بھولنے کی بیماری کی وجوہات اور علاج


مریض نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں کچھ لمحے بے تاثر آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا پھر ایک دم گھبرا کے بیٹھ گیا
”میں کہاں ہوں؟ میں کون ہوں؟ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا۔ “

یہ ایک زمانے میں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا ایک مشہور سین ہوا کرتا تھا۔ ہر دوسری تیسری فلم میں ہیرو یا ہیروئین کی یاداشت کھو جاتی تھی اور وہ بچارا یا بچاری اس قسم کے سوال کرتے پائے جاتے تھے۔ کئی لوگوں کا اس قسم کی فلموں اور ڈراموں کے بارے میں ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ غیر حقیقی صورت حال ہے جو صرف فلموں اور کہانیوں میں ہوسکتی ہے کیونکہ اگر کسی شخص کی یاداشت گم ہوگئی ہو تو اسے اپنی زبان کیسے یاد رہی؟ یا اور کئی کام جو اس نے پچھلی زندگی میں سیکھے وہ کیوں نہیں بھول گیا؟ جب میں لڑکپن میں تھی تو ایسی کہانیاں پڑھ کر میرے بھی ذہن میں یہ بات آتی تھی۔ اور مجھے لگتا تھا کہ جنوں پریوں کی کہانیوں کی طرح یاداشت کھو جانا بھی صرف افسانوی بات ہے۔ جو کہ حقیقی زندگی میں نہیں ہوسکتی۔ سوچنے والی بات ہے نا کہ اگر ہمارا دماغ ہی ہر قسم کی یاداشت کا ذمہ دار ہے اور کسی صدمے یا دماغی چوٹ کے نتیجے میں یاداشت متاثر ہورہی ہے تو دماغ میں محفوظ ہر یاد کی ہوئی چیز متاثر ہونی چاہیے۔

1990 کی دہائی میں ہالی ووڈ میں ایک فلم بنی ”The vow“ جس کا مرکزی خیال لے کر پاکستان اور انڈیا میں کئی کہانیاں ڈرامے اور فلمیں بن گئیں۔ کچھ نے لفظ بہ لفظ ترجمہ پیش کردیا بس کلچر کی کچھ رد و بدل کی گئی۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک شادی شدہ جوڑا جو کہ ایک بہت مطمئین زندگی گزار رہا تھا ایک دم ایک حادثے کا شکار ہوجاتا ہے جس میں دونوں کو شدید چوٹیں آتی ہیں۔ دونوں کے ہوش میں آنے کے بعد بیوی شوہر کو پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ پچھلے ڈھائی سال کا تمام عرصہ اس کے ذہن سے محو ہوچکا ہے اسے پچھلی تمام زندگی یاد ہے مگر شوہر سے ملنے سے پہلے والی۔ اسی بنیاد پہ وہ شوہر کے لیے کسی قسم کے جذبات محسوس نہیں کرپاتی اور مکمل اجنبیت سے پیش آتی ہے۔ شروع میں بہت شدید ذہنی صدمے کا شکار شوہر آخر کار حالات کو سمجھ کہ دوبارہ تجدید محبت کرتا ہے اور بالکل پہلے کی طرح اپنی بیوی کو دعوتوں پہ اور گھومنے پھرنے کے لیے لے جاتا ہے۔ آخر کار تین سال بعد جب وہ اسے دوبارہ شادی کی پیش کش کرتا ہے تو وہ مان جاتی ہے اور دوبارہ ان کی شادی ہوجاتی ہے۔

دیکھنے میں یہ ایک بہت رومانوی مگر حقیقت سے بہت دور کی کہانی لگتی ہے مگر اس کہانی کی سب سے عجیب بات یہی ہے کہ یہ ایک حقیقی جوڑے کی کہانی ہے۔ 1993 کے ستمبر میں شادی کرنے والا یہ جوڑا دس مہینوں سے بھی کم عرصے میں اس حادثے کا شکار ہوا جس کے بعد ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ حادثے کا شکار خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کے ڈھائی سال مکمل گم ہوچکے ہیں جس کے متعلق ان کی معلومات صرف وہ ہے جو دوسروں نے بتائی۔ انہیں اس بارے میں بذات خود کچھ یاد نہیں۔
یہ اور ایسے کئی واقعات نفسیات کی دنیا کے لیے چلینج بن جاتے ہیں مگر ایسے ہی واقعات کئی اہم دریافتوں کے لیے بنیاد بھی بنتے ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ ہماری یاداشت کس طرح بنتی ہے اور اس قسم کے مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم وہ طریقہ سمجھتے ہیں جس طریقے سے یاداشت بنتی ہے۔ ہماری یاداشت کے تین درجے ہوتے ہیں سب سے پہلی ہوتی ہے احساسات کی یاداشت یا سینسری میموری جس کی مختلف اقسام ہیں یعنی جتنی اقسام کی حسیں اتنی ہی اقسام کی یاداشت۔ مگر اس میں دو اہم میموریز ہوتی ہیں آئی کونک میموری iconic memory اور دوسری ایکوئیک میموری echoic memory۔ یا ہم انہیں بصری اور سماعتی یاداشت بھی کہہ سکتے ہیں۔ احساسی یاداشت کا دورانیہ انتہائی کم ہوتا ہے اور یہ ان احساسات پہ مبنی ہوتی ہے جو سگنلز ہماری حسی اعضاء ماحول سے حاصل کرتے ہیں۔

یہ مختلف احساسات جمع ہوکر ایک با معنی واقعہ تشکیل دیتے ہیں جو کہ ہمارے اولین احساسات کی نقل ہوتی ہے جس میں غیر ضروری اور زائد احساسات شامل نہیں ہوتے۔ کچھ سیکنڈز کے بعد اصل احساسات ہماری یاداشت سے ڈلیٹ ہوجاتے ہیں۔ اور یہ با معنی مگر اصل سے کچھ مختصر یاداشت شارٹ ٹرم میموری میں چلی جاتی ہے۔ جو کہ یاداشت کا دوسرا درجہ ہے۔ جب ہم واقعے کو کافی حد تک معنی دے چکتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں تو قریبا 20 سیکنڈز کے بعد یہ یاداشت اگلے اور مستقل درجے تک پہنچتی ہے جسے لانگ ٹرم میموری کہا جاتا ہے۔ شارٹ ٹرم میموری میں موجود معلومات کو جتنی دفع دہرایا جائے وہ اتنی ہی اچھی طرح سے لانگ ٹرم میموری میں پہنچتی ہے۔ یعنی کئی بار معلومات کی سینسری میموری اور شارٹ ٹرم میموری میں بھاگ دوڑ کروائیں۔

دیکھنے والی چیز بار بار دیکھیں، سننے والی بات بار بار سنیں۔ اس سے متعلق تفصیل آہستہ آہستہ آپ کی لانگ ٹرم میموری کا حصہ بنتی چلی جائے گی۔ اس کے بعد آتی ہے لانگ ٹرم یا طویل المیعادی یاداشت کی اقسام کی باری۔ اسے سمجھ کر ہی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فلموں اور کہانیوں میں دکھائے جانے والے یاداشت کھو جانے والے واقعات میں کتنی حقیقت ہے۔ لانگ ٹرم میموری کے دو حصے ہوتے ہیں ایک تفصیلی یاداشت declarative memory اور دوسرا تکنیکی یاداشت procedural memory ان کے نام سے ہی ان کا فرق واضح ہے۔ یعنی ایک یاداشت کا تعلق سیکھی گئی صلاحیتوں سے ہے جس میں زبان سیکھنے سے لے کر سائیکل چلانے تک یا راکٹ اڑانے تک سب صلاحیتیں آجاتی ہیں۔ جب کہ دوسری یاداشت کا تعلق چیزوں اور واقعات کی تفصیل سے ہے۔ اس کی بھی مزید دو اقسام ہیں۔ ایک سیمینٹک میموری semantic memory اور دوسری ایپی سوڈک میموری episodic memory۔

سیمینٹک میموری میں ہمارا دماغ منطقی معلومات جمع کرتا ہے۔ جبکہ ایپی سوڈک میموری میں ہمارا دماغ ہماری ذات سے متعلق معلومات جمع کرتا ہے۔ میرا نام، میں کس محلے میں رہتی ہوں، میرا تعلق کس پیشے سے ہے، میرے گھر والے کون ہیں، کس دن میرے ساتھ کیا ہوا وغیرہ۔ جب بھی کسی کی یاداشت پہ اثر ہوتا ہے یا جب ہم کہتے ہیں کہ اس کی یاداشت گم ہوگئی تو اصل میں اس کی ایپیسوڈک میموری متاثر ہوتی ہے۔ باقی یاداشت درست کام کر رہی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ شخص ہر صلاحیت کو استعمال کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ مگر اپنی شخصیت کے بارے میں جزیات بھول جاتا ہے۔ یہ یاداشت کا نقصان حادثے یا صدمے کی نوعیت کی بنیاد پہ جزوی یا مکمل بھی ہوسکتا ہے اور عارضی یا مستقل بھی۔ کبھی کبھی ہمارا دماغ کسی مخصوص حادثے کی جزیات پہ تالا لگا دیتا ہے تاکہ ہم ذہنی تکلیف سے بچ سکیں مگر وہ صرف ایپیسوڈک میموری پہ تالا لگاتا ہے۔ اس سے متعلق کہیں نا کہیں جو تکنیکی یا سیمینٹک میموری موجود ہوتی ہے وہ ہماری شخصیت کو مسلسل دباؤ میں رکھتی ہے جسے ہم جذباتی صدمے کا نام دیتے ہیں۔

کبھی کبھی کسی حادثے کی صورت میں دماغ پہ لگنے والی چوٹ مختلف یادداشتوں پہ اثر انداز ہوسکتی ہے اس کی نوعیت کا تعین اس بنیاد پہ ہوتا ہے کہ چوٹ دماغ کے کس حصے پہ لگی ہے۔ کیونکہ بتائی گئی اقسام کا تعلق دماغ کے متخلف حصوں سے ہوتا ہے۔ جو کہ ہماری جسم کے مختلف نظاموں کو چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

یاداشت کے متاثر ہونے کی ایک اہم وجہ بڑھاپا بھی ہے۔ اور اس کی بھی ایک بڑی وجہ پچھلی زندگی میں اپنی ذہنی صلاحیت کا ناکافی استعمال ہے۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کیا جائے کہ ہمارا دماغ ہمیشہ اچھی طرح اپنے فرائض نبھا سکے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں کیا ”نہیں“ کرنا چاہیے جو ہماری یاداشت کو کمزور کر دیتا ہے اور بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری کا شکار کرسکتا ہے۔

یادداشت کو کمزور کرنے والی چیزیں

چینی کا زیادہ استعمال
آلودگی
کم پانی پینا
مونو سوڈیم گلوٹیمیٹ کا استعمال جو کہ چائینیز سالٹ میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے اور عموما تیار کھانوں میں بھی شامل ہوتا ہے۔
جسم اور ذہن کو آرام کا عادی بنا لینا
ایسی چکنائی کا استعمال جو کہ آسانی سے جسم کا حصہ نا بن سکتی ہو۔
الکوحل، سگریٹ، چائے، کافی کا زیادہ استعمال وغیرہ
شدید ذہنی دباؤ یا ڈپریشن بھی یاداشت کو متاثر کرسکتا ہے۔

اور پھر یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ضرور کیا جائے تاکہ یاداشت بہتر ہوسکے۔

یادداشت کو بہتر کرنے والی چیزیں
ہمیشہ وقت پہ کھانا کھائیں جو غذائیت سے بھرپور ہو۔ زبان کے چسکے کی بجائے جسم کی توانائی کو اہمیت دیں۔

کھانے میں اومیگا تھری کی حامل غذا کو شامل رکھیں۔
برین گیمز کھیلیں
ورزش کریں
حسب ضرورت پانی پئیں تاکہ جسم پانی کی کمی کا شکار نا ہو۔
ہر کام کرنے سے پہلے اس کو پہلے سے ذہن میں ترتیب دیں۔ دن کے کاموں کی چیک لسٹ بنا لیں۔
نئی صلاحیتیں سیکھیں۔

نئی جگہیں جائیں اور بغیر نقشے یا جی پی ایس کے انہیں ایکسپلور کریں۔
کسی چیز کی تفصیل یاد کرنے کے لیے اس کے مخفف بنا لیں۔
ہر کام پرسکون رہ کر اور مکمل توجہ سے کریں۔

یہ تو چند ایسی عادتیں تھیں جو آپ کو یاد داشت بہتر رکھنے میں مدد کریں گی۔ ساتھ ہی اس بات کا دھیان رکھیں کہ کسی حادثے یا ضعیف ہونے کے باعث ہونے والی یاداشت کی کمزوری کو غیر اہم جان کے نظر انداز نا کریں۔ اور ماہرین سے رجوع کریں۔ بڑھاپے میں یاداشت کی کمزوری کے شکار افراد کی ذمہ داری ان کے گھر کے بقیہ افراد پہ ہوتی ہے۔ ان کے بار بار ایک ہی بات دہرانے، کھانا کھا کے بھول جانے یا کھانا سرے سے کھانا ہی بھول جانے پہ جھنجھلانے کی بجائے انہیں قریبی ماہر نفسیات کے پاس لے کے جائیے۔ تاکہ ان کا بروقت علاج ہوسکے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima