‘ہم سب ‘کی نیم برہنہ تصویروں پر ۔۔ برہنہ تنازعہ! (2)


اب آئیے اے پی اے (امیریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن) کی ایک اوررپورٹ کی جانب جس میں ان ملنے والے شواہد پر بات کی گئی ہے جو جنسی تجسیم کاری کے نتیجے میں  پیدا ہونے والے ذہنی عارضوں پر بات کرتی ہے۔ جب بھی آپ کوئی تصویر اس انداز سے شائع کرتے ہیں جس میں “شخصیت ” پیچھے چلی جاتی ہے اور شخصیت پر ۔۔’جسم کا کوئی حصہ’ زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یعنی مخالف جنس کے لیے وہ ایسی جنسی محرک کا سبب بنے کہ جسم کا کوئی خاص حصہ ۔۔’کل’ پر بازی لے جائے تو یہ سب جنس زدگی کا جنسی تجسیم میں آتا ہے۔ اس سے فرد جس کی تصویر ہے پر ‘جنسی شے’ کا گماں غالب آ جاتا ہے۔اس پورے عمل سے سے سب زیادہ متاثر لڑکیاں اور خواتین ہوتی ہیں۔ دوسری طرف ‘جنسی شے’اگر مرد میں جنسی جارحیت کا سبب بنے تو وہ بھی بالواسطہ عورت کو ہی متاثر کرتی ہے۔

لڑکیوں اور خواتین میں وہ ذہنی عارضے جو نمایاں طور پر نوٹ کیے گئے  ان میں کھانے  میں بدنظمی کا عارضہ،  خود اعتمادی میں کمی کا عارضہ، جنسی فعل میں ناکامی اور ڈپریشن نمایاں ذہنی عارضے تھے۔ڈاکٹر ایلین زربرگن نے کہا ، “میڈیا پر دکھائی جانے والی جنسی تجسیم کاری کے اثرات اب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اس سے بالخصوص نوجوان لڑکیوں میں صحت کے پیچیدہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں” یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر سانتا کروز  جو اے پی اے ٹاسک فورس کے رکن بھی  تھے نے کہا ، “اب ہمارے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ جنسی تجسیم کاری مختلف انداز سے انتہائی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ یہ سوچنے کی صلاحیت ، جسمانی و ذہنی صحت اور صحت مند جنسی نشوونما کو متاثر کر رہی ہے”

جنسی نشوونما میں اس نے سب سے برے اثرات لڑکیوں کے ‘سیلف امیج ‘ کے حوالے سے ڈالے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں جنسی تجسیم اور جنس زدگی کو ختم کر کے عورت کی ان تصویروں اور ویڈیوز کی جانب آنا ہو گا جو ان کی شخصیت کے کل کو دکھائے اور ان کی صلاحیتیں اور اہمیت کو دکھائے نہ کہ ان کے جسم کے حصوں کو دکھا کر ، خود ان کی توجہ کو ان کی صلاحیتوں سے ہٹا کر جسم کے مخصوص حصوں پر ڈال دے۔ اس سے سب سے بڑا نقصان ان کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔۔

اس مضمون کو پڑھنے والے وہ بھی ہوں گے جن کا تحقیق کے میدان سے واسطہ ہو گا ۔ان کی معلومات کے لیے عرض کیے دیتا ہوں کہ اس طرح کے ٹیسٹس کے لیے جو پیمانے مرتب کیے گئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ریلائبلیٹی اور ویلیڈٹی کو بار بار چیک کیا گیا۔ اس میں کراس سیکشنل اور لانگیچیوڈنل تحقیق دونوں شامل ہیں۔مثال کے طور پر چھاتیوں کے حوالے سے ایک تحقیق میں ہوشربا حقائق سامنے آئے کہ میڈیا پر خوبصورتی کے معیار اور چھاتیوں کو ‘جنسی شے’ کے طور پر پیش کرنے سے نو عمر لڑکیوں میں کس قدر ڈپریشن پھیلا۔ انٹر نیٹ اور موبائل پیغا مات کے ذریعے لڑکیوں نے اپنی چھاتیوں کی تصاویر بہت زیادہ شئیر کیں  اس میں بیشتر کیسز وہ تھے جو خود اعتمادی میں کمی سے متعلق تھے۔ نفسیات کو اس سے تو غرض نہیں کہ کوئی فرد اپنی نجی زندگی میں کیا کر رہا ہے لیکن جب یہ معلوم ہو کہ کوئی معاملہ ڈپریشن کا باعث بن رہا ہے۔ کوئی معاملہ غیر منطقی حد تک غیر معمولی توجہ حاصل کرے کے فرد کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے اور اس غیر معمولی توجہ سے فرد (لڑکیوں) کے تعلیمی گریڈز متاثر ہو رہے ہیں تو پھر یہ معاملات یقیننا نفسیات کے دائر میں آ جاتے ہیں

ماہرین نفسیات کی زیادہ توجہ لڑکیوں کے نشو ونما والے مرحلے پر مرکوز رہی ہے۔میڈیا پر بار بار دکھائی جانے تصاویر اور ویڈیوززوردیتی ہیں کہ کامیابی حاصل کرنے کا معیار کیا ہے؟  مردوں کی توجہ کیسے حاصل کی جائے؟ مردوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ‘جنسی شے’بننا ضروری ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا یہ نشونما کے مرحلے میں لڑکیوں کے لیے ہر آنے والا دن چیلنج سے کم  نہیں ہوتا۔ ایک  تحقیق اس انداز سے کی گئی کہ پہلے یہ ٹسٹ کیا گیا کہ کون کون سی لڑکیوں میں ‘جنسی شے’ کا تاثر داخلی سطح پر سرایت کر چکا ہے۔ اور کون سی لڑکیوں میں اس کے اثرات کم ہیں۔ سٹڈی کے دوسرے مرحلے میں ان کو ایک پیپر پڑھنے کو دیا گیا۔ نتائج سو فیصد حسب توقع آئے۔ جنسی شے کا داخلی سطح پر تاثر لینے والی لڑکیوں نے زیادہ وقت ، شیشے کے سامنے گزارا جہاں وہ اپنے جسم کے زاویوں کو بار بار دیکھتی رہیں  ، شیشہ نکال کر بار بار میک اپ دیکھتی رہیں۔ لپ اسٹک کا جائزہ لیتی رہیں جبکہ دوسرے گروپ نے زیادہ وقت پیپر پڑھنے پر صرف کیا۔

ٹالمین کی ایک ایک تحقیق کے مطابق  آٹھویں جماعت کی لڑکیاں جن میں ‘شے’کا تصور زیادہ تھا وہ خود اعتمادی میں کمی کا شکار تھیں۔ اب تو اور بھی بہت سی تحقیقات آ چکی ہیں جو ان دو تغیرات کے باہمی تعلق کو مضبوط بیان کرتی ہیں۔ اگر آپ محقق ہیں اور تحقیق کے آلات سے واقف ہیں تو پاکستان  میں یہ تحقیق کر کے دیکھ لیں نتیجہ وہی آئے گا۔ یعنی ہر وقت  اپنے جسمانی خدو خال اور میک اپ لباس وغیرہ کے حوالے سے حساس خواتین میں خود اعتمادی کی کمی دیکھنے میں نظر آئے گی۔

اس کو ایک اور ‘مردانہ مثال’ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو معلوم  ہے کہ چھپڑ پھاڑ کر جب  اچانک کسی غیر تعلیم یافتہ شخص کے پاس رقم آ جائے تو اس کوسمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے۔ وہ مہنگی کار لے کر مطمئن نہیں ہو گا بلکہ اپنے نام سے ایک نمبر پلیٹ لینے کے لیے لاکھوں خرچ کرے گا۔ پچھلے شیشوں پر اپنے بچوں کا نام لکھوائے گا ، کیونکہ  مسئلہ یہ ہے وہ ‘شے ‘کے حوالے سے محدود سوچ کا حامل ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایم آئی ٹی کے تعلیم یافتہ افراد اپنے وزیٹنگ کارڈ پر نام کے ڈاکٹر یا پی ایچ ڈی بھی نہیں لکھواتے بلکہ صرف اپنے ذاتی نام تک محدود رکھتے ہیں جس کا مقصد بھی صرف شناخت تک محدود ہو تا  ہے۔ ان دونوں مثالوںمیں آپ نے خود اعتمادی کے فرق کو محسوس کیا؟ اگر کیا۔۔ تو کیا اس بات پر غور کیا کہ دونوں میں اس فرق کی وجہ کیا ہے؟

اے پی اے نے ایک دلچسپ مطالعہ کیا۔ کچھ خواتین کو تیرنے والا لباس دیا  جو دودھجیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور کچھ خواتین کو عام روز مرہ کا لباس۔اس کے بعد ان کو ریاضی کی ایک مشق دی گئی۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ تیرنے والا لباس پہننے والی خواتین کی کاردگی ریاضی امتحان میں انتہائی بری تھی۔ جبکہ عام روزمرہ کا لباس پہننے والی خواتین نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ صرف یہی نہیں  پھر یہی ٹسٹ مردوں پر کیا گیا جس میں دونوں گروپس کے نتائج میں  کوئی فرق نہیں تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ تیرنے والا لباس پہننے والی لڑکیوں  کی ساری توجہ جسمانی خدو خال پر چلی گئی جس کا کڑا معیار میڈیا نے بطور جنسی شے ان کے دماغ میں قائم کر رکھا تھا۔

ایک اور اہم تحقیق میں سامنے آیا کہ افریقن امریکی خواتین، لاطینی اور ایشیائی امریکی خواتین   جسم کے خدوخال کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں جو نہ صرف ان کی ریاضی کی صلاحیتوں پر اثرا نداز ہو تا ہے بلکہ منطق اور مقامات کے حوالے یاداشت پر مضر اثرات ڈال رہا ہے۔ 2006 میں ایک تحقیق کے نتائج حیران کن تھے۔ ہائی سکول میں ایسی لڑکیوں کا ریاضی  اوردیگرسائنسی مضامین کو ڈراپ کرنے کا تناسب اتنا زیادہ تھا کہ دونوں تغیرات کے مابین مضبوط تعلق کی نشاندہی کر رہا تھا ۔1997 کی ایک تحقیق کے مطابق یہ رجحان زیادہ اس وقت نظر آتا ہے جب لڑکیاں نوجوانی میں قدم رکھتی ہیں اور ان کے جسمانی خطوط نمایا ں ہو کر ان کو شناخت دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر صرف لڑکیوں کی کلاس ہو جس میں لڑکے نہ ہوں تو ان کی ریاضی میں کارکردگی بہتر ہوتی ہے لیکن بصورت دیگر ‘جنسی شے’ والا معاملہ ان کی توجہ کا بیشتر حصہ ان کے جسمانی خدو خال کی جانب مبذول کر دیتا ہے۔

جسمانی خدوخال سے لگاتار غیر مطمئن ہونے کی صورت لڑکیوں میں پلاسٹک سرجری کا ، رجہان بڑھ جاتا ہے، حال ہی میں اینجلیناجولی کی طرح نظر آنے کی خواہشمند ایک ایرانی خاتون نے اوپر نیچے 50 پلاسٹک سرجریز کروائیں۔ کیونکہ ہر سرجری کے بعد نتائج غیر متوقع آئے ۔ حسب منشا نتائج حاصل کرنے کے لیے 50 سرجیریز کے بعد اس خاتون کی کیا حالت ہوئی اس پر افسوس کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ماہرین نفسیات افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے کیسز پر تحقیق بھی کرتے ہیں اور جب ذمہ دار میڈیا کی پھیلائی جنسی تجسیم کاری نکلتی ہے تو اس پر آواز اٹھانا لازم ہو جاتا ہے۔ اینجلینا جولی نے کہا کہ وہ تو مجھ سے بھی خوبصورت تھی یہ اس نےکیا ظلم کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ یقیننا قہ اینجلینا جولی سے زیادہ خوبصورت تھی لیکن وہ ۔۔وہ شے ۔۔نہیں تھی جو اینجلینا جولی شے تھی۔ وہ جولی کی طرح کی ‘شے’ بننا چاہتی تھی کہ کڑا معیار یہی طے پایا تھا۔پلاسٹک سرجری میں 388 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ جسم کے مختلف حصوں کو ‘جنسی شے’ کے معیار تک لانا خواہش ہوتی ہے۔

اس تحقیق کا ایک رخ یہ بھی ہے ایسی تمام خواتین جو اپنے جسمانی حصوں سے مطمئن نہیں تھیں ان کی جنسی زندگی بھی متاثر تھی، وہ بہت کم جنسی صحبت کی جانب گئیں اور ان کے لیےہر بار یہ تجربہ ہولناک ثابت ہو تا رہا۔ جب ایک سٹڈی میں ‘جسمانی تجسیم’ کے خیال کو بطور تجربہ خواتین کے ذہن میں ڈالا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ جسمانی جنسی تعلق کی جانب ان کے میلان میں بہت زیادہ کمی نوٹ کی گئی۔

جہاں مردوں میں جنسی جارحیت کے ساتھ اس کا تعلق دیکھا گیا وہاں ایک نمایا ں اشارہ یہ ملا کہ مردوں کے  ذہنوں میں ‘جنسی شے’ کے معیارات راسخ ہو گئے۔ ایک مکمل عورت کا تصور ان کے نزدیک جسمانی زاویوں اور خدوخال کا وہ سہہ ہندسی اشاریہ ہے۔ اس سے شادی جیسے معاملات کے ‘مکمل عورت۔ کے چناؤ میں مسائل پیدا ہونے شروع ہو گئے۔

اگر آپ مرد ہیں تو فرض کیجئے کل اچانک سے آپ کے دایں بازو کو جنسی کشش کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دے دیا جاتا۔ دکھایا جاتا ہے کہ بازو کی مخصوص شکل سے خواتین  ایسے مردوں کے لیے پاگل ہو رہیں ہیں۔ آپ ایک مہینے بعد نوٹ کریں گے کہ آپ کے دن بھر کی توجہ کا کثیر وقت آپ کا یہ بازو کھا رہا ہے۔ یہ تو ایک بازو کی مثال تھا۔۔اگر آپ کو پورا جسم ایک ‘جنسی شے’ بن جائے تو آپ کہاں ہوں گے؟ کہیں نہیں۔۔۔آپ کی شخصیت محض کچھ جسمانی حصوں کے پیچھے سمٹ کر رہ جائے گی۔

اے پی اے ٹاسک فورس کی تحقیق کے کئی اور بھی پہلو ہیں بہت سے زاویے ہیں۔ہماری عرض صرف اتنی ہے کہ دماغ نے اپنی ساخت کے اندر جنسیت کے لیے جتنا حصہ رکھا ہوا ہے اتنا ہی اس کو دیں۔ یہ نہ ہو اعلیٰ عقلی خانے سمیت تمام تخلیقی صلاحیتوں پر جنس کا سرخ رنگ غالب ہو جائے۔ میں تو اپنے وطن اور کرہ ارض کی تمام خواتین کےحوالے سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ وہ پر اعتماد ہوں۔ وہ انمول زندگی کی محدود توجہ کو ‘بریسٹ سائز’پر محدود نہ کر دیں۔ ان  کی زندگی ہر وقت آئینہ دیکھتے نہ گزرے اور نہ ہی چہرے پر پڑنے والی پہلی جھری سے ان کے دل پر خراش لگے بلکہ ۔۔۔۔پہلی جھری سے ان کو دانش کی پہلی کرن کا احساس ہو اور وہ  مزید پر اعتماد ہوں۔وہ بات کریں تو ان کی  توجہ زبان سے نکلنے والے کانٹینٹ کی جانب ہو نہ کہ وہ ہر وقت اس حوالے سے حساس ہوں کہ بات کرتے ہوئے لب کے کسی گوشے سے سرخی نہ اتر جائے۔ان کی آنکھوں میں کاجل کے اندھیاروں سے زیادہ اہم دانش وری کے اجیالے ہوں کہ جب وہ بات کریں  تو اعتماد اور تیقن کے  جھلمل کرتے ستارے پردہ چشم پر نمایاں ہوں۔ وہ اتنی پر اعتماد ہوں کہ کوئی ان کے فگر پر بات کرے ، ان کے جسمانی خطوط پر کوئی لطیفہ بنانے کی کوشش کرے یا محبت کے لیے بریسٹ سائز کو معیار بتائے تو ۔۔۔میری  یہ آئیڈیل عورت ایسے گدھے کوباعتماد طریقے سے جھانپڑ رسید کر سکے!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik