شیخ کہتا ہے، وہ ہے ہی کنجری


بہت سے دوست سوال کرتے ہیں ”ہم سب“ کے صفحات پر فحش تصویریں کیوں لگائی جاتی ہیں۔ اس پر میرا موقف ہے کہ تصویر دیکھ ہی کر بات کی جاسکتی ہے کہ کون سی تصویر فحش ہے کون سی نہیں۔ اس سے پہلے فحاشی کی تعریف کی جانی چاہیے، اور پھر یہ بھی جواب ہوتا ہے کہ ”ہم سب“ نے کبھی دعوا نہیں کیا، کہ وہ اسلامی، ہندُستانی، افغانی، یا عرب ثقافت کا امین ہے، تو پھر یہ کہیے اعتراض ”ہم سب“ ہی پر کیوں، جب کہ پاکستانی پرنٹ میڈیا سے لے کرکے الیکٹرونک میڈیا تک، جو جو کچھ دکھائی دے رہا ہے، وہ اس سے کہیں بھیانک ہے؟ اس میں وہ اشاعتی ادارے بھی پیش پیش ہیں، جو اپنے آپ کو نظریہ پاکستان یا اسلام کا امین کہتے ہیں۔

اس تہمید سے یہ مت جانیے کہ میں ”ہم سب“ پر پورن اسٹارز کی ”غلیظ“ تصاویر شایع کرنے کے حق میں ہوں۔ ہاں یہ ہے، کہ کوئی ایسی تصویر جس میں عورت یا مرد بے لباس ہو، اور فنی تقاضوں پر پورا اترتی ہو، اسے شایع کرنے میں حرج نہیں۔ ذہن نشین رہے، کہ ”فنی تقاضوں“ کی پرکھ کے لیے کسی مذہب کے عالم سے نہیں‌ پوچھا جائے گا۔ مذہبی عالم سے پوچھنا ہو تو وہ اتنا بتاسکتا ہے، کہ ایسی تصاویر بنانے والا جہنم کے کس درجے میں ہوگا۔

غالبا میں آٹھویں یا نویں جماعت میں تھا، کہ کنٹونمنٹ پبلک لائبریری راول پنڈی کا رُکن بنا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں یوں ہوتا کہ میں صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی لائبریری کے دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوتا، اور سہ پہر تین چار بجے تک بھوکا پیاسا بیٹھا، کتابیں چھانتا رہتا۔ انھی دنوں منٹو، کرشن چندر، امرتا پریتم، عصمت چَغتائی، منشی پریم چند، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی، قراتہ العین اور اس طرح کے دیگر لکھنے والوں کے ناموں سے واقف ہوتا چلا گیا۔

ہر خاندان میں کچھ آنٹیاں، کچھ انکلز ایسے ہوتے ہیں، جنھیں خاندان بھر کے سب بچوں کی فکر کھائے جاتی ہے، کہ کہیں بچہ غیرنصابی سرگرمیوں میں اپنا بیش قیمت وقت ضایع نہ کردے۔ خاندان کے نام پر بٹا نہ لگا بیٹھے۔ ایسے ہی ایک انکل نے اعتراض اٹھایا کہ میں فحش ادب پڑھ رہا ہوں۔ ان انکل کا احوال یہ ہے کہ انھوں نے ادب تو کیا کبھی تیسرے درجے کا ڈائجسٹ بھی نہ پڑھا تھا، نہ پڑھا ہے۔ نصابی کتب کے علاوہ انھوں نے کچھ پڑھا ہے تو وہ ہے اخبار۔ میں ان کے سامنے کتاب کرتا، اور کہتا، یہ پڑھ کے دیکھیے، پھر بتائیے کہ اس میں کیا فحش ہے۔ میرے کہنے پر بھی انھوں نے کبھی کتاب نہ کھولی، لیکن مصر رہے کہ یہ فحش ہے۔

آج سوشل میڈیا پر جب کوئی کہتا ہے کہ منٹو فحش ہے، عصمت فاحشہ ہے، تو میرا سوال ہوتا ہے، کہ حوالہ پیش کیجیے، کون سا افسانہ، کون سی سطر، کون سا خیال فحش لگا؟ جواب میں ادھر اُدھر کی ہزار باتیں ہوتی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے، کہ معترض نے سنی سنائی بات آگے بڑھائی ہے، اس کا مطالعے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اردو ادب کے مبینہ فحش مصنفین کی کہانیوں سے زیادہ فحش، ان معترضین کے ان ادیبوں پر کیے جانے والے تبصرے ہوتے ہیں۔ ان کے تبصروں کو ”مغلظات“ کہیں تو بجا ہوگا۔

”نور جہاں، سرورِ جہاں“ منٹو کی وہ تحریر ہے، جسے میں نے اسی زمانے میں پڑھا، جب میرے فحش ادب پڑھنے پر اعتراض اٹھایا جانے لگا تھا۔ شاید لڑکپن میں فحاشی کی پہچان نہیں ہوتی، اس لیے مجھے ”نور جہاں، سرورِ جہاں“ میں کہیں فحاشی نہ دکھائی دی۔

فن سے محبت کرنے والے کسی شخص سے پوچھیے، وہ کہے گا، ملکہ ترنم نور جہاں کا مقابل دور دور تلک کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ صرف فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو لتا منگیشکر بھی باکمال ہیں، لیکن نورجہاں کی بات ہی الگ ہے۔ ہندُستان کی تقسیم کے بعد نورجہاں بھارت میں رہ جاتیں، تو ان کا مقام کچھ اور ہی ہوتا۔ ہم کہتے یہ پاکستان کے شہر قصور سے ہیں۔

ہم میں سے بہت سوں کو یہ درد ہے کہ ایک مغینہ اتنی مشہور کیوں کر ہوگئی، کہ اسے ”ملکہ ترنم“ کہا جانے لگا۔ اس کی موت پر، اس کی برسی کے موقع پر اخبارات میں فیچر شایع ہونے لگے۔ دراصل درد یہ ہے کہ ”اسلامی معاشرے“ میں ایک مغینہ، ایک خطیب سے زیادہ معزز کیوں ہے۔ مغالطے کی ابتدا ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ، اسلامی معاشرہ ہے۔ یہاں یہ بحث نہیں کہ پاکستانی معاشرہ، اسلامی معاشرہ ہے یا نہیں۔ ان سطور کا سبب صحافتی معیار سے گرا وہ مضمون ہے، جو ”نور جہاں، فتور جہاں“ کے عنوان سے ”ہم سب“ کے صفحے پر شایع ہوا۔ لکھنے والے تو لکھتے رہتے ہیں، کہنے والے کہتے ہیں، بَکنے والے بَکتے رہتے ہیں۔ کیا یہی اظہار رائے کی آزادی ہے، کہ مرنے والی کے لیے ”مغلظات“ لکھی گئی ہوں، اور اسے من و عن شایع کردیا جائے؟

جن معاشروں کو ہم ”ننگا“ معاشرہ کہتے ہیں، وہاں کسی کے لیے اس طرح کا ہذیان بَکا جائے، ”وہ خود بھی (نور جہاں) تمام عمر جنسی آوارگی، عشق و مستی اور فسق و فجور میں مبتلا رہی اور اس کے گانے سن کر کروڑوں اَفراد فکری ضلالتوں میں مبتلا ہوئے“، تو لکھنے والا، اور شایع کرنے والا، مرحوم کے وارثوں کی جانب سے کیے جانے والے ہتک عزت کے دعوے میں اپنا بہت کچھ گنوا بیٹھتا ہے۔

کیا مدیر ”ہم سب“ اور ”نور جہاں فتور جہاں“ کا مصنف، یا ان دونوں‌ میں سے ایک بھی مرحومہ کی جنسی آوارگی کا عینی شاہد ہے؟ سنی سنائی بات کو آگے بڑھانے والے کے لیے کیا کہا گیا ہے، یہ معلوم ہے؟ مدیر ”ہم سب“ بہتان کی اسلامی تعبیر کو مانیں یا نہ مانیں، لکھنے والا جو کہ اسلامی تعلیمات کے تناظر میں مرحومہ پر بہتان باندھ رہا تھا، وہ بھی شکر ادا کرے، ایسی اسلامی حکومت کہیں نہیں، جہاں بہتان باندھنے والوں کو کوڑے لگائے جاتے ہوں۔

لوگ جسے فحش تصویر کہتے ہیں، وہ شایع کیجیے؛ یہ بری بات بھی ہو، تو اتنی بری بات نہیں جتنا کسی کے کردار پر انگلی اٹھانا، پھر اس شخص پہ جو انتقال کرچکا، اور اپنے پر لگائے الزامات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ ایسے غلیظ مضامین، جنھیں ”مضامین“ کہتے ہوئے بھی شرم آئے، ان سے ہمیں معاف ہی رکھیے تو بہ تر ہے۔ میری نظر میں غیبت کرنا، بہتان باندھنا، کردار کشی کرنا، فحاشی سے کہیں بدتر ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran