فلسطین کا ایشو، مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے


قارئین کرام!

اقوام متحدہ میں یروشلم بارے حالیہ قرارداد، اس مضمون کی محرک بنی ہے۔ یہ بڑا حساس مگر اہم مسئلہ ہے جس پہ سوچنا، ہماری بنیادی انسانی ذمہ داری ہے۔

اہل ِفلسطین کی تیسری نسل آگ وخون کی فضا میں پروان چڑھ رہی ہے مگر افسوس کہ ایک سادہ سے مسئلہ کو فقط اپنوں کی کم فہمی ہی کہ وجہ سے گنجلک بنا دیا گیا ہے۔ فلسطین کا قضئیہ، باشندگان فلسطین کا ایک ایسا مجموعی اور اصولی موقف تھا جس میں مسلمان اور عیسائی برابر شامل تھے۔ (فلسطین کی عالمی طور پر معروف مجاہدہ، لیلی خالد، ایک کرسچئین تھی نہ کہ مسلمان)۔ نہ جانے ہم کس کے ٹریپ کا شکار ہوئے کہ اس کومذہبی رنگ دے کراور صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ بنا کرعالمی انسانی ہمدردی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب نیا جال یہ بنا گیا کہ ملک اسرائیل کے مسئلہ کوصرف ایک شہر( ہروشلم) کا قضیہ بنایا کر محدود کیا جارہا ہے اور اصل مسئلہ کہیں دور جا دفن ہوا ہے۔

اس تمہیدی جملہ کے بعد عرض ہے کہ پچھلے دنوں، امریکہ نے اسرائیل میں موجود اپنا سفارتخانہ، وہاں کے دارالحکومت ”اتل ابیب“ کی بجائے، وہاں ایک اورشہر“ یروشلم“ میں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ کے اس اقدام کو روکنے کے لئے، اقوام متحدہ میں پاکستان نے ایک مشترک قرارداد پیش کی۔ جنرل ووٹنگ کے نتیجے میں امریکہ کے حق میں صرف 9 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 129 ووٹ پڑے۔

یہاں قارئین کی توجہ چاہوں گا۔ دیکھئے، پہلے پاکستان کا کیپیٹل، کراچی ہوا کرتا تھا جسے بعد میں ہم نے اسلام آباد میں شفٹ کردیا۔ کیا کسی کو ہمارے اس داخلی معاملے پر اعتراض کا حق حاصل ہے؟ چائینہ ہمارا دوست ملک ہے جس کا سفارتخانہ اسلام آباد میں ہے۔ فرض کریں کہ وہ اپنا سفارتخانہ، ننکانہ صاحب میں شفٹ کرنا چاہے (اور پاکستان کو بھی اس پہ کوئی اعتراض نہ ہو) تو کیا کسی دوسرے ملک کو ہمارے اس باہمی معاملے پر واویلا کرنے کا حق حاصل ہے؟

اس وقت دوچار ملکوں کو چھوڑ کر، دنیا بھر کے ممالک (ترکی ومصر سمیت)، اسرائیل اور امریکہ دونوں ریاستوں کو آزاد اور خود مختار ملک مانتے ہیں۔ اب امریکہ اور اسرائیل، باہمی رضامندی سے اپنے ملک کے اندر موجود کسی سرکاری عمارت کا مقام تبدیل کریں تو کسی کا کیا لینا دینا بنتا ہے؟ حیرت تو یہ ہے پاکستان، جو سرے سے اسرائیل کو بطور ریاست ہی تسلیم نہیں کرتا، و ہ بھی سفاتخانہ تبدیلی بارے چیں بجبیں ہے۔ ( یعنی کیا امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب میں رہے تو پھر ٹھیک ہے؟ )۔

قارئین کرام!

جس اکثریت سے امریکی موقف کو رد کیا گیا ہے، اس سے یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنے لئے کوئی لابنگ کی ہی نہیں ورنہ تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایٹم بم رکھنے والے اسلامی ملک بھی صرف ایک امریکی فون پہ ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی جرائت رندانہ کا ثبوت تو ابھی کل کی بات ہے جب خود فلسطینی اتھارٹی نے پاکستان میں اپنے سفیر کو فقط انڈیا کی ناراضگی کی بنا پر معزول کردیا ہے۔

امریکہ نے دنیا بھر کی تائیدی قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کردیا۔ بندہ سوچتا ہے کہ امریکہ نے اس قرارداد کو ایجنڈے پہ لاتے وقت ہی اعتراض کیوں نہیں اٹھایا کہ یہ دوملکوں کا باہمی انتظامی معاملہ ہے؟

خاکسار کا خیال یہ ہے کہ یہی امریکی پلان تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تو مالدار یہودیوں کی جیب ڈھیلی کرلی، دوسری طرٖف، اس قرارداد کو اپنی ”انسلٹ ” قرار دے کر، اقوام متحدہ کی فنڈنگ میں نصف کی کٹوتی کردی ہے۔ تیسرا ہدف یہ حاصل کیا کہ وہ عالم اسلام، جہاں پہلے اس بات پراحتجاجی مظاہرے ہوتے تھے کہ القدس کوآزاد کرانا ہے، وہاں آجکل اس پہ مظاہرے شروع ہیں کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قبول نہیں۔

بردارن کرام!

خاکسار کو ایک امید سی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کے قریب آپہنچا ہے اور مزید یہ کہ اس مسئلہ کے حل کا سہرا، قدرت پاکستان کے سر باندھنے والی ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ اسرائیل قائم کرنے والی صیہونی تحریک (جسے آپ یہود کی داعش تنظیم سمجھ لیں) اب خود اسرائیل کے اندر بیزاری کا نشانہ بن رہی ہے اورعام یہودی پبلک کھل کر اس پہ تنقید کررہی ہے۔ دوسرے، پاکستان، چائنہ اور روس وغیرہ کا بلاک بنتا جا رہا ہے جبکہ امریکہ اور اسرائیل تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ لہذا، پاکستانی قوم کے لئے بڑا مناسب موقع ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام کی سرپرستی کرے مگرشرط صرف یہ ہے کہ اس مسئلہ کو دوبارہ دنیا کے سامنے اصل صورت پیش کیا جائے۔

مسئلہ فلسطین کوپوری طرح سمجھنے کے لئے، میں نے اس مضمون کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس پہلے حصہ میں، یہ عرض کروں گا کہ فلسطین کا ایشو، اسلام کا ایشو نہیں ہے۔ دوسرے حصے میں یہ عرض کروں گا فلسطین کا ایشو، صرف عربوں کا ایشو ہے اور پاکستان اس میں انسانیت کے ناطے دخل اندازی کرے تو مضبوط کردار ادا کرسکتا ہے۔

قارئین کرام!

اس سازش یا ناسمجی پرضرور غور کرنا چاہیے کہ کس نے ”تحریک آزادی فلسطین“ کو“تحریک آزادی القدس“ میں تبدیل کردیا۔ اس لئے کہ اس پہ آپ کا مقدمہ نہایت کمزور ہے۔ واضح ہوکہ یروشلم، فقط یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے ہی مقدس مذہبی مقام ہے۔ مسلمانوں کا مقدس مذہبی مقام مکہ میں خانہ کعبہ ہے۔ چونکہ یہ بات بہت سے نیک دل دوستوں پہ گراں گزرے گی تو اس کی مزید وضاحت ذیل میں عرض کرتا ہوں۔

دیکھئے، یروشلم کو نبی موسی کی قیادت میں یہود نے عمالقہ سے چھینا اور یہاں آباد ہوئے۔ نبی سلیمان کا ہیکل ( یعنی صخرہ) یہاں تعمیر کیا گیا( جس کے آثار موجود ہیں) اور اس کی طرف یہودی منہ کرکے نماز و سجود کرتے ہیں۔ یہود کا عقیدہ ہے کہ اسی شہر میں ان کا مسیح اترے گا جس کے ظہور کی خاطروہ یہاں موجود ”دیوار گریہ“ سے لپٹ کردعائیں کیا کرتے ہیں(جیسا کہ ہم مسلمان، حطیم کی دیوار کے ساتھ کرتے ہیں)۔ پس پس یہ شہر، یہود کے لئے ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے لئے شہر مکہ۔

یہود کے بعد، عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اسی جگہ نبی عیسی پیدا ہوئے تھے۔ یوں تو عیسائیوں نے اپنا عالمی دینی مرکز، پاپائے روم کے شہر کو بنا رکھا ہے مگر ان کا بھی اصلی مقدس مقام، یروشلم ہے۔ ان کے عقیدہ میں یروشلم ہی حضرت عیسی کی جائے پیدائش ہے(بیت اللحم) اور اسی جگہ وہ نجات دہندہ بن کر اتریں گے(کنیسۃ القیامہ)۔ گویا عیسائی دنیا کا بھی قبلہ وکعبہ یروشلم شہر ہی ہے۔

یروشلم شہر، مسلمانوں کے لئے مقدس تو نہیں البتہ محترم ضرور ہے اور وہ بھی اصلاً نہیں بلکہ ضمناً۔ مسلمان، توحیدی لوگ ہیں اورقانونی طور پرانکا مقدس ترین مقام بھی صرف ایک ہے یعنی مکہ میں خانہ کعبہ۔ ( مدینہ اس لئے مقدس ہے کہ وہاں حبیب خدا موجود ہیں لیکن یہ تقدس عشق کی بنا پر ہے اورعشق کے دلائل اورطرح کے ہوتے ہیں۔ امام مالک تو حرمِ مدینہ کی نماز کو حرمِ مکہ کی نماز سے بھی افضل قرار دیتے ہیں)۔

فلسطین کے مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے والے، تین باتیں کہا کرتے ہیں۔ اسرائیل نے ہمارے بیت المقدس پہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ مسجد اقصی ہمیں پکار رہی ہے۔ یروشلم، ہمارا قبلہ اول ہے۔ آیئے ان تینوں باتوں کو ٹٹولتے ہیں۔

روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے مکہ میں بیت اللہ تعمیر کرنے سے 40 سال پہلے، بیت المقدس بنایا تھا۔ ضرور بنایا ہوگا مگر کہاں پر بنایا تھا بھائی؟ صرف 40 سال بعد جو دوسری عمارت بنائی (مسجدالحرام)، وہ تو ہمیشہ سے مکہ میں موجود ومعلوم رہی مگراس پہلی عمارت( بیت المقدس) کے تو آثار ہی کہیں ملتے۔ (حالانکہ ابراہیم علیہ السلام کا آبائی شہر، ہیبرون، آج بھی یروشلم سے 40 کلومیٹر کی مسافت پہ موجود ہے)۔ شاید یہی مشیت الہی تھی کہ قرآن نازل ہونے کے بعد، اصل بائبل معدوم ہوگئی، اسی طرح مکہ کے قبلہ بننے سمے، بیت المقدس بھی معدوم ہوگیا۔

اب آیئے، یروشلم میں موجود مسجد اقصی کی طرف۔ واضح ہوکہ مسجد اقصی نہ تو ابراہیم علیہ السلام نے بنائی اور نہ ہی وہاں کوئی مسجد رسول اکرم کے زمانہ میں موجود تھی۔ (جب اسلام اور مسلمان شروع ہی مکہ سے ہورہے تھے تو یروشلم میں بھلا ایک مسجد کیونکر موجود ہوسکتی تھی؟ )۔ موجودہ مسجد اقصی کی پہلی بنیاد حضرت عمر کے دور میں رکھی گئی تھی۔

قرآن میں چونکہ مسجد اقصی کا نام مینشن ہے تو اس بارے بھی عرض کردوں۔ جب ہمارے نبی کی بعثت ہوئی تھی تو اس زمانے میں موجودہ یروشلم میں صرف عیسائیوں کا ایک کنیسا ہی موجود تھا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ معراج کے سفر پہ جاتے ہوئے، اسی کنیسا میں ہی میں ہمارے نبی نے سب نبیوں کی امامت فرمائی تھی۔ پس اسی کنیسا کی عمارت کو ہی خدا نے قرآن میں مسجد کا لقب دیا ہے۔ ( یوں تو ساری زمین ہی مسجد ہے یعنی سجدہ کی جگہ)۔

البتہ ہمارے وہ سلف صالحین جو جناب نبی کریم کے جسمانی اسراء کے قائل نہیں اور اس کو روحانی تجربہ کہتے ہیں، وہ مسجد اقصی سےلغوی معنی مراد لیتے ہے(اقصی کا معنی دوردراز جس کی جگہ معلوم نہ ہو)۔ اس لحاظ سے تو یروشلم اورمسجد اقصی کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔ برسبیل تذکرہ، تین خاص مساجد کے لئے جو ”شدرحال“ والی حدیث ہے، اس پہ بھی باردگرتحقیق کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ جب تک مسجدالحرام، باطل مذہب سے پاک نہیں ہوگئی تب تک تو اس کے لئے بھی نبی کریم نے عمومی سفر کی نصیحت نہیں فرمائی تو یروشلم میں موجود، عیسائی کنیسا کے لئے بھلا کیونکر دعوتِ عام دیتے؟ (جبکہ نہ تو وہاں کوئی مسجد موجود تھی اور نہ ہی مستقبل میں اس کے آثار تھے)۔

تاہم، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یروشلم، کچھ عرصہ کے لئے مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے۔ مدینہ ہجرت کے بعد، صحابہ کرام بھی، یہود کی مانند، یروشلم ہی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اپنا قبلہ مکہ میں دے دیا تو یروشلم والا پرانا قبلہ یہود کے لئے رہ گیا۔ اہل علم جانتے ہیں کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی بھی نازل ہوئی تھیں جو بعد میں خود خدا نے منسوخ فرما دی تھیں۔ ایسی کوئی منسوخ شدہ آیت اگر مسلمانوں کے سامنے اب پیش کی جائے تو اس سے اب کیا علاقہ بنتا ہے بھائی؟ یروشلم پہلے ہمارا قبلہ تھا، پھر منسوخ ہوگیا اوراسکی بجائے نیا قبلہ مل گیا تو اب منسوخ شدہ قبلہ کے ساتھ ہمارا کیا علاقہ بنتا ہے؟

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا قبلہ اول، یروشلم رہا ہے مگراصلا“ یہ مقام یہود کے لئے ہی مقدس رہا ہے۔ مسلمانوں کے لئے تبعا“ قابل احترام ضرور ہے مگربہرحال، اب مسلمانوں کے لئے یروشلم ایک عام شہر ہی ہے۔ یہ ہمارے لئے مکہ کی طرح نہیں ہے کہ کوئی کافر ملک اس میں اپنا سفارتخانہ نہیں کھول سکتا۔

اوپرساری بحث اس نکتہ کی طرف لانے کے لئے کی ہے کہ فلسطین کا سادہ سا سیاسی مسئلہ ہے جس کو یار لوگوں نے مذہبی چیستان بنا دیا ہے۔ خدارا عوام کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ نہ کیا جائے۔ اگر کوئی ایشو، سیاسی ہے تواسکو سیاسی ہی رہنے دیا جائے۔ اس لئے کہ پھر اس کا حل بھی انسانوں کے ہاتھ ہوگا اورپھر اس کے حل کے لئے چاہے آپ فریق ثانی سے مذاکرات کریں، جنگ کریں، سودا کریں یا پیچھے ہٹ جائیں، آپ کی ہرسٹرٹجی کو دلیل کی بنیاد پہ قبول کیا جاسکتا ہے۔ مگر جب آپ کسی ایشو کو مذہبی رنگ دے کر عوام الناس کے جذبات ابھارتے ہیں تو اب اس ایشو کا حل، انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر خدا کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ( سمجھئے کہ وہ مسئلہ انسانوں کے لئے تقریباً لاینحل ہوجاتا ہے )۔ اورپھرمخلوقِ خدا، ایک ”نان ایشو“ کو ایمانی مسئلہ سمجھ کر قربان ہوتی رہتی ہے۔

پاکستان کے ارباب حل عقد سے گذارش یہ ہے کہ فلسطین، اصلا“ صرف عرب قوم کا ہی مسئلہ ہے اور اگر پاکستان، عرب قومیت کی حمایت پہ ان کا ساتھ دیگا تو اپنا اور ان کا کیس خراب کرے گا۔ عرب بے شک اس مسئلہ کو اپنا علاقائی یا قومی مسئلہ بنا کر عالمی فورم پہ پیش کریں مگر پاکستان کو اس کا انسانی پہلو اجاگر کرنا چاہیے اور اسی بنیاد پر ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کا موقف وزنی اور مبنی بر دلیل ہوگا بلکہ عام انسانی ضمیر کو بھی اپیل کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).