عزت بچا لو یا پھر بچے


جب قصور کے متاثرین کے ساتھ سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں کا فوٹو سیشن ہوجائے اور بصری و کاغذی میڈیا پر مذمتی بیانات تسلی بخش انداز میں نمایاں و شایع ہوجائیں تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ شاید وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا۔

کبھی اس نفسیات پر بھی ریسرچ ہوگی کہ اس سماج میں عزت اور بے عزتی کا مفہوم کیا ہے؟ اگر تو عزت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ بھی بیت جائے مگر آپ اپنی عزت کے ڈر سے اف بھی نہ کریں تو پھر تو معاملہ سیدھا سیدھا ہے۔ لیکن پھر وہی عزت دار جب اپنی عزت تار تار ہونے کے کئی برس بعد منہ کھول کھول کر بتاتا ہے کہ اس کے اور اس کے بچوں کے ساتھ اصل میں کس نے کیا کیا تو پھر اسے اپنی اس عزت کا خوف کیوں نہیں رہتا جسے بچانے کے لیے وہ اتنا عرصہ خاموش رہا۔ کئی سال بعد ہی بولنا تھا تو اس وقت کیوں نہیں بولا جب بولنے کی ضرورت تھی اور اب بولتے ہوئے عزت تار تار ہونے کا ڈر کہاں چلا گیا؟ لہٰذا سب سے بڑے مجرم وہ ہیں جو وقت پر اپنا منہ سی لیتے ہیں اور انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی اور بولے اور پھر سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنا شروع کردیتے ہیں۔

رہی بات سرکار کی تو سرکار دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو موتیا زدہ ہونے کے سبب اپنے سوا ہر شے دھندلا دیکھتی ہے۔ دوسری قسم کی سرکار وہ ہے جسے وہی نظر آتا ہے جو دیکھنا چاہتی ہے۔ چاہے تو دیوار پے لکھا بھی نظر نہ آئے اور چاہے تو پسِ دیوار بھی دیکھ لے۔ یقین نہ آئے تو عصرِ حاضر کے عظیم منطقی رانا ثناللہ کے اقوال سے ہی کچھ روشنی لے لیں۔

فرماتے ہیں کہ قصور میں جو کچھ ہوا یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ دو ہزار آٹھ میں کچھ کیسز ہوئے تھے اور ان کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔ موجودہ جھگڑے کے پیچھے دراصل زمین کا تنازعہ ہے۔ دلارے رانا صاحب سے کون پوچھے کہ زمین کے جھگڑے میں ڈنڈے سوٹے چلتے اور بندے مرتے تو دیکھے ہیں۔ لیکن کیا کبھی کسی نے یہ بھی سنا کہ زمین کا جھگڑا بچوں کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیو بنا کر ان کے والدین کو بلیک میل کرکے نمٹایا جائے اور جتنے کی زمین نہیں اس سے کہیں زیادہ پیسے متاثرہ بچوں کے خاندانوں سے اینٹھ لیے جائیں اور زمین کا جھگڑا پھر بھی قائم رہے؟

متاثرہ علاقے کے پولیس اہل کار فرماتے ہیں کہ دو سو اسی یا چار سو بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی خبر درست نہیں اب تک صرف سات کیسز سامنے آئے ہیں اور صرف پچاس ویڈیوز کا پتہ چلا ہے اور صرف پندرہ سولہ ملزم ہیں۔ نیز یہ کہ پولیس ایسے ہی تو پرچہ نہیں کاٹ سکتی جب تک متاثرہ فریق تھانے سے رجوع نہ کرے۔

مان لیا پولیس جو کہہ رہی ہے وہ ہی درست ہے۔ مگر پولیس ثابت کیا کرنا چاہتی ہے؟ کیا پولیس یہ بتا رہی ہے کہ جب تک ایک کے بجائے چار سو سے بدسلوکی نہ ہو اور جب تک ایک کے بجائے ایک سو وڈیوز سامنے نہ آئیں تب تک جرم سنگین قرار نہیں پاتا اور جب تک متاثرہ پارٹی پولیس سے رابطہ نہ کرے تب تک پولیس کے علم میں یہ نہیں آتا کہ اس کے علاقے میں کوئی جرم ہوا بھی کہ نہیں۔

ایسا ہی ہے تو پھر یہی پولیس بغیر کسی متاثرہ شخص کے سامنے آئے کسی بھی جگہ سے اسلحہ کیسے برآمد کرلیتی ہے، نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات کیسے درج کرلیتی ہے اور متاثرہ شخص کی لکھوائی ایف آئی آر کمزور یا طاقتور کیسے بنا دیتی ہے۔ یہ سب ممکن ہے تو پھر اسی الہامی صلاحیت کو ان جرائم کی کھوج کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا کہ جنھیں بیان کرنے کے لیے عام آدمی تھانے تک جاتے ہوئے گھبراتا ہے؟

فرض کریں کسی سیاستداں، وڈیرے، صنعت کار، تاجر، عسکری و غیر عسکری افسر، جج یا غیر ملکی سفارت کار کے بچے کو کوئی گروہ اغوا کرکے اس کے ساتھ نہ صرف بدسلوکی کرے، بلکہ اس کی ویڈیو بھی بنائے اور پھر رہا کردے۔ مگر بچے کا خاندان یہ کہے کہ ہم ایف آئی آر درج نہیں کروائیں گے لیکن ملزموں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے۔ اس مطالبے پر پولیس کا رویہ کیا ویسا ہی لاتعلقانہ و معصومانہ ہوگا جو قصور میں دیکھا گیا؟

ایک بات او سمجھنا چاہتا ہوں؟ جب رانا ثناللہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کچھ اور ہے اور پروپیگنڈہ کچھ اور کیا جارہا ہے اور جب رانا ثناللہ کے باس شہباز شریف کہتے ہیں کہ عدالتی تحقیقات کے بعد مجرموں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تو ان میں سے کون سا بیان باقاعدہ سرکاری موقف سمجھا جائے؟ اور کوئی شہباز شریف صاحب کو بتانے کی زحمت کرے گا کہ عبرت ناک سزائیں ہوا میں نہیں ملتیں، کسی قاعدے قانون کے تحت دی جاتی ہیں۔ کیا واقعی وفاقی اور صوبائی سطح پر عورتوں اور بچوں سے جنسی زیادتی اور پھر بلیک میلنگ کے تعلق سے ایسے موثر قوانین ہیں کہ جن کے تحت ملزموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے یا پھر آج بھی حکمران اکبر بادشاہ ہے کہ زبان سے نکلا حکم ہی قانون ہے۔ ( جدید دور میں آئینِ اکبری پر عمل درآمد کے طریقے کو پولیس مقابلہ کہتے ہیں )۔

اگر واقعی ایسے قوانین ہوتے جن کے ذریعے قوم کے مستقبل سے بدفعلی کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنایا جاسکتا تو پھر عدالتوں سے ایسے مجرموں کا کنوکشن ریٹ ایک فیصد سے بھی کم کیوں ہوتا اور قصور جیسے واقعات کے مجرم کچھ کر گزرنے سے پہلے دس بار کیوں نہ سوچتے؟

سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ رائے ونڈ سے پچاس کلو میٹر کے دائرے میں ہونے والے اس سانحے کے متاثرین کے پاس جانے کے بجائے شہباز شریف کی سیکیورٹی کے پیشِ نظر متاثرین سے کہا گیا کہ وہ قصور شہر میں آ کر چیف منسٹر سے مل لیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میرے بچے کے ساتھ حادثہ ہوجائے اور کوئی علاقہ معزز مجھ سے کہے کہ بھائی آپ وقت لے کر میرے گھر تشریف لائیے تاکہ آپ سے ہمدردی کر سکوں۔ اس وقت مجھے جانے کیوں قولِ خواجہ یاد آ رہا ہے ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی اخلاقیات ہوتی ہے‘‘۔

رہے میاں نواز شریف تو انھیں اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بیلا روس کا بیرونی دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ اب سانحہِ قصور اتنا بڑا بھی نہیں کہ اس کی خاطر بیلا روس جیسے اہم ملک کا دورہ آگے پیچھے کر دیا جاتا۔ یہ کیا کم ہے کہ میاں صاحب خون کے آنسو روتے روتے طیارے میں سوار ہو کر قصور کے اوپر سے گزر گئے۔

یہ کسی ایک حکومت کی نہیں تمام اگلی پچھلی حکومتوں کی اجتماعی ناکامی ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اپوزیشن اس واردات کو ایک تازہ الاؤ سمجھ کے آگ تاپ رہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ میڈیا کو المئے کی گہرائی ناپنے اور اس کے تدارک کی تعمیری بحث کرانے کے بجائے محض یہ دلچسپی ہے کہ سب سے پہلے نیوز کس نے بریک کی۔

عام آدمی کے پاس پچھلے اڑسٹھ برس میں ہر جانب سے اتنے خون کے آنسو، اتنے اظہاراتِ یکجہتی، اتنے وعدے، اتنی یقین دہانیاں جمع ہوچکی ہیں کہ اب انھیں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی۔ یہ سب اسبابِ ہمدردی نیلام کرکے بس چند قوانین اور ان پر مکمل عمل درآمد کرانے والے کچھ لوگ فراہم دیجیے۔ آپ کی بڑی مہربانی۔
پیر 10 اگست 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).