‘ہم سب ‘کی نیم برہنہ تصویروں پر ۔۔ برہنہ تنازعہ!


‘ہم سب’ پر بھائی ظفراللہ خان المعروف یدبیضا ایک مضمون بعنوان “ہم سب، نیم برہنہ تصاویر اور اختلاف” کے نام سے لکھ چکے ہیں۔ اس سارے قضیے پر میرا اختلاف جدید نفسیات کی جنسی تجسیم پر تحقیقات اور نتائج کے گرد گھومے گا۔ یوں تو اس موضوع پر آپ کو ان گنت تحقیقی مقالے مل جائیں گے لیکن میری کوشش ہو گی ہے اس حوالے سے جو تحقیقات آپ تک لاؤں وہ ایک سو پچیس سال سے نفسیات کے سب سے بڑے اور مستند امریکی ادارہ برائے نفسیات (امیریکن سائیکالوجیکل انسٹی ٹیوٹ ) سے لی گئی ہوں۔

اس سے پہلے کہ متفرق تحقیقی مقالوں اور ان کے دیے نتائج پر بات کریں کیوں نہ امریکی ادارہ برائے نفسیات کی اس کاوش پر بات کریں جس کے لیے ادارے نے درجنوں پی ایچ ڈی ماہرین نفسیات کو اکٹھا کیا اور ان کو اے پی اے ٹاسک فورس کا نام دیا۔ ایک رپورٹ 2007 میں آئی اور دوسری مفصل رپورٹ 2010 میں منظر عام پر آئی۔ یہ رپورٹ دیگر انفرادی کاوشوں کی تصدیق کرتی ہے لیکن اس رپورٹ کا حوالہ اس لحاظ سے دلچسپ اور کہیں زیادہ منطقی ہے کہ اس کے پیچھے دنیا بھر میں نفسیات کا سب سے بڑا ادارہ اور نفسیات کے بہترین ماہرین نے مل کر کا م کیا ہے۔

جنس زدہ یا جنسیاتی کرنا (سیکسوئلازیشن) کرنا کیا ہوتا ہے؟

1۔ کسی انسان کی “قدر” کا تعارف اس کی باقی خوبیوں کے برعکس جنسی کشش یا رویہ ٹھہرے

2۔ کسی انسان کا معیار جسمانی کشش (جو کہ جنسی ہو) ٹھہرے

3۔ کسی انسان کو بطور ‘جنسی تجسیم’ اس طرح پیش کرنا کہ وہ کسی کے لیے جنسی استعمال کی ‘چیز’ بن جائے اور اس کے لیے وہ ایک ایسی چیز ہو جو خود مختار یا فیصلوں میں آزاد نہ ہو

4۔کسی فرد پر غیر مناسب طریقے سے جنسیات چسپاں کرنا

ضروری نہیں کہ کسی بھی معاملے میں تحقیق کے دوران چاروں شرائط پوری ہوں۔ اس میں کسی ایک شرط کا پورا ہونا بھی جنس زدگی اور جنسی تجسیم کاری میں آتا ہے۔

لڑکیوں کی جنس زدگی کا پیمانہ کسی لڑکی کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی انداز سے دیکھنے سے زنا بالجبر اور جنس کے لیے سمگلنگ تک پھیلا ہوا ہے۔اے پی اے آپ کو دعوت دیتا ہے کہ تحقیق میں مزید آگے جانے سے پہلے یہ مثالیں پڑھ لیں

مثال نمبر ا۔ ایک پانچ سالہ بچی بازار سے گزر رہی ہے اور اس نے ایک ٹی شرٹ پہن رکھی ہے جس پر لکھا ہوا ہے “فلرٹ”

مثال نمبر 2۔ فرض کریں کہ ایک میگزین ہے جس پر ان لڑکیوں کوجو ابھی نوجوان نہیں ہوئیں تجاویز دی گئیں ہیں کہ آپ اگر 10 پاونڈ وزن کم کر لیں تو اپنے بوائے فرینڈ کو کس قدر سیکسی نظر آئیں گی

مثال نمبر 3۔ ایک نوجوان لڑکیوں کی فٹ بال ٹیم تخیل میں لائیے کہ جن کی کارکردگی سے زیادہ جسمانی جنسی کشش، اس کے کوچ اور صحافی کے لیے اہمیت رکھتی ہو جو ٹیم کو شہرت دینا چاہتے ہیں۔

مثال نمبر 4۔ کسی اشتہار کو ذہن میں لائیے جس میں کسی عورت کو ایسے لباس میں پیش کیا جائے جو چھوٹی لڑکیوں کے لیے مخصوص ہو جبکہ وہ نوجوانوں کے اشتہا انگیز جنسی زاویے بنا کر کھڑی ہو۔

جنس زدگی سے براہ راست متاثر وہ بچے ہوتے ہیں جو نشوونما سے گزر رہے ہوتے ہیں۔نوجوانی میں اپنے آپ کو ایک مخصوص جنسی شناخت دینا اہم ترین مرحلہ ہو تا ہے۔ایرنٹ اور کولن کی تحقیق 2000 کے مطابق جنس زدگی سے ان پر برے اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ٹالمین کی تحقیق 2002 کے مطابق جنس زدگی کا مواد لڑکیوں پر دباؤ کا باعث بن رہا ہے کہ کیسے جنسی نظر آنا ہے جبکہ وہ خود ابھی جنس سے بخوبی آگاہ بھی نہیں ہوتیں۔نوجوان لڑکیوں کو زیادہ اشتہا انگیز جنسی شے کے طور پر دیکھا جاتا جس سے متاثر عورتیں ہر وقت اس کوشش میں ہوتی ہیں کہ وہ کیسے لڑکیاں نظر آئیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا معاشرے کے رسوم و رواج کی عکاسی کرتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی یقین ہونا چاہئے کہ میڈیا معاشرے کے رسوم و رواج اور ثقافت پر اثر بھی ڈالتا ہے۔جنس زدگی کو فروغ دینے والی تصویروں ، اشتہارات اور پروگراموں کی بھرمار نوجوان لڑکیوں کو سکھا رہی ہے کہ کیسے عورت کی سب سے بڑی اور قابل فروخت خوبی جنسی نظر آنے میں پنہاں ہے۔ان کو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ایک جنسی شے بننا پڑے گا۔

ٹیلی ویژن کے ایک مشہور پروگرام کی 81 قسطوں کا تجزیہ کیا گیا جس میں ایسا مواد جس میں عورت کے جسم کے حصوں کو زیادہ اہمیت دی گئی اور اس کو کم عقل اور جنسی شے کے طور پیش کیا گیا شامل تھا۔84 فیصد مواد ایسا تھا جو جنسی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔جنسی ریمارکس بہت اہم ہیں مثال کے طور پر مندرجہ ذیل الفاظ عورت کے تعارف کے لیے استعمال کیے گئے۔

, broad, bimbo, dumb ass chick, toots, fox, babe, blondie

عورت کے جسم کےمختلف حصوں کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے۔ان میں چھاتیوں کے حوالے سے جو الفاظ نوٹ کیے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں

jugs, boobs, knockers, hooters, cookware, and canned good

ٹیلی ویژن پروگرامز کے حوالے سے ایسی بہت سی اور بھی تحقیقات کے حوالے موجود ہیں ۔ میوزک ویڈیوز کے حوالے سے تحقیق کے مطابق44 فیصد سے 81 فیصد تک ان ویڈیوز میں جنسی علامات پائیں گئیں۔ اے پی اے کے مطابق ان میوزک ویڈیوز میں عورت کو ایک جنسی شے کے طور پر دکھایا گیا۔ایسی ویڈیوز میں عورت کو جنسی زاویوں اور ‘سجانے کی اشیاء’ کے انداز میں پیش کیا گیا جبکہ نہ ہی وہ ان ویڈیوز میں کو ئی موسیقی کا آلہ بجا رہیں تھیں ، نہ ہی وہ گا رہیں تھیں اور ویڈیو اور میوزک کے کسی دیگر بننے کے عمل کا حصہ تھیں۔

بروسکووسکی کے مطابق متذکرہ بالا عمل انہوں نے اپنی تحقیق میں 57 فیصد نوٹ کیا۔سیڈمین کی تحقیق 1992 کے مطابق ان ویڈیوز میں 37 فیصد خواتین وہ تھیں جو ویڈیوز میں کپڑوں کے حوالے سے ‘انکشاف’ کر رہیں تھیں جبکہ انہی ویڈیوز میں مردوں کے ایسے ‘انکشاف ‘ کا تناسب 4 فیصد تھا۔ وارڈ اور رویندیارا کی تحقیق 2002 کے مطابق  84 فیصد ایسا مواد تھا جس میں عورت کی جنسی تجسیم کر کے دکھائی گئی۔

ان مشہور گانوں کو بھی اس رپورٹ میں زیر بحث لایا گیا جن میں عورت کی باقاعدہ تذلیل کی گئی ۔( تذلیل کا لفظ اے پی اے نے ہی استعال کیا ہے) چند گانوں کی مثالیں درج ذیل ہیں۔

“So blow me bitch I don’t rock for cancer/I rock for the cash and the topless dancers”

“Ho shake your ass” (Ying Yang Twins, 2003)

“I tell the hos all the time, Bitch get in my car” (50 Cent, 2005)

l “That’s the way you like to f*** . . . rough sex make it hurt, in the garden all in the dirt” (Ludacris, 2000)

2006 کی ایک تحقیق جو 164 گانوں اور 16 گلوگاروں پر کی گئی میں بتایا گیا کہ 15 فیصد گانوں میں ایسا مواد تھا جو تذلیل سے متعلق تھا۔

اس طرح کے بہت سا تحقیقی مواد فلموں اور کارٹونز کے حوالے سے ہے لیکن ہمارا مقصد ہم سب پر چھپنے والی نیم برہنہ تصاویر ہیں اس لیے اس موضوع کی جانب چلتے ہیں۔ ہم سب پر میں نے ثانیہ مرزا کی ایک تصویر دیکھی جس میں انہوں نے سکرٹ پہنی ہوئی اور ہوا میں اچھل کر گیند کو ہٹ کر رہی ہیں۔ تصویر کھینچتے وقت ان کی سکرٹ اوپر چلی جاتی ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے وہ ‘ہم سب ‘کے لیے کہیں زیادہ اہم ہے بنسبت ثانیہ مرزا کے کھیل کے۔

برینڈی چیسٹین ایک مشہور امریکی فٹ بالر رہیں ہیں۔ انہوں نے ورلڈ کپ میں فیصلہ کن گول کیا اور جرسی اتاری۔ یہ عمل فٹ بال کے شائقین جانتے ہیں کہ مرد فٹ بالرز کے لیے معمول کا عمل ہے۔ لیکن یہی عمل جب برینڈی نے کیا تو کمینٹیٹر تو جیسے تڑپ ہی اٹھا اور کہا۔۔

“the owner of the most talked-about breasts in the country”

اے پی اے رپورٹ میں خواتین کھلاڑیوں کی جنسی تجسیم کاری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کیمرہ زاویے اورمبصرین کی رائے خواتین کھلاڑیوں کو بھی جنسی شے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ 2004 کے پلے بوائے میگزین میں 8 خواتین اولمپک اتھیلیٹس کی تصاویر چھپیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مرد کھلاڑیوں کو اس انداز میں دکھایا جاتا کہ جس میں وہ کھیل کی کسی سرگرمی میں مشغول ہوتے ہیں لیکن صرف 34 فیصد خواتین کو اس انداز میں دکھایا جاتا ہے ۔ باقی تصاویر کے مقاصد ان کی جنسی تجسیم اور جنسی شے کے طور پر پیش کرنا ہوتے ہیں۔

اب ہمیں یہ بات طے کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ ‘ہم سب ‘ نے ثانیہ مرزا کو کھیل میں مشغول دکھایا یا مقصد جنسی تجسیم تھا۔ثانیہ مرزا کے کھیل اور ان کی صلاحیتوں کو نظر انداز کر کے اہمیت اس بات کو دی گئی وہ ایک ‘جنسی شے’ ہیں۔ اے پی اے اس طرح کے کسی عمل کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ لیکن یہ بات آخر میں تفصیل سے عرض کروں گا کہ اے پی اے کی تجاویز اس معاملے پر کیا ہیں؟

ایم ڈفی اور گاؤچر نے ایک میگزین پر جنسی تجسیم کے مواد کے حوالے سے لکھا کہ ‘میگزین میں ایسا مواد شائع کیا جاتا ہے جس سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کے لیے جنسی پرکشش نظر آنا لازم ٹھہرتا ہے۔ جس سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے جیسے عورت کے دنیا میں آنے کا مقصد مرد کو خوش کرنا اور اس کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ یہ ناقابل بیاں بری حرکت ہے” اسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق ‘جنسی شے ‘ کی تشہیر سے جنسی جارحیت میں نمایا ں اضافہ نوٹ کیا گیا۔ریپ کیسز کا اس سے گہرا تعلق نوٹ کیا گیا۔

اے پی اے کے مطابق کار کی فروخت کے لیے جس طرح عورت کو استعمال کیا جاتا ہے وہ جنسی تجسیم ہے۔ جس میں اہم کار ہے اور اس کے ساتھ ایک ‘جنسی شے’ اس کی کشش میں اضافہ کر رہی ہے۔گز شتہ تین دہائیوں سے اشتہارات میں عورت کا جنسی شے کے طور استعمال پر بہت ساری تحقیقات سامنے آئیں ہیں جس کا اے پی اے نے اپنی ٹاسک فورس رپورٹ میں حوالہ دیا ہے۔سفید فام عورتوں اور بڑی چھاتی والی خواتین کو اشتہارات میں زیادہ دکھایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عوامی تقاضا نہیں ہے۔ ایڈویک کے ایک پول کے مطابق 70 فیصد افراد نے کہا کہ انہیں یہ سب نہیں چاہیے ۔اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی تحقیقات سے ثابت کیا جا چکا ہے کہ کوئی کمپنی جتنی زیادہ جنسی پرکشش خاتون دکھائے گی اس سے اس کی اپنی پروڈکٹ کی فروخت پر منفی اثر پڑے گا۔ ناظر کی توجہ پروڈکٹ سے زیادہ جنسی پرکشش خاتوں پر مبذول ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 366 افراد پر کی گئی جس سے نتیجہ برآمد ہوا کہ انہیں اشتہار میں دکھائی مصنوعات کا نام یاد نہیں تھا۔

اشتہارات میں ہی ایک ‘ٹکل اپ’ اور’ٹکل ڈاؤن ‘ کا ایفیکٹ ہے۔ اشتہار بازی کی دوڑ میں عورت اور لڑکی کے مابین قدرے واضح لکیر کو دھندلا دیا جاتا ہے جو نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے لیے دباؤ کا سبب بنتا ہے۔خواتین کے لیے “ڈریسڈ ڈاؤن” کی اصطلاح جب کے لڑکیوں کے لیے “ڈریسڈ اپ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اب آئیے سنی لیون کی تصاویر کی جانب جو گاہے بگاہے ‘ہم سب ‘ پر چھپتی رہتی ہیں۔ ان کی بنیادی وجہ شہرت پورنوگرافی رہی ہے۔ علم نفسیات کی رو سے پورنوگرافی میں کام کرنے والے مردو خواتین مستند’جنسی شے’ہوتے ہیں۔یہاں مجھے ذرا محتاط ہوکر چلنا پڑےگا۔ دیکھئے علم نفسیات کا زاویہ نظر ذرا مختلف ہے۔ ماہرین نفسیات کسی طور یہ نہیں کہتے کہ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے خواتین و حضرات یہ کام ‘غلط’ کر رہے ہیں بلکہ زور اس پر ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستند جنسی شے کے طور پرپیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی ایسی فلمیں دیکھتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ جنسی عمل کے دوران لذت آمیز چیخ و پکار کرنے والی یہ خاتون پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ ہو سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ کسی بچے کی ماں ہو۔ یا ہو سکتا ہے یہ ٹینس اچھا کھیلتی ہو۔ یہی مثال مرد کے حوالے سے ہے۔ وہ صرف جنسی اشیا ہوتے ہیں ۔اب نفسیات میں یہ مسئلہ درپیش آتا ہے کہ پورنو گرافی میں کام کرنے والے جنسی شے ہوتے ہیں ۔چیپمین اور مارشل کی ایک تحقیق کے مطابق انہوں نے جتنی جنسی پیشہ ور عورتوں پر تحقیق کی انہوں نے یہ پیشہ 12 سے 14 سال کی عمر میں اختیار کیا۔ کیونکہ ان کے سامنے ‘جنسی شے’ کی مثالیں موجود تھیں۔شلڈرمین کی تحقیق کے مطابق 89 فیصد جنسی پیشہ ور خواتین نے 16 سال سے کم عمری میں یہ پیشہ اختیار کیا۔ ماہرین نفسیات کا مسئلہ ‘جنسی شے’ہونا ہے کسی کے پیشے پرتنقید ان کے دائرہ کار میں نہیں آتی ۔

کتنی خواتین اس پیشے میں ہیں اس کی صحیح تعداد کا علم تو مشکل ہے لیکن ایسٹس اور وینر کی تحقیق کے مطابق 244000 سے 325000 امریکی بچیاں اور نو عمر لڑکیا ں اس ‘خطرے’ سے دوچار ہیں کہ وہ اپنے آپ کے بارے میں ‘جنسی شے’ کے طور پر سوچ سکتی ہیں۔خود کے بارے میں ایسا سوچنا اور ہروقت اپنے جسمانی خدو خا ل پر غور ان کو زندگی کے بقیہ حقائق سے جدا کر دیتا ہے۔ (اس پرایک زبردست تحقیقی مقالہ میری نظر میں ہے جو کارکردگی سے متعلق ہے اس پرکسی اور مضمون میں بات ہو گی)

جنسی تجسیم پر نفسیات میں مختلف تھیوریز ہیں جیسے ۔۔سوشلائزیشن تھیوری، سوشوکلچرل تھیوری، کاگنیٹو تھیوری، سائیکوڈائنمک تھیوری، آبجیکٹیفیکیشن تھیوری وغیرہ۔

یہ مضمون تحقیقی ریفرنسز سے بہت بوجھل ہو گیا ہے۔ ہم تمام گفتگو کا نتیجہ، رائے وغیرہ اگلے مضمون پر اٹھا رکھتے ہیں۔


ہم سب، نیم برہنہ تصاویر اور اختلاف
وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik