درخت میں لٹکتی ہوئی محبت کی لاشیں اور بد نصیب تھر


اس مضمون کے نیچے دی گئی تصویر سندھ میں تھر کے علاقے اسلام کوٹ کے ایک درخت میں لٹکتی ہوئی دو لاشوں کی ہے۔ بیس برس کی مینی بائی اور بائیس سال کے بھاگوں کولھی نے اپنے آپ کو ایک ساتھ درخت میں لٹکا کر خودکشی کر لی۔

اسلام کوٹ تھرپارکر کا ایک چھوٹا شہر ہے جس میں ہندو اور مسلمان آبادی تقریبا برابر ہے۔ اس شہر کو سندھی میں۔ لِم جو شہر۔ یعٰنی نیم کا شہر کہتے ہیں۔ نیم کے درختوں کی بہتات کی وجہ سے اسلام کوٹ کو نیم کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

مینی اور بھاگوں کی خودکشی پیار کی ناکامی پر عام خودکشی نہیں ہے۔ ان دونوں کا عشق پرانا تھا، وہ کئی سالوں سے ایک دوسرے کو چاہتے تھے، یہ چاہت پہلے پیار اور پھر عشق میں تبدیل ہو گئی مگر پھر وہی ہوا تھا جو عام طور پر ایسے معاملے میں ہوتا ہے، مینی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کردی گئی اور وہ دوسرے شہر جھڈو رخصت ہو گئی۔

کسی نے صحیح کہا ہے عشق نہ پرانا ہوتا ہے نہ دوری ہونے سے گھٹتا ہے۔ مینی اور بھاگوں کا آپس میں رابطہ تین سال بعد اس وقت ہوا جب مینی اپنے میکے آئی۔ موبائیل فون پر رابطہ ہوا، ساتھ جی نہ سکے، ساتھ مر تو سکتے ہیں کا وچن ہوا، ملاقات ہوئی اور پھر گاؤں والوں نے صبح کو ایک دوسرے کے گلے لگی ان کی لاشیں، نیم کی درخت میں لٹکتی ہوئی پائیں۔
میں سمجھ نہیں پا رہا، پیار جیتا یا ہارا؟ عشق کامیاب ہوا یا ناکام؟

ہمارے سماج میں اس طرح کے تعلق کو ٹیبو قرار دیا جا چکا ہے اور اسی کا نتیجہ غریب، مسکین مینی اور بھاگوں کی نیم کی درخت میں لٹکتی ہوئی یہ ایک دوسرے کے گلے لگی لاشیں ہیں۔ پیار سے جینے والوں کے لئے سماج میں کوئی جگہ نہیں۔ بس گھُٹن ہے۔

ایسے واقعات بڑے شہروں میں کم، چھوٹےشہروں اور گاؤں میں کچھ زیادہ مگر تھر جیسے پسماندہ علائقوں میں کافی زیادہ ہوتے ہیں جہاں زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ بڑی خواہشیں، لالچ اورحرص نہ ہونے کی وجہ سے تعلق سچا، پاک اور نبھانے والا ہوتا ہے۔

سندھ کے تھر میں سال 2017 میں غربت اور دیگر سماجی مسئلوں کی وجہ سے 74 لوگوں نے خودکشی کی۔ 704 افراد غذائی قلت، صحت کی سھولتیں نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ جن میں ضلع تھرپارکر کے صحت کھاتے کی سرکاری رپورٹ کے مطابق 450 معصوم بچے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میڈیا پر کروڑوں روپے کے اشتھار چلا کر سندھ میں صحت کے شعبے میں سھولتیں مہیا کرنے کا دعویٰ کرکے سچائی چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ صرف سول اسپتال مٹھی میں سال 2017 میں 375 معصوم بچے فوت ہوئے۔ میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ کراچی سے باہر باقی پورے سندھ میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں جہاں اگر آپ اپنے کسی پیارے کو علاج کے لئے لے جائیں اور وہ وہاں جانبر نہ ہو سکے تو بھی دل کو اطمینان اور سکون ہو کہ ہم نے اُس کو ایک اچھے اسپتال میں تو پہنچایا جہاں علاج بھی ہوا اور کوشش بھی ہوئی مگر زندگی ہی شاید اتنی تھی۔ ایک بھی ایسا سرکاری یا پرائیویٹ سیکٹر کا اسپتال پورے سندھ میں نہیں سوائے کراچی کے۔

تھر میں کھربوں روپے کے پراجیکٹ چل رہے ہیں، کالا سونا یعنیٰ کوئلہ اور دوسری معدنیات پر ملٹی نیشنل کمپنیاں روزانہ اربوں روپے کما رہی ہیں مگر سال 2017 میں، تھر میں مرنے والوں اور خودکشی کرنے والوں کی تعداد سال 2016 سے زیادہ تھی۔

تھر کی سب سے قیمتی چیز پانی ہے مگر سندھ حکومت نے غریب اور مسکین لوگوں کے پینے کے پانی کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس میں بھی کرپشن کی گئی۔ 800 ارب روپے خرچ کرکے یا کاغذوں میں خرچ دکھا کر کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے 700 آر او پلانٹ کا میگا پراجیکٹ بنایا گیا۔ 400 پلانٹس 2016 میں لگائے گئے اور باقی تین سو پلانٹ 2017 میں لگنے تھے جن میں سے ایک بھی نہیں لگا۔ مگر ٹھیکیدار کمپنی کو پانچ ارب روپے ایڈوانس میں دے دیے گئے۔ لگائے گئے چار سو آر او پلانٹس میں سے ناقص کارکردگی اور دو نمبر مشینری کی وجہ سے دو سو کے قریب پلانٹس صرف ایک سال میں بند ہو چکے ہیں۔

تھر کی قیمتی زمین کی لوٹ مار جاری ہے۔ روزانہ نہ جانے کتنے مینی اوربھاگوں کی لاشیں نیم کے درختوں میں لٹکتی ہیں جن کا پتہ بھی نہیں چلتا مگران غریب تریں لوگوں کی فریاد کوئی نہیں سن رہا۔

وارننگ

نیچے درخت سے لٹک کر خودکشی

کرنے والے جوڑے کی 
تصویر ہے۔
تصویر فاصلے سے لی گئی ہے۔
۔
۔
۔
۔
۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).