جلتے کوئلوں پر لٹایا جاتا، پڑھتے جائیے صحابہ کرام پر ہونے والے مظالم مگر اس پورے دور میں کسی ایک صحابی کی جانب سے بدلے کا کوئی اقدام سامنے نظر آئے تو بتادیجیے، حضور سے اجازت لینے آئے تو انہوں نے منع فرمایا۔ اللہ کے رسول نے عربوں کی جبلتوں میں موجود جنگجویانہ عنصر کا صفایا کروایا۔ دل ودماغ سے نفرت اور انتقام کی جڑیں اور ان کے ریشے تک صاف کروا دیے۔ جنگوں سے پاک ایک ایسی نئی سوسائٹی کا قیام حضور کے پیش نظر تھا جہاں اخلاقیات اور مذہبی تعلیمات ہی کی روشنی میں آپس کے تعلقات استوار رکھیں۔ جہاں طاقت کا زعم نہ چلتا ہو، نخوت کا راج نہ ہو اور انسانوں کے آپس کے تعلقات کسی خوف وہراس کے ماحول کی بجائے ہمدردی اور محبتوں کے ماحول میں استوار ہوں۔

مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سوسائٹی پر طائرانہ نگاہ ڈالیے تو نظرآتا ہے کہ اس تربیت نے لوگوں میں کتنی تبدیلی پیدا کردی تھی۔ بہرحال سیرت کا ایک گہرا مطالعہ لازمی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں ناپید ہے۔ سوالات اٹھانے کا شوق سب کو ہوتا ہے مگر اس کا جواب تلاش کرنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔ گلہ تو مگر ان سے نہیں جو سوال اٹھاتے ہیں، اپنا المیہ یہ ہے کہ اسی نبی کے محبت کے نام پر ہمارا معاشرہ انہیں کے بتائے ہوئے اخلاقی قدروں کی پامالی کررہا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ہم کس زوال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذہبی جامہ تلاشی اور ایمان کی تصدیق کےجو سلسلے ہم نے شروع کیے ہیں، گستاخی اور عشق کے جو معیارات طے کیے جانے لگے ہیں، یہ سلسلہ مذہب پر ہی کیسی تباہی بن کر گرے گا اس کا اندازہ ہی اب کیا جاسکتا ہے۔ حضور کے پیش نظر واللہ ایسا معاشرہ نہیں تھا۔ حضور نے کبھی ایسی تعلیمات نہیں دی ہیں۔ مذہب کے ان خود ساختہ انسپکٹرز سے گذارش ہے کہ اگر لوگوں کو مسلمان رہنے دینا ہے یا یہاں سے اسلام کو مٹانا مقصود نہیں ہے تو لوگوں کو امن سے رہنے دو لوگوں کو سکون دو۔ حضور کی محبت کا دعوہ ہے تو ان کا قائم کردہ پرامن معاشرہ زندہ کرو بخدا اسلام کی نشاۃ ثانیہ خود بخود ہوجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).