ہم سب کو کیسی تصاویر اور مضامین لگانے چاہئیں؟
گفتگو ہو رہی ہے کہ ہم سب پر گنتی کی چند تصاویر ایسی چھپ گئی ہیں جن سے قوم کے بچوں اور عورتوں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ ان سے خاص مذہبی اور روایتی شخصیات خوش نہیں ہیں اور سب سے قابل ذکر اپنے عمود لحمی کے مفروضہ حسب نسب پر اترانے والے پھبتی ڈاٹ کام کے چیف ایڈیٹر کو مسائل ہیں۔ پھبتی ڈاٹ کام کا چونکہ دھڑن تختہ ہوگیا ہے تو بس اب صبح شام ہم سب پر پھبتیوں سے گزارا ہے۔
میری اس سارے قضئے پر رائے ہے کہ جو تصویر موضوع سے مناسبت رکھتی ہے اسے چھاپنے پر اعتراض ہونا ہی نہیں چاہئے۔ سب سے زیادہ اعتراض سنی لیونی پر ہوتا ہے کیوں کہ یوکے میں پناہ گزین بدعتی پھبتیوں کا ایمان بھی اسی پر ڈولتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں سنی لیونی ہو یا عافیہ صدیقی، ان پر گفتگو ہوتی رہے گی اور سنی لیونی کی تصاویر بھی چھپتی رہیں گی۔ سنجیدہ موضوعات والے انہیں پڑھتے رہیں گے اور ہم سب پر لکھنے والی خواتین عاقل، بالغ اور اعتراض کرنے والوں سے کہیں زیادہ شعور رکھتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ زندگی کی حقیقتوں پر اظہار خیال سے وہ الرجک ہوں گی۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں اب ان تصاویر پر بات کرنی چاہئے جنہیں ہم سب پر نہیں لگایا جا رہا جب کی موضوع کی مناسبت سے انہیں لگانا چاہئے۔ جیسے ہم جنس پرستی کے نہایت اہم موضوع پر آئے معدودے چند آرٹیکلز میں نیویارک کی گے پرائڈ والک کے درمیان ان دو پاکستانی اور ہندوستانی ہم جنس پرستوں کے بوسے والی تصویر لگنی چاہئے تھی۔ ہمیں اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ گفتگو کرنی چاہئے اور دو بالغ ہم جنس پرستوں کے بوسے سے نفرت ختم کرنی چاہئے۔
دو دن پہلے ڈان میں رپورٹ آئی کہ پاکستان میں اب تک ریپ کے لئے دو انگلیوں والا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے جس عورت کا ریپ ہوتا ہے اس کے نازک حصوں میں دو انگلیاں ڈال کر دیکھا جاتا ہے کہ اگر تو دخول کی گنجائش ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ریپ کا الزام لگانے والی عورت بدچلن ہے کیوں کہ وہ اس سے پہلے کافی دفعہ سیکس کر چکی ہے اور جس نے ایک بار سیکس کر لیا ہو اس کا کانسینٹ قابل توجہ نہیں ہوتا۔۔۔ ہم سب کے مدیران سے عرض ہے کہ ہمیں اس قانونی طریقہ کار کی تصاویر نکال کر عوام تک پہنچانی چاہئے کیوں کہ ایسے ضابطوں سے ہمارے قدامت پسندوں اور پھبتیوں والی سرکار کو فرق نہیں پڑتا۔ پھر ایسی تصویر میں ثانیہ مرزا کی چڈی والے مسائل بھی نہیں ہوں گے کہ چڈی ہوگی ہی نہیں اور اس سنجیدہ موضوع پر بھی آواز اٹھ جائے گی۔
پاکستان کے اخبارات چونکہ نظریہ پاکستان اور مذہبی حمیت کے محافظ ہیں اس لئے ہمیں اس معاملے میں ان کی رہنمائی بھی حاصل کرنی چاہئے۔ ہمیں ان اخبارات میں آئے دن چھپے ہوئے ویجینا ٹائٹننگ کریم اور پینس انلارجمنٹ کریموں کے اشتہارات کی تصاویر لگا کر اس موضوع پر گفتگو کرنی چاہئے۔ اب تک ہمارے تجربے میں آیا ہے کہ آدھے وسطی پنجاب میں پر گاؤں کی دیوار پر لکھے جرمن ہیلتھ سینٹر کے اشتہاروں سے بچوں اور خواتین کو زیادہ نفسیاتی مسائل پیدا نہیں ہورہے اس لئے ہمیں کچھ جرمن ہیلتھ سینٹر کے بھی اشتہارات لگا لینے چاہئے۔ پھبتی کلب کو اس سے تھوڑا افاقہ ہوگا۔
مزید تفصیلات اور فون نمبر کے لئے دائیں بازو کے مقبول اخبارات کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے اشتہارات ملاحظہ کریں اور اہل خانہ کے سامنے باآواز بلند پڑھیں۔ آپ کو نفس اور دیگر زنانہ و مردانہ اعضا کو چھوٹا بڑا کرنے کے مجرب نسخوں کے اشتہارات مل جائیں گے۔
ہمیں پچھلی دہائی میں پاکستان میں آئے کمیونیکیشن کے انقلاب کے ساتھ پاکستان کے سیکس انقلاب پر بھی تصاویر اور مضامین لکھنے چاہئے۔ ہمیں قوم کو بتانا چاہئے کہ نائٹ پیکجز کے بعد ہماری قوم وہ نہیں رہی جیسے پہلے تھی اور اس ساری ملمع کاری کے پیچھے وہ کروڑوں لڑکیاں اور لڑکے چھپے ہوئے ہیں جنہوں نے نائٹ پیکجز کی سہولت کے باعث میلوں دور لیٹے اجنبیوں سے فون سیکس کیا۔ اب تو یہ انقلاب آن لائن ویڈیو سیکس پر پہنچ چکا ہے۔ اس سے معاشرے پر پیدا ہونے والے اثرات پر گفتگو ہونی چاہئے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہم سب نے پاکستان میں میڈیا پر ایک خاص مکتبہ فکر کی اجارہ داری کو زک لگائی ہے سو انہیں تو مروڑ اٹھنے ہی ہیں۔ نیز کچھ سطحی دانشور جن کی ویب سائٹین ان کی دانش کی طرح فلیٹ ہوچکی ہیں انہیں ویب سائٹ پر مسلسل قبض نما اعتراض رہتے ہیں اور ایسے لوگ مکالمے میں حصہ لینے کی بجائے علیحدہ بیٹھ کر اوباشوں کی طرح آوازے کستے رہتے ہیں۔ ہم سب کی ٹیم کو جاننا چاہئے کہ ان کے لئے ہماری حالت ’آٹا گوندھنے میں ہلتی کیوں ہے؟‘ والی ہے۔ آپ کم ہی کسی سنجیدہ ویب سائٹ سے وابستہ کسی مدیر کو ایسی باتیں کرتے سنیں گے۔ کچھ معترضین واقعتاً ہمدردی کی بنیاد پر بات کرتے ہیں مگر ایسے لوگ مکالمے میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
میری استدعا یہ ہے کہ مخالفین اور حاسدین کی مہمات سے گھبرانے کی بجائے ہم سب کی کور ٹیم تصاویر پر ایک پروفیشنل پالیسی بنائے اس کے بعد مخالفین سے گھبرانے کی بجائے اس پر قائم رہا جائے۔ یہ تو منٹو کو آج تک اوباش کہتے ہیں۔ ان سے کیا گھبرانا! یہ تاریخ کے کچرا دان میں پڑے کبھی اپنے اندر کی غلاظت پر جھلاتے ہیں تو کبھی اپنی جھنجھلاہٹ ان پر اتارنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جنہوں نے ان کی طرح منافقت کے ناب دان میں سر ڈالنۓ سے انکار کر دیا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).