شام اور بیت المقدس کی اسلامی فتوحات


جاننے والے جانتے ہیں کہ ایلیاء یا بیت المقدس کی فتح شام کی فتح کا ہی ذیل تھی کیونکہ بیت المقدس اہل شام کے تحت ہی آتا تھا۔ چنانچہ امام ابن کثیر نے ہرقل کے بارے لکھا ہے: ”ہرقل جب بھی بیت المقدس کی زیارت کا قصد کرتا تو وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے کہتا: اے سوریہ (شام) تجھ پر سلام۔ “ (تاریخ ابن کثیر مترجم، ج7 ص79) اس طرح امام ابن کثیر نے فرمایا: ”پس حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے لئے شام جانے کا عزم کر لیا۔ “ (تاریخ ابن کثیر مترجم، ج7 ص81)

اس شام کی فتح کے متعلق امام ابن کثیر لکھتے ہیں: ”انہوں (یعنی اسلامی افواج) نے ستر راتوں تک دمشق کا شدید محاصرہ کیے رکھا اور بعض چار ماہ، بعض چھ ماہ اور بعض چودہ ماہ بیان کرتے ہیں۔ “ (تاریخ ابن کثیر مترجم، ج7 ص37)

”جب اہل دمشق کو یقین ہو گیا کہ مدد ان تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ کمزوری اور مایوسی کا شکار ہوگئے اور مسلمان مضبوط ہو گئے اور ان کا محاصرہ سخت ہو گیا۔ “ (تاریخ ابن کثیر مترجم، ج7 ص37)

”حضرت خالد اور ان کے شجاع اصحاب فصیلوں سے اتر کر دربانوں کے پاس گئے اور انہیں قتل کر دیا۔ قفل تلواروں سے توڑ دیے اور بزور قوت دروازہ کھول دیا۔ جب مشرقی دروازے کے اصحاب میں سے کوئی شخص آتا تو حضرت خالد کے ساتھی اسے قتل کر دیتےاور حضرت خالد بزور قوت شہر میں داخل ہو گئے اور آپ نے جس کو بھی وہاں پایا، قتل کر دیا اور ہر دروازے کے لوگوں نے اپنے اس امیر سے جو دروازے کے پاس تھا، باہر سے صلح کے متعلق پوچھا۔ “ (تاریخ ابن کثیر مترجم، ج7 ص38)

اسی طرح بیت المقدس کی فتح کے بارے میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں: ”جب حضرت ابوعبیدہ دمشق سے فارغ ہو گئے تو آپ نے تحریراً اہل ایلیاء کو اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دی نیز لکھا کہ اگر انہیں یہ بات منظور نہیں تو وہ جزیہ دیں یا جنگ کے لئے تیار ہو جائیں تو انہوں نے آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ فوجوں کے ساتھ ان کے پاس گئے۔ پھر بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا اور ان پر سختی کی تو انہوں نے اس شرط پر صلح کرنا قبول کیا کہ امیر المومنین حضرت عمر ان کے پاس آئیں۔ “ (تاریخ ابن کثیر مترجم، ج7 ص82)

اس ضمن میں وہ شرائط دیکھنا بھی انتہائی فائدے کا باعث ہو گا جو حضرت عمر کی جانب سے اہل شام پر عائد کی گئی تھیں۔ چنانچہ عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں:

”مَیں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر کو دیا تھا کہ اہل شام کے فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے ساتھ کہ جب آپ کا لشکر ہم پر آیا تو ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں:

★ ہم اپنے ان شہرں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔
★ مذہبی عبادت گاہوں اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو پرانے ہو کر گرنے والے ہیں ان کی مرمت نہیں کریں گے۔
★ ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو اسے روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو، ہم ان کے دروازے رہ گزر اور مسافروں کے لئے کھلے رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے۔

★ مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے۔
★ ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ سر کے بال بنانے میں۔
★ ہم ان کے جیسا کلام نہیں کریں گے اور ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے۔
★ ہم گھوڑوں پر زین (کاٹھی) ڈال کر سواری نہ کریں گے۔
★ اپنے سروں کے اگلے بالوں کو منڈوا دیں گے۔
★ صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔

★ اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کے راستوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے۔
★ گرجوں میں گھنٹیاں بلند آواز سے نہیں بچائیں گے۔
★ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں نہیں پڑھیں گے۔

★ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر ادا نہ کریں گے۔
★ اپنے مرنے والوں پر اونچی آواز سے نہ روئیں گے نہ ان کے جنازوں کو لے کر (اپنے مذہبی عقیدہ و نظریہ کے مطابق) دھونی دیتے ہوئے مسلمانوں کے راستوں سے گزریں گے۔
★ مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔

جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں۔ یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی انہی شرائط پر امان ملی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام مستحق ہم بھی ہو جائیں گے۔ “
(تفسیر ابن کثیر: تحت سورۃ توبہ آیت 29، إرشاد الفقیھ لابن کثیر: 340/2، المحلی لابن حزم: 346/7، الاحکام الصغریٰ لعبدالحق الاشبیلی: 600، أحکام أھل الذمة: 1149/3)

بعد والوں خلفاء نے ان شرائط میں اور بھی کئی طرح کا اضافہ کیا۔ چنانچہ فقہ حنفی کے امام اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز قاضی ابویوسف نے اپنی مشہور کتاب الخراج میں ان غیر مسلم ذمیوں کے لئے ایسے بہت سے احکامات نقل کیے ہیں۔ یہاں صرف نمونے کے طور پر ان کی کتاب سے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا ایک خط نقل کیا جا رہا ہے جو انہوں نے اپنے ایک گورنر کو بطور تنبیہ لکھا تھا جس نے شاید غیر مسلموں کے لئے مخصوص ان احکامات پر عملدرآمد چھوڑ دیا تھا۔ یاد رہے کہ عمر بن عبدالعزیز ہمارے یہاں پانچویں خلیفہ راشد مانے جاتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ایک عامل کو یہ لکھا کہ:

”اما بعد، جو صلیبیں علانیہ نصب ہیں ان کو توڑ دیا جائے۔ اور یہودیوں اور عیسائیوں کو اجازت نہیں کہ وہ سواری کے لیے زین کا استعمال کر سکیں بلکہ انہیں سامان ڈھونے والی کاٹھی رکھ کر ہی سواری کرنا ہو گی اور ان کی خواتین بھی زین پر بیٹھ کر سواری نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں بھی سامان ڈھونے والی کاٹھی ہی استعمال کرنی ہے۔ اس کا باقاعدہ فرمان جاری کرو اور عوام کو اس کی نافرمانی نہ کرنے دو اور فرمان جاری کرو کہ کوئی عیسائی قبا نہیں پہن سکتا اور نہ ہی نفیس کپڑا پہن سکتا ہے اور نہ ہی عمامہ پہن سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہاری عملداری میں بہت سے عیسائی عمامہ پہننے کی رسم میں دوبارہ مبتلا ہو گئے ہیں اور وہ کمر کے گرد پیٹی (زنار) بھی نہیں باندھ رہے ہیں اور اپنے آگے کے سر کو گنجا بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اگر تمہاری موجودگی میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اس کیوجہ تمہاری کمزوری ہے، تمہاری نا اہلی ہے اور تہمارا خوشامدیں سننا ہے، اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے پرانے رسوم کو جاری کریں۔ تم کس قسم کے انسان ہو؟ ان تمام چیزوں کا خیال رکھو جن کی میں نے ممانعت کی ہے اور ان لوگوں کو ایسا کرنے سے بالکل روک دو۔ والسلام“
(کتاب الخراج لأبی یوسف، صفحہ 145، المکتبة الأزھریة للتراث)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).