بند دروازے سے ٹکرائی ہوا دونو طرف


ڈاکٹر حسن لکھتے ہیں، 
ہورہی ہیں دستکیں ایسا لگا دونو طرف
بند دروازے سے ٹکرائی ہوا دونو طرف
پھر کبھی باہم یو تجدیدے وفا ہو نہ سکی
ہوگئی حاوی محبت پر آنا دونو طرف
بارہا زنجیر نے کھولنے کی کوشش خود بھی کی
بارہا ایک ہاتھ بڑھ کر روک گیا دونو طرف

منگل کو جب انڈیا کی قابض فوج نے کشمیری نوجوان کو شہید کیا تو ہمارے میڈیا نے خوب اس کی کوریج کی، اور کرنی بھی چاہیے۔ کشمیری عوام کی قربانیاں اس خطہ ارض پر قرض ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو ان امنگوں کو تقویت ملے گی۔ اور کسی نہ کسی روز بھارتی استعمار کا اختتام ہو ہی جائے گا۔ بارہا مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی کوششیں کی گئی، مگر ناکام رہیں۔

دوسری جانب پاکستان نے اقوام متحدہ کی کرارداد کے مطابق اپنے حصے کے کشمیر کو حق حاکمیت دی ہوئی اور بین الاقوامی سطح پر باقی حصے کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔ اسی مسئلے سے دانستہ یا پھر غیر دانستہ طور پر ایک اور علاقے کو جوڑا ہوا ہے، جی ہاں گلگت بلتستان جہاں کی جنگجو قوم نے تقسیم ہند کے بعد خود کو ڈوگرہ راج سے آزاد کروایا اور اپنے 17دن کے نو عمر علاقے کو پاکستان کے حوالے کر دیا۔ 70برس گزر گئے گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کو حکومتیں نظر انداز کرتی رہی۔ جس کا شکوہ زبان زدِ عام ہے۔

بھٹو سرکار نے گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے عوام کو مختلف اشیاء میں سبسڈی دی، جن میں اشیائے خوردونوش کے علاؤہ پیٹرولیم مصنوعات و علاقائی ریسورسز شامل تھی۔ حال ہی میں مسلم لیگ کی حکومت کی جانب سے بعض اہم سبسیڈز ختم کرنے کی کوشش پر علاقے میں غم وغصہ کی فضہ قائم ہوئی جس کا اظہار پرامن احتجاج کے ذریعے کیا گیا، تمام غیر آباد زمین کو سرکاری ملکیت ظاہر کر کے سی پیک میں شامل منصوبوں سے متصل کرنے پر بھی بھرپور احتجاج ہوا۔ مگر افسوس کی پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

حکومت کا دوسرا بڑا قدم ٹکس اڈاپٹیشن ایکٹ2012کے تحت علاقہ مکینوں پر ٹکس لگانا تھا۔ جس کے خلاف خطہء بے آئین گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی، انجمن تاجران و ہوٹل مالکان گلگت بلتستان کی طرف سے نومبر کے آخری ہفتے میں پر زور احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ بہ ظاہر حکومت مطالبات مان گئی لیکن موثر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی جانب سے دوبارا 23دسمبر سے مکمل شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال کی کال پر حکومت عوام دشمن حربے استعمال کرنے لگی، حکومتی اراکین اس احتجاج کے سرکردہ رہنماؤں کو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے کہنے لگے اور ہڑتال کو ناکام بنانے کے لئے حتی الامکان کوشش کیں۔ عوام ایکشن کمیٹی کے موثر اقدامات کی وجہ سے حکومتی مشینری ہڑتال کو غیر موثر بنانے میں ناکام رہی، مقامی اخبارات نے حکومتی حمایت میں ہڑتال کی کوریج بھی کم کی اور حکومتی پروپیکینڈے کے حامی رہے۔

گلگت بلتستان کے نامور سیاسی شخصیت و شاعر عنایت اللہ شمالی لکھتے ہیں،
کسی پہ ظلم کی شدت کا نشہ طاری ہے
کسی کا خون جگر سے براسبو ہے ابھی
غرب عدل کی زنجیر کیا ہلائے گا
امیر شہر بھی ظالم ہے تند خو ہے ابھی

گلگت بلتستان حکومت جس نہج پر اس ہڑتال کو لانے کی کوش کر رہی ہے عوامی ایکشن کمیٹی و انجمن تاجران کی جانب سے موثر اقدامات کی وجہ سے پسپا ہے۔ ٹیکس کے حوالے سے ہی نومبر میں ہونے والے احتجاج کو انڈین میڈیا نے غلط تاثر کے ساتھ پیش کیا۔ جس کی بڑی وجہ پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کا غیر سنجیدہ پن ہے۔ جتنا وقت حکومت اس معاملے کے منصفانہ حل کے لیے لگائے گی احتجاج کی شدت بڑھتی چلی جائے گی۔ علاقے کی بہتری بھی اس معاملے کے جلدی حل ہونے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).