ہم کبوتروں کو عزت کیوں نہیں دیتے؟


اچھے زمانوں میں کیا مغل بادشاہ، کیا نواب، کیا شاعر‘ کیا عام آدمی سب کے سب پرلے درجے کے شوقین ہوا کرتے تھے۔ کبوتر پالنا ایک عام سا مشغلہ تھا لیکن اس میں اس قدر نئی نئی چیزیں پیدا کی گئیں کہ یہ باقاعدہ ایک آرٹ بن گیا۔ ایک صاحب ایسے تھے جو بہت چھوٹے کبوتروں کے دو ایک جیسے بچے لیتے تھے۔ ان میں سے ایک کا دایاں اور دوسرے کا بایاں پر کاٹ دیتے، پھر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ سی دیا کرتے۔ اب وہ بے چارے دونوں پر بندھے کبوتر اسی طرح دانہ کھاتے، پانی پیتے، زبردستی کے جڑواں ہو کے گھومتے رہتے۔ جب بڑے ہوتے تو ان کا اڑنا بھی اسی طرح ہوتا۔ یعنی وہ دونوں کبوتر اپنے ایک ایک پر کے زور سے مل کے اڑا کرتے۔ بادشاہ سلامت ظاہری بات ہے خوش ہوتے ہوں گے، انعام شنام دیتے ہوں گے ورنہ کوئی معقول انسان ہوتا تو اس شعبدے باز کو بندی خانے کی ہوا کھلواتا کہ بھائی، تجھے کوئی اور کام نہیں ملا جو دو بے زبان پرندوں کو ایویں اذیت میں رکھا ہوا ہے۔ زندگی بھر کی تکلیف اور خواہ مخواہ کا فن۔

خیر تو یہ وحشتناک باریکیاں بھی فن کا حصہ تھیں۔  بہادر شاہ ظفر کے دور میں ایک اور ماہر کبوتر باز ایسے تھے‘ جنہوں نے اپنے کبوتروں کو عجیب طریقے پر سدھایا ہوا تھا۔ بادشاہ سلامت جب سیر کو نکلتے تو چھتری کی طرح دو سو کبوتر ان کے سر پہ مستقل پرواز کرتے رہتے تھے۔ یہ اتنا نزدیک نزدیک ہو کے اڑتے تھے کہ بادشاہ پر ایک بادل سا تان دیتے تھے۔ اور پھر ان میں یہ سینس بھی تھی کہ بادشاہ کے اوپر گند نہیں کرنا تو وہ حسب ضرورت ادھر اُدھر ہو کے ایڈجسٹمنٹ کرتے رہتے تھے۔ دلی کے ہی ایک اور مشہور کبوتر باز مرزا فخرو تھے۔ انہوں نے کبوتروں کا موبائل ٹھیلا بنایا ہوا تھا۔ جہاں دل کرتا ریڑھی روک کے کھڑے ہو جاتے اور کبوتر اڑانا شروع کر دیتے۔ ان کی مہارت تو یہاں تک تھی کہ ہوا میں پانی کے چھینٹے اس طرح اڑایا کرتے جیسے وہ اناج کے دانے ہوں، کبوتر پانی کو دیکھتے ہوئے دانے کے دھوکے میں نیچے اتر آتے۔

تاریخ میں قدیم ترین کبوتروں کا ثبوت تو ماہر کبوتریات نکالیں گے لیکن عام نظر سے بھی دیکھا جائے تو ان کا کُھرا بہت دور تک جاتا ہے۔ یونانیوں کی جو دیوی پیار محبت کے معاملات میں ذمہ دار تھی (اور جو خود بھی کیا ہی حسین تھی!) وہ ایفروڈائیٹ تھی، کبوتر اسے بھی بہت پسند تھے۔ اس کے تذکروں اور تصویروں میں کبوتر ہمیشہ ساتھ ملتے ہیں۔ مصر کے اہرام ہوں یا ان کے مختلف مقامات، وہاں بھی کبوتر نظر آئیں گے۔ اپنے علاؤالدین خلجی کے پاس بڑے نایاب کبوتر ہوتے تھے‘ اور وہ سب ان کے باپ دادا کی پالی ہوئی نسلیں تھیں۔ فیروز شاہ تغلق نے باقاعدہ ایک کبوتر خانہ بنوایا ہوا تھا۔ مغلوں کے دور میں تو پھر جیسے اوپر والے واقعات بتاتے ہیں‘ یہ باقاعدہ فن کے درجے پہ پہنچ گیا۔ شاہ جہاں، جہانگیر، بہادر شاہ ظفر سبھی کبوتروں کا شوق رکھتے تھے بلکہ وہ جو دو کبوتر بے بی نور جہاں اپنے بھولپن میں اڑا گئیں وہی بے چارے شیر افگن کو مروانے کا سبب بنے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں۔

کبوتروں کی ایک معلوم تاریخ تو اس قسم کی تھی۔ ایک معاملہ اور ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ کبوتر ہمیشہ سے لو لیٹرز پہنچانے کا ذریعہ بھی سمجھے جاتے تھے۔ میر خط بھیجے پر اب رنگ اڑا جاتا ہے/ کہ کہاں بیٹھے کدھر جاوے کبوتر اپنا۔ اس شعر میں شاعر نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جیسے آپ واٹس ایپ یا موبائل فون میں کوئی ”خفیہ‘‘ میسج ابا جی یا اہلیہ کو بھیج بیٹھیں اور اس کے بعد کانپتے لرزتے رہیں، تو بس وہی کیفیت میر صاحب کی ہے۔ خط بھیج بیٹھے ہیں اب فل الرٹ ہیں، اللہ وارث ہے، دعائیں مانگ رہے ہیں کہ لینڈنگ ٹھیک جگہ پہ ہو۔ لیکن یہ کبوتر ہلکے والے ہوتے تھے۔ معصوم سے گھریلو کبوتر جنہیں کوئی خاص ٹریننگ نہیں دی ہوتی تھی، پیغام رسانی سے زیادہ انہیں دانہ کھلا پر توجہ دی جاتی‘ ان پر شاعری کی جاتی تھی۔ جو بھی تھا، وقت اچھا تھا۔

جس طرح سائنس پہیے سے ترقی کرتے کرتے ایٹم بم اور کلاشنکوف بنا گئی، ہٹلر ایک رہنما سے جنگی لیڈر بن گیا، کم و بیش تمام سوشلسٹ لیڈر‘ جو مزدوروں کے پسینے میں انقلاب سونگھتے تھے‘ خود بادشاہت پسند نکلے، امریکی آئین کی ساری خوبصورتی ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں گہنائی گئی بالکل اسی طرح کبوتروں کو بھی سادہ طبیعت اور عاشقانہ و فاسقانہ پیغام رسانی راس نہ آئی۔ انہیں فوجیوں نے پکڑ لیا۔ جنگ میں کبوتروں کا استعمال صدیوں پرانا ہے۔ جب مورس کوڈ یا تار شار نہیں تھے اس وقت کبوتروں کو ہی یہ تکلیف دہ پیغام پہنچانا پڑتے تھے کہ فلاں علاقے پہ قبضہ کر لیا جائے یا فلاں جگہ پہ دشمن کے اتنے بندے موجود ہیں انہیں فٹافٹ لاشوں میں تبدیل کر دیا جائے۔ چنگیز خاں بارہویں صدی میں کبوتری پیغام رسانی کے ایکسپرٹ تھا اور ہٹلر گزشتہ صدی میں یہ شوق رکھتا تھا۔ جنگوں میں ان دونوں کی پھیلائی دہشت میں اس فن مبارک کا بھی ہاتھ تھا۔ کبوتر اصل میں اپنا ٹھکانہ پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 1913ء میں اٹلی سے ایک کبوتر شرط لگا کے اڑایا گیا اور وہ ایک ہزار ترانوے میل کا سفر طے کے ڈرہم، اپنے گھر جا پہنچا۔ اسی طرح جرمنی کی ایک موبائل گاڑی انہیں پیغام رساں کبوتروں پر مشتمل تھی جس میں ان کے بہت سے کھڈے بنے ہوتے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی فوج کو وہ بطور مال غنیمت ملی اور آج تک سجی سنوری انگلینڈ میں موجود ہے۔ اسی جنگ میں ایک کبوتر نے فرانس کی پوری بٹالین کی جان بچائی۔ وہ بیچارے کہیں پھنسے ہوئے تھے۔ خوراک شارٹ تھی۔ انہوں نے ”شیریمی‘‘ نام کا ریسکیو کبوتر بھجوایا‘ جس نے بہت جلد امدادی ٹیموں کو منزل پہ پہنچا دیا۔ 194 لوگوں کی جان بچائی گئی اور کبوتر سرکاری اعزاز کا حقدار ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں بحری جہازوں کے اندر بھی کبوتروں کے لیے الگ خانے ہوتے تھے۔ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پہ انہیں بیچ سمندر سے اڑایا جاتا اور یہ ٹھک اپنی منزل پہ پہنچ جاتے۔ اس وقت تک تو ان کے ذریعے تصویریں کھینچنے کا بھی کام شروع ہو گیا تھا۔ بعض کبوتر رات میں اڑنے کے لیے ٹرینڈ کیے جاتے تھے، ان کی جاسوسیاں رات کو شروع ہو کے رات ہی میں ختم ہو جاتیں۔ ایک دوسرے کے جاسوس کبوتر مارنے کے لیے دوسری عالمی جنگ میں تمام لڑنے والوں نے بازوں کی ٹیمیں بھی بنائی ہوئی تھیں۔ برطانوی بازوں نے بیلجیئم، ہالینڈ اور بلقان کے علاقوں میں بہت سے کبوتر مارے، یہاں تک کہ انہیں گرفتار کرکے جنگی قیدی بھی بنایا گیا۔

اڑیسہ، ہندوستان میں دوسری عالمی جنگ کے بعد پجن پوسٹ سروس شروع ہوئی تھی اور انہیں ایسے مزے آ گئے کہ ابھی 2002ء میں جا کے یہ سروس زبردستی ختم کرنا پڑی کہ بھئی اب ای میلیں اڑتی پھرتی ہیں، کبوتروں کے نام پہ تنخواہیں لینا بند کر دو۔ بہرحال یہ ساری جنگیں جب ختم ہوئیں تو ان معصوم پرندوں کی یادگاریں وغیرہ بھی بنائی گئیں۔ کئی مرحوم کبوتروں کے نام کے ساتھ تمغے بھی جوڑے گئے۔ ہو گیا جو ہونا تھا ایک بات سوچنے کی ہے۔

گورے نے کبوتر پالنا شروع کیا تو اسے اتنی عزت دی کہ اسے برڈ آف پیس بنا دیا، جنگوں پہ لے گیا، باقاعدہ انہیں کیپٹن تک کا عہدہ دیا، جنگی خدمات کا اعتراف کیا، تمغے دئیے، ہم نے کیا کیا؟ ہمارے بادشاہ یا رئیس لوگ شوق رکھتے تھے تو ہم انہیں ”موا کبوتر باز‘‘ کہہ کے یاد کرتے تھے۔ کبوتر اڑانے والا ہمارے یہاں دنیا جہان کا فارغ انسان قرار دیا گیا۔ آج تک آپ کسی کے سامنے کہیے ذرا کہ بھئی میں کبوتر اڑاتا ہوں، اس کے بعد سامنے والے کا رسپانس دیکھیے گا۔ کبوتر بازی تو یار شاہی شوق تھا۔ ایسی ایسی پیاری نسلیں موجود ہیں، بندہ اڑائے نہ صرف پال ہی لے تو رونق لگی رہتی ہے۔ کیا شیرازی، کیا لقے، کیا پاؤٹر، کنگ کبوتر، جرمن نقاب پوش اور بیسیوں بے بہا ورائٹیاں ہیں جو بازار میں موجود ہیں۔ معلوم ہے جو بچے پتنگ نہ اڑا سکیں، کبوتر بازی نہ کر سکیں ان کا آسمان کتنا محدود رہ جاتا ہے؟ اتنا کہ جتنی یہ آپ کے سامنے والی دیوار ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain