نئے سال کے خواب، بچے اور عورتیں


زمین سورج کے گرد ایک چکراور مکمل کر گئی۔
2017 تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ گزر ہی گیا۔

استقبال سالِ نو پر میڈیا عالمی فضاؤں میں جھلملاتی لہراتی روشنیاں، نغمے، مسکراہٹیں اور بقعہ نور فضائیں اس قوم کو دکھاتا ہے کہ جس کے نقشے میں، افراد میں اور اداروں میں بجھتے قمقمے بے یقین اندھیاروں کو مسلسل سرد اور زرد کرتے جاتے ہیں۔ امید، آرزو اور جستجو کے وہ دیے جو اس کم بخت صدی کی آمد سے قبل، خال خال ہی سہی، آنکھوں اور ہونٹوں پر مچلتے دکھائی دیتے تھے۔

کُھل کے کہوں تو آج کے غم اور درد کی اس انجمن کہ جو میرا دیس ہے، میں، جینے کا جواز، مجھ مسافر کو، بچوں اور عورتوں میں دکھائی دیتا ہے یا پھر کچے پکے خوابوں میں۔ یعنی اگر یہ کہوں کہ تاحال محرم کی گھڑی سہی، درج بالا تین پہلو اپنے مستقبل کی عید اور جینے کی امید ہیں تو اپنی اس سرشتی رومانویت کے نسوانیت پسندی تک غلو کر جانے پر تھو تھو نہ کیجئے گا۔

ویسے، اصولاً، اگر میں دانشور لیکھک بن کر خواب، بچے اور عورت کی یہ سہ رخی تھیوری پیش کررہا ہوں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دلیل منطق سے کم از کم وضاحت تو کی جائے لیکن میں سال نو پر نیک شگون تک، اس من چاہی تکون تک مختص رہنا چاہتا ہوں۔
معذرت کے ساتھ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ مرد ہوں یا ان کے بنائے نظریات، ماحولیات ہو یا پھر مالکان کائنات، رشتے ہوں یا خود اپنی ذات۔ اکثر اکثریت نے مایوس ہی کیا ہے!
ہاں مگر بچے، عورتیں اور خواب۔

کروڑوں معصوم بچے کہ اپنی درس گاہوں پر وحشت و دہشت کی لہورنگ میڈیائی کوریج کے باوجود روزانہ اعتماد، تجسس اور تشنگی کے ساتھ مسکراتے ہوئے پڑھنے سیکھنے جاتے ہیں۔ کسی معصوم نےحملوں سے خوفزدہ ہوکر پڑھنے سے انکار نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ استاد کے کمرہ جماعت میں داخل ہونے پر تا ابروئے جنبش، ہوشیار باش کھڑی رہنے والی گم صم نسل کہن کے اب لاکھوں نہیں، کروڑوں بچے (درس گاہوں میں نہ بھی سہی ) سوشل میڈیا پر ہی کھوجتے ہیں، سوچتے ہیں، ٹوکتے ہیں اور ایسے پہلووؤں پر بولتے ہیں کہ تقدیس کے سنگھاسن پر براجمان مقدس دیوتا تک ڈولتے ہیں۔

کیا نسل نو کے مسلسل شعوری ارتقا کے ساتھ نئے سال میں داخلہ پرجشن نہیں منانا چاہیے؟
ہاں۔ سال گزشتہ میں، تذویرانہ پالیسیوں کے سبب سکول جا سکنے والے بچوں کی تعداد میں ہونے والی مسلسل کمی پر ضرور بات کیجئے۔ بڑوں کی بات کیجئے۔ بڑوں سے بات کیجئے، سال نو پر تو اس نسل نو کی جرات بھری استقامت پر اظہار مسرت بنتا ہے۔
آئیے، اب اس صنف کی باتیں کریں جو ”نصف بہتر“ ہیں۔ بارہ کروڑ ہیں مگر جرم، ظلم میں تناسب پانچ فیصد بھی نہیں۔

عورت!
عرض کروں، جس اخبار میں آج صبح روغنی نان لایا، اس پہ کٹی پھٹی یہ دو کالمی سرخی تھی۔
پچھلے تین برسوں میں غیرت کے نام پر 2978 خواتین قتل، پتہ نہیں کتنی زخمی، یہ وہ۔
نان لہو لہان اور ناشتہ پریشان ہی ہو گیا۔

واقعی۔ کابل سے اسلام آباد تک لہو لہانی ہے۔ پشیمانی ہے لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب۔
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم!

دو دن پہلے ہی، دس سال تک اس ملک کے جبراً کرتا دھرتا جنرل پرویز نے بہ صنف چنگیز ایک نوجوان سیاستدان کے الزامات کو ”عورتوں جیسی دہائی“ کہا۔ اب اس سے زیادہ کیا کہا جائے کہ بدقسمتی سے اگر اداروں کے خمیر میں اور فاتحانہ تشہیر میں ہی ” مردانگی “ کوٹ کوٹ کے بھر دی جائے تو وہاں سابق ”کو ر“ دماغوں کا مرد کو عورتوں جیسا ہونے کی گالی دینا مرد کی تضحیک نہیں، عورت کی تذلیل ہے۔
چلیے اس خرابی میں تعمیر کا یہ پہلو تو نکلا کہ ایسی سوچ اور اس پر جھرجھری تنقید نے اچھے خاصے نیک مردوں کو بھی فیمینزم کو سنجیدگی سے سمجھنے کی دعوت دی ہے۔

آئیے، اب، سال نو پہ مسرت کے تیسرے جواز پہ مکالمہ کریں۔ یعنی خوابوں کا تبادلہ کریں۔
ذاتی خواب تو خیر نیندیں اڑانے کو ہوتے ہیں۔ ہاں کچھ خواب اس خطے بارے بھی تھے اور الحمدللہ ہیں۔
پاک و ہند کلچر ہو یا بنگال و نیپال کا تہذیبی حسن۔ افغانستان سے ہندوستان تک سارا جنوبی ایشیا خوابوں میں دمکتا چمکتا دکھائی دیتا ہے۔

اگرچہ سچ یہی ہے کہ سرمایہ جب اشتراک کی روح ٹھہرے تو یورپی یونین تک خطرے میں پڑ جاتی ہے، سامراجیوں کے غربت زدگان کے موزے اور پڑوسن ماؤزے سے بچنے کو بنائی گئی سارک نے کیا چلنا ہے تاہم اس جغرافیائی جڑت اور مشترک پسماندہ حالت میں بچے بچیوں کا مزاحمتی و سیاسی شعور بڑا ہی حوصلہ افزا ہے۔

نیپال میں سوشلسٹوں کی جیت، ایران اور افغانستان میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مزاحمتیں، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں چھوٹی صنعتوں میں استحصال پر مظاہرے اور خود پاکستان میں نئی نسل کے کچے پکے انقلا بی خواب روشن صبح کی دھوپ اور رنگ بھرا روپ ہی تو ہیں۔ ( منسلک تصویر میں کھٹمنڈین ناری کے دلنشیں قہقہے، بنگالی حسینہ کے دوآتشہ لال گال، افغانی عورت کے جدید لباس سے اٹھتا حجاب اور پاکستانی باذوق کا پراسرار اعتماد، دل دیکھتا ہے تو نئے برس کے سورج کی اولیں دھوپ اور استقبالی رنگ روپ کا پیام سمجھتا ہے۔ )

میں زندہ ہوں اور اجتماعی و انفرادی غلطیوں اور ان کے اثرات کو اپنی طاقت بنا کرسال نو پر خواب دیکھتا ہوں۔
اس لیے کہ خواب مرتے نہیں اور تب تو بالکل بھی نہیں مرتے جب شکوہ ظلمت شب کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع جلا لی جائے۔

ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساہوکارو ں، سرمایہ داروں اور باوقار مقدس اداروں کی تمام تر چیرہ دستیوں کے باوجود ہم نے اس برس بھی کرہ ارض پر اندھیروں کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم گزشتہ برس کا وجاہتی چاند پینٹ نہ بھی کر سکے ہوں، المیہ ہے کہ تاریکی میں رنگ ناپید ہوں اور لال رنگ شفق کے بجائے خون کا استعارہ بن جائے۔ تاہم ایسے میں بھی یہی خواب سہارا دیتا ہے کہ ہمارے ایک ہاتھ میں رنگین پنسلیں ہیں اور دوجے پرٹمٹماتے جگنو جو مٹھیوں میں بھنچ کربھی ٹمٹماتے ہیں۔

ایسے ملگجے میں نظر اٹھتی ہے تو مایوس نہیں پلٹتی کہ کہ دور پاس روشنی کے کئی اور زاویے ہیں۔ پچھلے برس انہی دنوں میں ایسا ہی کچھ سوچا لکھا تھا کہ دور پاس روشنی کے کئی اور زاویے چھلکیں نہ بھی سہی، جھلکتے ضرور ہیں۔ قابل اعتبار نہ بھی سہی، قابل دید ضرور ہیں۔ مثلاً مزاروں کے لنگر اور درباروں کے چراغ، ہمسایہ منڈیر کے دیے، درس گاہوں کی لہو رنگ قندیلیں، شہیدوں کی شمعیں اور اقتصادی راہداریوں کی خواب آلود روشنیاں۔

یہ سب حوالے اور سب اجالے ماضی بنتے جاتے سال گزشتہ کی نیم تاریک جھیلوں پر تیرتے ہیں تو وحشی چاند رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ایسے میں ہم نئے سال کا جشن کیوں نہ منائیں؟

اس امید کے ساتھ۔
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آجائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
خواہش ہے کہ نئے سال کی آتش بازی میں آتش و بارود کا کوئی خونی واقعہ نہ ہو کہ میڈیا منڈی تو شاید اس ”بریکنگ بونس “ پر بھی کمائے گی مگر نئے برس کے آغاز پر ہی یہ انسانیت ہار جائے گی۔

( تصدیق۔ تحریر میں تصویریں پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش کی فیمینسٹ خواتین کی اجازت سے شامل کی گئی ہیں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).