سعودی عرب اور ایران کی جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟


منگل کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر ایک میزائل داغا گیا۔ اس میزائل کے نشانے پر سعودی عرب کا وہ شاہی محل تھا جہاں بجٹ پیش کرنے والے تھے۔ میزائل اپنے نشانے تک پہنچتا اس سے پہلے ہی اسے فضا میں نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔ یہ میزائل ہمسایہ ملک یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے داغا گیا تھا لیکن سعودی عرب کو یقین ہے کہ اس کا ریموٹ کنٹرول یمن سے دور ایران کے دارالحکومت تہران میں تھا۔ ایران متعدد دہائیوں سے سعودی عرب کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

سعودی عرب سمیت دنیا کے کئی ممالک کا خیال ہے کہ یمن کے شیعہ حوثی باغیوں کی پشت پر ایران کا ہاتھ ہے۔ ریاض پر داغا گیا یہ میزائل سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کی سب سے تازہ مثال ہے۔ اس سال یہ تیسرا موقع تھا جب حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر میزائل داغا ہو۔

ان دنوں حالات کچھ یوں ہیں کہ جیسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہونے والی ہو۔ لیکن اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟ بی بی سی کی ریڈیو سیریز ’دا انکوائری‘ میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سعودی عرب اور ایران خطے کی دو بڑی سیاسی طاقتیں ہیں۔ دونوں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ برطانیہ کے مائیکل نائٹ عرب معاملوں کے ماہر اور مشیر ہیں۔

نائٹ بتاتے ہیں کہ ‘ایران تاریخی طور پر کافی اثر و رسوخ والا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے پچھلی ایک صدی میں تیل کی وجہ سے کافی ترقی کی ہے۔ اس وجہ سے ایران کا اثر ان علاقوں پر کم ہوتا گیا ہے‘۔ مائیکل نائٹ کہتے ہیں کہ ‘سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مذہب بھی ہے۔ سعودی عرب ایک سنی ملک ہے اور ایران شیعہ۔ دونوں ہی ممالک اپنے مذہبی ساتھیوں کی دوسرے ممالک میں بھی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے‘۔

گذشتہ چند برسوں سے ایران، سعودی عرب پر بھاری پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ کئی عرب ممالک پر اس کا اثر و رسوخ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایران نے عراق میں اپنا اثر بڑھا لیا ہے۔ شام اور لبنان میں بھی اس کے پیادے طاقتور ہیں۔ یمن میں وہ حوثی باغیوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کر کے سعودی عرب کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔

مائیکل نائٹ کا کہنا ہے کہ ‘اس میں ایرانی فوج کا انقلابی دستہ یعنی ریوولیوشنری گارڈز کا بڑا ہاتھ رہا ہے‘۔ نائٹ کے مطابق ریوولیوشنری گارڈز ایران کے پاس سب سے طاقتور ہتھیار کی طرح ہیں۔ ان کا خوف عرب ممالک پر طاری ہے۔ یہ بے حد پیشہ آور دستہ ہے جس نے کئی محاذوں پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

مائیکل نائٹ کے مطابق ‘بھلے سعودی عرب اور ایران کے درمیان باضابطہ جنگ نا چھڑی ہو لیکن دونوں ہی ممالک کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہے یمن، جہاں سعودی عرب کی رہنمائی میں کئی ممالک کی فوجیں حوثی باغیوں سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب حوثیوں کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔ سعودی عرب یمن پر لگاتار فضائی حملے کر رہا ہے حالانکہ وہ فیصلہ کن جیت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سعودی عرب کی نظر میں اس کی جیت کی راہ میں ایران سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘۔

یمن کے علاوہ شام میں بھی سعودی عرب اور ایران مختلف گروہوں کے ساتھ ہیں۔ ایران صدر بشار الاسد کے ساتھ ہے جبکہ سعودی عرب اسد کے خلاف لڑ رہے باغیوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ایک طاقتور گروہ ہے۔ سعودی عرب بھی وہاں کے سنیوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیاں عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا مقابلہ بھی جاری ہے۔ عراق کی حکومت کی دولت اسلامیہ پر فتح میں ریوولیوشنری گارڈز کا بڑا ہاتھ سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک چھوٹے سے ملک بحرین میں بھی سعودی عرب اور ایران آمنے سامنے ہیں۔ بحرین میں شیعہ آبادی زیادہ ہے۔ مگر یہاں کا حکمراں خاندان سنی ہے جس کو سعودی عرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہیں ایران بحرین میں حکومت مخالف شیعہ گوریلہ تنظیموں کے ساتھ ہے۔ مائیکل نائٹ کہتے ہیں کہ ابھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کئی ممالک میں سرد جنگ جیسے حالات ہیں۔ لیکن یہ حالات کبھی بھی اصل جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

اینتھونی کوڈسمن امریکہ اور نیٹو کے عرب معاملوں کے مشیر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ ایک چھوٹی سی چنگاری کے طور پر شروع ہو سکتی ہے اور جو آگے چل کر بڑی آگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اینتھونی کا خیال ہے کہ وہ جنگ لمبے عرصے تک چل سکتی ہے۔

حالانکہ اینتھونی کو لگتا ہے کہ زمینی محاذ پر دونوں ملکوں کی فوجیں شاید ہی آمنے سامنے آئیں لیکن فضائی جنگ خوفناک ہو سکتی ہے۔ اینتھونی کے مطابق ‘فضائی طاقت میں سعودی عرب فی الحال ایران پر بھاری دکھائی دے رہا ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ایران کے پاس ستر اور اسی کی دہائی کے جنگجو طیارے ہیں۔ ایران نے ان کو بڑی اچھی طرح رکھا ہے۔ ایران نے کچھ جنگجو طیارے اسی کی دہائی میں روس سے بھی خریدے تھے۔ یہی طیارے ایران کی فضائی طاقت کی بڑی وجہ ہیں‘۔

سعودی عرب کی فضائیہ کے پاس امریکی جنگجو طیارے ایف 15، ایف 16 اور بلیک ٹورنیڈو ہیں۔ یعنی فضائی محاذ پر سعودی عرب زیادہ طاقتور دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ ایران کے پاس سعودی عرب سے زیادہ بہتر میزائل اور ڈرون ہیں۔ یہ سعودی عرب کے اہم شہری ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اینتھونی کہتے ہیں کہ جنگ شروع ہوئی تو ایران، سعودی عرب کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دے گا۔ ایران کے میزائل سعودی عرب کے پانی صاف کرنے کے پلانٹ اور بجلی گھروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس سے سعودی عرب بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کے شہروں میں بجلی اور پانی کی سپلائی ٹھپ ہو جائے گی۔ اس کے بدلے میں سعودی عرب اپنے جنگجو طیاروں سے ایران میں بجلی سپلائی کرنے والے ٹھکانوں اور پانی صاف کرنے والے پلانٹوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ایران کے تیل کے ٹھکانوں اور ریفائنریز پر حملے کر سکتا ہے۔

اینتھونی کا خیال ہے کہ ‘ایران اور سعودی عرب کی جنگ بڑی معاشی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ اس کا موازنہ شترنج کی بساط سے کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اقوام متحدہ، مصر، اومان، اردن، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کھڑے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے خیمے میں شام، روس اور عراق جیسے ممالک ہیں‘۔

اینتھونی کا خیال ہے کہ جنگ کی صورت میں اسرائیل بھی ایران کے خلاف اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے۔ صاف ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکہ اور روس جیسے ممالک کا کردار زیادہ بڑا ہو گا۔ امریکہ اس وقت سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔

میری کولنز امریکہ کی جان ہوپکنز یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کئی برس تک امریکی وزارت دفاع کے ساتھ کام کیا ہے۔ میری کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ میں امریکہ یقینی طور پر دخل دے گا۔ دنیا کے تیل کے کاروبار کا ایک بڑا حصہ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر جنگ ہوئی تو تیل کی سپلائی رک جائے گی۔ اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔

امریکہ بالکل نہیں چاہے گا کہ دنیا کی تیل کی سپلائی پر اثر پڑے۔ اس لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی صورت میں امریکہ کا شامل ہونا طے ہے۔ میری کولنز کا خیال ہے کہ ایران آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگ بچھا سکتا ہے۔ اس سے اس علاقے سے گزرنے والے بحری طیاروں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسی تباہی کو روکنے کے لیے امریکہ جنگ چھڑنے کے ایک گھنٹے کے اندر جنگ میں شامل ہو جائے گا۔ کولنز کہتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں امریکہ کے 35 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ امریکی فضائی فوج کے ایف 22 جیسے جدید ترین جنگجو طیارے بھی یہاں تعینات ہیں۔ ایک بیڑا ہمیشہ خلیج فارس میں موجود رہتا ہے۔

کولنز کے مطابق ایران اور سعودی عرب کی جنگ شروع ہونے کی صورت میں امریکی فوجیں فوراً متحرک ہو جائیں گی۔ اور یہ ایران کی بحری فوج کو برباد کر سکتی ہیں۔ وہ نوے کی دہائی کی ایک مثال دیتی ہیں۔ تب امریکہ کا ایک بحری جہاز بارودی سرنگ کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایک ہی دن میں ایران کی بحری طاقت کو بڑا نقضان پہنچایا تھا۔ امریکی دخل کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کچھ دنوں میں ہی ختم ہو جائے گی۔ لیکن کیا جنگ کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے گا؟ خطے میں امن بحال ہو سکے گا؟

ایرانی نژاد علی وائز امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کرائسس گروپ کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس تنظیم کا کام جنگ کو روکنا ہے۔ علی وائز کا بچپن اسی کی دہائی میں ہونے والی ایران – عراق جنگ کے دوران ایران میں گزرا تھا۔

امریکہ کے حملے سے ایران کی فوجیں تو تباہ ہو جایئں گی مگر ایران سعودی عرب کے سنی ساتھی ممالک کی مخالفت کرنے والوں کا پہلے سے بھی زیادہ ساتھ دے گا۔ جیسے کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلح گروہوں کے درمیان جھگڑے بڑھ جائیں گے۔ لبنان میں حزب اللہ اور سعودی حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان تصادم بڑھ جائے گا۔ یہ ہی حالات شام اور اردن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علی وائز بتاتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان نا تو تجارتی رشتہ ہے نا ہی سماجی اور تہذیبی تعلق۔ ایسے میں جنگ کے زخم آنے والی کئی دہائیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ فضائی جنگ ہوگی۔

دونوں ممالک کے درمیان بحری ٹکراؤ بھی ہوگا۔ امریکہ، سعودی عرب کی طرف سے دخل اندازی کر کے ایران کو کچھ ہی دنوں میں ہرا دے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایران سعودی عرب کے لیے چھوٹی چھوٹی جنگوں کے کئی محاذ کھول دے گا۔ جنگ کے زخم بھریں گے نہیں۔ بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا اثر دیگر ممالک برداشت کرتے رہیں گے۔ اس جنگ سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔

)روتھ ایلگزینڈر(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp