طنز مہلک ہتھیار ہے احتیاط سے استعمال کریں، آخری تجویز!


تجسیم کاری پر چند مضامین لکھے۔ توقع تھی کہ تجسیم کاری کی تعریف پر از سر نو بحث ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس کی تعریف میں کچھ لکھنے والے نئے زاویے نکالیں۔ مردوں کے حوالے سے پسماندہ ملکوں میں تجسیم کاری پر توجہ دلائی جائے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جو ہوا مجھے توقع کم تھی۔ نہ جانے کیوں؟

حسنین جمال اور ملک عمید کے کالم کمال تھے۔ دونوں حضرات عریانی اور فحاشی کی تعریفوں میں پھنس پھنسا کر رہ گئے۔ قدامت پسندوں کے ہاں دلیل کی کمیابی میں ہتھیار اور ہتھیار نہ ہو تو مکہ کارآمد ہتھیار سمجھا جاتا ہے گر ہاتھ باندھ دیے جائیں تو طنز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ “جبکہ ترقی پسند لبرل” کے ہاں طنز ہی ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ طنز میں ایک دوسرے کے نظریات کو خاص پھبتیوں کے ذریعے مخاطب کرنا روایت بن چکی ہے۔ دونوں طبقات میں غیرت برگیڈ، اگر بتی مافیا، موم بتی مافیا، لنڈے کے لبرل، دیسی لبرل وغیرہ کا استعمال جس تواتر سے ہوتا ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ ایسا بھی کیا غصہ ؟ اگر غصہ کرنا ایسا ہی ضروری ہو جائے تو تحقیق پر وقت صرف کیجئے تاکہ آپ کے غصے کی پیدوار دلیل ٹھہرے نہ کہ پھبتیاں، توہین آمیز طنز جا بجا نظر آئے۔

بات تجسیم کاری کی ہو رہی ہے۔ معاملہ عریانی اور فحاشی کی جانب لے جایا گیا۔ ایسے اشتہارات کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی جو پاکستان میں ہر جا، درو دیوار پر نظر آتے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کیونکہ ان اشتہارات کا ریفرنس ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ تنقید کرنے والے تجسیم کاری کی اصطلاح سے کس قدر واقفیت رکھتے ہیں۔ مردوں کی تجسیم کاری یہی ہے کہ ان کی سوچنے سمجھے کی صلاحیتوں کو مردانہ کمزوری کے خیال تک محدود کر دیا جائے۔ جب مرد کو آپ بار بار یہ بتائیں گے کہ جنسی اعضا کا طول و عرض کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور عورت کو خوش رکھنے کے لیے ’دورانیہ کی سائنس‘ کیا ہے تو یہی جنسی تجسیم کاری کہلاتی ہے۔ بالخصوص پاکستان کے دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں نوجوان، حکیموں کے ہاتھوں بہت کچھ گنوا چکے ہیں۔ جو حکیموں کے ہاتھ نہیں چڑھے وہ نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو گئے۔ میں نے اپنے کالموں میں خواتین کے حوالے سے جنسی تجسیم کاری کا معاملہ اٹھایا تو متضاد دلائل کے لیے مردوں کی جنسی تجسیم کاری کو پیش کر دیا گیا ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے ہم مردوں کی جنسی تجسیم کاری کے بہت بڑے وکیل ہیں اور محض کسی عناد کی خاطر خواتین کی تجسیم کاری کو بحث میں گھسیٹ لائے ہیں۔

عورتوں کی جنسی تجسیم کاری پر بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے اثرات کہیں زیادہ ہیں اور ویسے بھی ہمارا موضوع ”ہم سب“ پر چھپنے والی تصویریں تھیں۔ اگر ایسا کوئی مواد مردوں کی جنسی تجسیم کاری کے حوالے سے چھپتا تو یقینا اس کو بھی موضوع کا حصہ بنایا جاتا۔ مرد و خواتین کو برابری کی سطح پر لانا صرف ایک خواب ہے۔ اس کی تعبیر کے حصول میں قدامت پسندی اور جدت پسندی دونوں حائل نظر آتی ہیں۔ چسم تصور میں ان خواتین کو لائیے جنہوں نے جنسی تجسیم کاری کے اثر سے نکل کر بڑے بڑے پہاڑ سر کیے۔ نانگا پربت اور کے ٹو سمیت بڑے پہاڑوں کو سر کرنے کا کارنامہ ممکن ہی نہیں جب تک خواتین اس دھوکہ دہی کے بازار سے نکل نہ آئیں۔ ذرا اربوں روپوں سے چلنے والی اس صنعت کو زیر غور لائیے جو رنگ سفید کرنے کی کریموں کو فروخت کرتی ہے۔ سفید رنگ معیار ٹھہرتا ہے۔ صنعت کار میدان میں کودتا ہے۔ جاہلیت کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اس دعوے کے ساتھ ایسی کریمیں بازار میں لاتا ہے جو رنگ گورا کرتی ہیں۔ سائنس کی الف ب سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا ناممکن ہے۔ فقط ان کریموں میں سن بلاک کے کیمکلز کو استعمال کیا جاتا ہےجس سے کریم استعمال کرنے والی خاتون کے چہرے کی جلد، کریم استعمال نہ کرنے والی خواتین کی نسبت بہتر نظر آتی ہے۔

جنسی تجسیم کاری کا بڑا نقصان یہ ہے کہ زندگی کا مقصد پستانوں اور عضو مخصوص کی طوالت میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ آئیے ذرا اپنا معاشرہ دیکھیں۔ کیا عورتیں اور مرد برابر صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں؟ کیا اگر عورت کی ساری آزادی جسمانی حصوں کی معیار کے مطابق نشوونما اور پھر ان کو دکھانے کی آزادی سے منسلک ہے تو اس سے عورت مرد کے برابر آ جائے گی یا چار قدم مزید پیچھے رہ جائے گی؟ بارہا پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں خواتین اچھی ڈرئیورز کیوں نہیں ہیں؟ بچوں کے برعکس بچیوں کے کھیل گڑیا وغیرہ تک کیوں محدود ہیں؟ بچیاں فٹ بال یا کرکٹ کیوں نہیں کھیل سکتیں؟ انہی عوامل کی وجہ سے “موٹر کارٹیکس” کمزور رہ جاتا ہے جس کا اثر خواتین کی زندگی کے ان امور پر پڑتا ہے جہاں ریفلیکس ایکشن اہم ہوتا ہے۔

انگریزی کے ایک محاورے کا ترجمہ کچھ یوں ہے، “عورت کی طرح پھینکنا”۔ اس محاورے میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ کیوں ایک نوجوان لڑکا جب گیند پھینکتا ہے تو کھل کر پھینکتا ہے لیکن نوجوان لڑکی جب گیند پھینکتی ہے تو اس کی آدھی توجہ سینے پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے مکمل بازو کھول کر گیند نہیں پھینک سکتی۔ جنسی تجسیم کاری کے نتیجے میں نفسیاتی کشمکش کو ماپنا کچھ ایسا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ چلیے ایک اور مثال لے لیجیے۔ آپ کے ہاں شادی کے لیے طے معیارات میں عورت کے چناؤ میں بڑا معیار کیا ہے؟ کیا وہ معیارات اس طرح کے ہیں جیسے کہ وہ اچھی ایتھیلیٹ ہے۔ اس کو فلسفے پر عبور ہے؟ وہ کوہ پیما ہے؟ اس کی ریاضی میں صلاحیت کا کوئی ثانی نہیں ہے؟ وہ صحیح معنوں میں عجز کے معانی سے واقف ہے۔ وہ ٹورسٹ ہے اور روپے پیسے سے بے نیاز بیک پیکرز کی طرح دنیا گھومنا چاہتی ہے؟ وہ بہت اچھی پینٹر ہے۔ وہ بہت اچھی ناول نگار ہے۔ اس میں ایکٹنگ کی صلاحیت بہت جاندار ہے فلموں اور ڈراموں میں بے مثال کردار ادا کرے گی۔ وہ فلاحی کاموں میں شدید دلچسپی لیتی ہے اور بہترین سماجی کارکن ہے۔ ۔ یہ سب معیارات مد نظر ہوتے ہیں یا فقط نسوانی خدوخال، خاندانی پس منظر اور مال و دولت پیش نظر ہوتے ہیں۔ اول الذکر معیارات تبھی معیارات ٹھہر سکتے ہیں جب غیر متناسب ترجیح جسمانی خدوخال کو نہ دی جائے۔

کبھی مرد و عورت کی صلاحیتوں کا تقابلی جائزہ لے ڈالیے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ فرق بہت کم ہے۔ جو نمایاں فرق آپ کو نظر آئیں گے وہ بھی رسوم و رواج، معاشرتی ٹیبوز اور جنسی تجسیم کاری جیسی منحوسیت کا نتیجہ ہیں۔ اب آپ اس بات کا بھی جائزہ لگے ہاتھوں لے ڈالیے کہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے میدان میں مرد اور عورت برابر ہیں؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ برابر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب صرف قدامت پسندی میں تلاش کرتے نہ رہ جائیے۔ تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنے جائزے کا دائرہ کار بڑھائیے۔

جائزے کا دائرہ کار بڑھانے سے یہ فائدہ ہو گا کہ فقط کالم برائے کالم لکھنے کے لیے دلائل کی کمیابی کی صورت طنز واحد ہتھیار نہیں ٹھہرے گا۔ پھبتیاں اور طعنے واحد مددگار نہیں ہوں گے۔ طنزیہ اصطلاحات جیسے غیرت برگیڈ اور لنڈے کے لبرل کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔ ذات شریف کو پیچھے رکھ کر صرف دلائل کے ساتھ موضوع پر رہنے کی سعادت نصیب ہو گی۔ حالیہ مسئلے پر یہی شکایت ہے کہ بندگان خدا، دلائل کے ساتھ آتے۔ لیکن دلائل کے بجائے جس انداز سے ”پارسائی، واٹس ایپ، مروڑ، مذہبی حمیت کے محافظ، مخالفین، قبض نما اعتراض، تاریخ کے کچرا دان“ کی پھبتیاں کسی گئیں اس نے مایوس کیا ہے۔ اس مایوسی کا ”ہم سب“ کی ادارت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے تو مؤقف چھاپنا ہی تھا لیکن افسوس صرف لکھنے والوں کے رویوں پر ہے۔

مجھے ”ہم سب“ پر لکھتے ہوئے دو سال کا عرصہ گز ر چکا ہے۔ اس دوران کتنا سیکھا نہیں بتا سکتا ہے کہ ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے جو سیکھنے کی مقدار کو ناپ سکے۔ وجاہت مسعود سے جملہ سیدھا کرنا سیکھ لیا۔ ناپسندیدگی اور نفرت کے جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مخاطب سے بہ طرز محبت کیسے بات کرنا ہے اس ہنر میں وجاہت مسعود یکتا ہیں اور ان سے ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔

حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ طبقہ جو ہم جنسیت پرستی پر سب سے بڑی دلیل یہ لاتا ہے کہ اے پی اے نے ہم جنس پرستی کو ذہنی عارضوں کی فہرست سے نکال دیا ہے وہی طبقہ اے پی اے کی جنسی تجسیم کاری کے خلاف رپورٹ پر ایمان نہیں لاتا۔ یہ رپورٹ تو باقاعدہ ایک ٹاسک فورس کی مرتب کردہ ہے جبکہ ہم جنس پرستی پر تو ’ایک سیاسی فیصلہ‘ کے الزام کے تحت باقاعدہ بحث موجود ہے

جنسی تجسیم کاری کے معاملے پر اب جو ایک بد دلی کی لہر چلی ہے اس میں ”ہم سب“ بحیثیت ادارہ کا کوئی کردار نہیں۔ اگر وجاہت مسعود صاحب ناراض نہ ہوں تو یہ بددلی کی کیفیت تقریبا وہی ہے جس نے ان کو ”دنیا پاکستان“ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور اس بد دلی کا اظہار انہوں نے فون پر کی ایک گفتگو میں کیا تھا۔ آپ مجھے دوش دیجئے جو بد دل ہوا۔ دو سال لکھنے کے بعد احساس زیاں کا خیال نہ جانے فرش دل پر کیوں در آیا ہے؟

ایسا محسوس ہوا جیسے اپنی گنی چنی صلاحیتوں کو صرف سائنسی طرز فکر کی ترویج پر استعمال کرنا چاہیے تھا۔ اس کے لیے اظہار کا میڈیم کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ میرے مخاطب صرف بچے ہونے چاہیے تھے کہ انہی بچوں سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اب تک کی آنے والی نسلیں یا تو قدامت پسندی اور اندھا دھند تقلید پرستی کا شکار رہیں یا انہی میں سے دوسرا مزاحمتی طبقہ اپنے نظریات میں ایک اور شدت پر چلا گیا۔ انسانی احترام اور شائستہ پیرائے میں گفتگو کی جگہ انا پرستی اور طعنہ زنی نے لے لی۔

”ہم سب“ کے ساتھ بحیثیت قاری مضبوط رشتہ ہے جو ایسے ہی مضبوطی سے قائم رہے گا۔ ”ہم سب“ کے ٹیم ممبز کے ساتھ محبتوں کا سفر رواں رہے گا۔ ملنا ملانا، محبت بھری جھپیاں، کھابہ گیریاں سلامت رہیں گی۔ کبھی کوئی ایسا موضوع ہوا جو ضروری سمجھا کہ ذریعہ ابلاغ ”ہم سب“ سے بہتر کوئی نہیں تو بحیثیت ایک لکھنے والے کے بھی حاضری رہے گی۔ ”ہم سب“ ویسے بھی اب ایک ایسا خوبصورت گلدستہ بن چکا ہے جس میں کسی منفرد رنگ اور خوشبو دار پھول کی کمی نہیں۔ ایسے میں ایک گل دوپہری کا پھول نہیں ہو گا تو بحیثیت مجموعی ، گلدستے کی شناخت پر کو ئی فرق نہیں پڑے گا۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik