ہمیں فلسطین پالیسی پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے



پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ، کم ازکم اہل اسلام کے لئے کوئی مذہبی ایشو نہیں ہے۔ اگر یہ مذہبی ایشو ہو بھی تو اسے یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین ہونا چاہیے کہ یروشلم ان دونوں کے نزدیک ہی اپنے اپنے طور پر مقدس ترین مقام ہے۔ یہودی چونکہ اس زمین کو ”ارض المیعاد“ سمجھتے ہیں تو انہوں نے یہاں واپس آنے کے لئے ہرزمانے میں، ہر جتن آزمایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کی مالی مدد یہودیوں نے اسی بنیاد پر کی تھی اور پہلی جنگ عظیم میں تاج برطانیہ کی مدد بھی اس شرط پر کی تھی کہ وہ ان کو یہ زمین لے دیں گے۔ سادگی اپنوں کی دیکھ، غیروں کی عیاری بھی دیکھ کہ ہم مسلمانوں نے ان دونوں یعنی یہود اور عیسائیوں کو تو یکجا کردیا ہے اورخود کو خواہ مخواہ میں فریق اول بنا لیا ہے۔

دوبارہ عرض ہے کہ پاکستان اگر فلسطین ایشو بارے کوئی منطقی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس ایشو کودرست تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ یہ ایک ایسا سیاسی مسئلہ ہے جس کی بنیاد عرب قومیت پر رکھی گئی تھی۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکی، برطانیہ سے شکست کھا گیا تو یہ علاقہ انگریز عملداری میں آگیا اور دنیا بھر سے یہودی، یہاں آ آ کر آباد ہونے لگے۔

یہ غلط پراپیگنڈہ ہے کہ فسلطینیوں نے اپنی زمینیں یہودیوں کو خود بیچیں۔ دراصل فلسطین بڑا سرسبزو شاداب علاقہ ہے اور ترک خلافت کے دور میں، تقریباً تمام عالم عرب کے متمول لوگوں نے یہاں گھر بنا رکھے تھے۔ انہی بیرونی عربوں نے حالات بگڑتے دیکھ کر اپنی جائیدادیں یہود کو بیچ دی تھیں نہ کہ اصلی باشندوں نے۔ یہاں کے مقامی فلسطینیوں میں تقریباً 70 فیصد مسلمان، 25 فیصد عیسائی اور بہت قلیل عرب یہودی بھی تھے جو پہلے چین سے رہتے تھے۔ ان سب کو ”بیرونی مسلمانوں“ کے یہاں آکر آباد ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر ”بیرونی یہودی“ ان کو قبول نہیں تھے کیونکہ وہ بیرونی یہودی ”غیرعرب“ تھے۔ ان بیرونی یہودیوں کے خلاف، مسلمان اور عیسائی عرب فسلطینی شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے تھے۔
قصہ مختصر، بالفور ڈکلیریشن کے تحت اسرائیلی ریاست قائم کردی گئی۔ جس تاجِ برطانیہ نے یہودیوں کوالگ ریاست عطا کی، اسی برطانیہ نے ہندوستان میں مسلمانوں کو الگ ریاست عطا کی۔ اب بتایئے کہ پاکستان کا اسرائیل کے قیام پہ منطقی اعتراض کیا بنتا ہے؟

آگے چلیں۔ یروشلم چونکہ مقدس شہر گنا جاتا تھا تو برطانیہ نے اس کا آدھا حصہ اسرائیل کو دیا تھا جبکہ اس کا وہ آدھا حصہ جس میں مقدس مقامات تھے، وہ اردن کو ہی دیا تھا۔ یہ اردن ملک بھی برطانیہ نے ہی بنایا تھا اور ہاشمی خاندان کو یہاں کا بادشاہ بنایا تھا کیونکہ اسی خاندان نے خلیفہ کے خلاف بغاوت کرکے، ترکوں کو عالم عرب میں شکست دلوائی تھی۔ خیر، 1967ء میں، اسرائیل کے ساتھ لگتے چار عرب ممالک (اردن، مصر، لبنان اور شام) نے ایک ساتھ، ایسی زبردست ”پلاننگ“ کے ساتھ جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجے میں سارا یروشلم ہی اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔ کچھ اشارے دےدیتا ہوں، تصویر آپ بنا لیجیے گا۔

یروشلم کا گورنر، شاہ اردن کا رشتہ دار تھا۔ اس کو حملہ سے چند دن پہلے عمان سے ایک خفیہ پیغام ملا کہ خاندان سمیت خاموشی سے واپس نکل آؤ۔ ملک شام اور اسرائیل کے درمیان، جولان کی ناقابل عبور بلند پہاڑیاں ہیں جو اسوقت شام کے زیرقبضہ تھیں۔ ریڈیو پر صدر حافظ الاسد نے اعلان کیا کہ جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل جولان پہ قابض ہوگیا۔ اس اعلان کے بعد ہی اسرائیل کو معلوم ہوا کہ انہوں نے جولان فتح کرلیا ہے۔ ( سب کہو سبحان اللہ )۔ سب سے طاقتورفوجی ملک مصر تھا۔ حملہ کرنے کی رات بھی، اس کی چھاونیوں میں حسب معمول ناؤنوش چلتا رہا اور صبح چھ بجے جب مصری فوجی بے سدھ سورہے تھے، اسرائیلی فضائیہ ان کے رن وے تباہ کرکے جاچکی تھی۔ مصرکی پیدل فوج میں سے بہت کم لوگ زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان فوجیوں میں سے ایک کا بھائی مجھے بتارہا تھا کہ ان کو وہ بندوقیں دی گئی تھیں جن کی گولی، دوگز دور تک بمشکل جاتی تھی۔
کہاں تک سنو گے؟ کہاں تک سنائیں؟

بہرحال، کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والے سورماؤں میں جمال عبدالناصر اور حافظ الاسد، دونوں اشتراکی لیڈر اور قوم پرست راہنما تھے جبکہ لبنانی صدر عیسائی تھا۔ یعنی کسی کو بھی، اسلام یا القدس کی خاطر فلسطین کا درد نہیں تھا بلکہ یہ صرف عرب قوم پرستی تھی۔

آمدم برسر موضوع!
اب یہ خاکسار اہل فلسطین کا مقدمہ بیان کرنے لگا ہے۔ عرض یہ ہےکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب دنیا بھر سے یہودیوں کو، سمندری جہازوں میں بھربھر کریہاں لایا گیا تھا تو برطانیہ نے ان کی رہائش کے لئے، وہ سرکاری اورلاوارث زمینیں ان کو الاٹ کردیں جو پہلے ترکی حکومت کی ملکیت تھیں۔ اگرچہ فاتح اور قابض سلطنت کو یہ ارے حق حاصل ہوتا ہے مگر بھائی، یہ چنگیز خان کا دور نہیں تھا بلکہ مغرب کا مزعومہ تہذیبی دور تھا جس میں انسانوں کے جمہوری حقوق کا بڑا غلغلہ کیا جاتا تھا۔

خیر، جب اس نئی آبادکاری پہ اصلی باشندگان فلسطین اور یہودیوں کے مابین تنازعات بڑھنے لگے تو برطانوی وزیرخارجہ (بالفور ) نے صیہونی تنظیم کے ساتھ، الگ اسرائیلی ریاست کے قیام پر معاہدہ فرمالیا۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ اس معاہدے میں زمین کے اصلی بیٹوں کو بطور فریق بلانے کی رسمی کارراوئی کی زحمت بھی نہ کی گئ؟

بہرحال، جب اسرائیلی ریاست ڈکلئر ہوگئی تو فلسطینی مسلمان اور عیسائی عربوں نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان کی معتدبہ تعداد اس علاقے سے باہر ہجرت کرگئی۔ یہ لوگ ریفیوجی تسلیم کیئے گئے۔ اب انٹرنیشنل لاء یہ کہتا ہے کہ ریفیوجی کی جائیداد کا تحفظ کرنا، متعلقہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ (ایک صورت یہ بھی ہے کہ ریفیوجی کو متبادل ادائیگی کی جائے )۔ مگر اسرائیل نے باہر جانے والے فسطینیوں کی جایئدادوں پر بھی قبضہ کرکے یہودی آبادکاروں کا الاٹ کردیا۔

آپ ساری باتیں چھوڑیں اوربس اسی نکتہ کو پکڑ لیں کہ اگر اسرائیل کو فلسطین کی زمین پر ریاست بنانے کا قانونی حق تھا تو اہل فلسطین کو بھی اس پہ احتجاج کا قانونی، جمہوری، انسانی اور منطقی حق حاصل تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس بارے میں کیا سٹریٹجی اپنائے؟
دیکھئے، ہم اقوام عالم کے جرگے کے رکن ہیں۔ ہمارا موقف تب وزنی ہوگا جسے اکثریتی ممالک کی تائید حاصل ہوگی۔ اقوام متحدہ کی آپ کی حالیہ قرارداد امریکہ نے ویٹو کردی مگر آپ خود کو اس لئے اخلاقی طور پر فاتح سمجھتے ہیں کہ دنیا کے 129 ممالک نے آپ کے حق میں ووٹ دیا۔ اسی بنیاد پہ سوچ لیجیے کہ دنیا بھرکی ریاستوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے تو آپ کے پاس اسے تسلیم نہ کرنے کا کیا جوازہے؟ اگر اس کیوجہ یہ ہے کہ آپ کو سطح ارض پہ ایک ”یہودی ریاست“ قبول نہیں مگر ”امت مسلمہ“ کے 54 ممالک پر فخر ہے تو ظاہر کہ عالمی ضمیر آپ کی اس توجہیہ کو ساتھ نہیں دے سکتا۔

لہذا پاکستان کو چاہیے کہ اس مقدمے پر اپنی سٹریٹجی بدلے۔
پاکستان، یہ موقف اختیار کرے کہ فلسطین کے مسئلہ کو بھی آئرلینڈ کی طرز پہ حل کیا جائے یعنی رفرنڈم کرایا جائے۔ ( جیسا کہ آئرش لوگوں نے برطانوی انضمام قبول نہیں کیا اور آئرش رپبلک آرمی بنالی۔ اور اس مسئلہ کو بالاخر برطانیہ نے رفرنڈم سے حل کیا)۔

میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ پاکستان خود بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے یہی شرط رکھ دے کہ سارے فلسطین میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رفرنڈم کرایا جائے۔
رفرنڈم کا سوال کیا ہو؟ وہ یہ ہو کہ کیا فلسطینی لوگ، اسرائیل کے شہری بننا چاہتے ہیں یا نہیں؟ (بالفاظ دیگر، اگر رفرنڈم میں اسرائیل کے حق میں ووٹ پڑے توباقی ماندہ فلسطینی علاقہ بھی اسرائیل کو دے دیا جائے)۔

بلکہ میں تو اس سے بھی آگے عرض کروں گا کہ اہل فسلطین کو“ہاں“ میں ہی جواب دینے کا سمجھایا جائے۔
یقین رکھئے، اگر ایسا کوئی رفرنڈم منعقد ہوبھی جاتا ہے تو اس کے دونوں جواب اسرائیل کے لئے بھیا نک ہیں۔ اگر اکثریت ”نہیں ” میں جواب دیتی ہے تو فسلطین کو الگ ریاست کا سٹیٹیس دینا پڑے گو جو ہمارا ہدف ہے۔ لیکن اگر فلسطینی ”ہاں ” میں جواب دیں یعنی اسرائیل کے سیٹیزن بننا گوارا کریں تو جمہوری پارلیمانی اسرائیل میں مسلم سیٹوں کی نمائندگی ہی 70 فیصد ہوجائے گی۔ بتایئے کہ جو شیطانی صہیونی طاقت اسرائیل میں برسراقتدار ہے(اور جس سے عام یہودی متنفرہونا شروع ہوگئے ہیں)، کیا وہ اس کو برداشت کرلے گی جبکہ ان کے ایجنڈے میں تو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے نہ کہ اپنا شہری بنانا۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ عالمی میڈیا یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، اس کے باوجود وقتاً فوقتاً ایسا ویڈیو کلپ، مین سٹریم میڈیا میں دکھائے جاتے ہیں جس میں چند اسرائیلی فوجی، کسی فسطینی بچے یا خاتون پر تشدد کررہے ہیں(کیمرے والا بھی ساتھ ہی کھڑا ہوتا ہے)۔ یہ مناظر اسرائیل کے پلان کا حصہ ہیں تاکہ مزید مسلمان مشتعل ہوں اور مارے جاتے رہیں جبکہ موجود فلسطینی لوگ، خوفزدہ ہو ہوکر نقل مکانی کرتے رہیں۔ بھائی، اصل صیہونی منصوبہ تو یہ تھا کہ مدینہ شریف تک کی زمین کو یہود کے زیرقبضہ لانا ہے۔ کیا اسرائیلی حکومت پاگل ہے کہ فلسطینیوں کو اپنا شہری بنا کر، جمہوری طاقت کا توازن دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھ دے دے؟
اسرائیل کبھی رفرنڈم کی بات نہیں مانے گا مگر ہماری اس سٹریٹجی سے یہ ہوگا کہ پوری دنیا کے سامنے اسرائیل کے خود ساختہ جمہوری اور انسانی چہرے سے نقاب اٹھ جائے گا۔

اب وہ دور تورہا نہیں کہ محض امریکی پشت پناہی پر اسرائیل، دنیا بھر کی قراردادوں سے راہ فرار اختیار کرلے۔ چنانچہ مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان، انسانی ہمدردری کے تحت، فلسطین میں آئرلینڈ کی طرح، رفرنڈم کرانے کی قرار داد پیش کرتا ہے( برطانیہ بھی جس کی تائید کے لئے مجبور ہوگا) تو اسرائیل فوراً ایک الگ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر تیار ہوجائےگا( اور یہی ہمارا ہدف ہے کہ کم ازکم اہل فسلطین کو کوئی ملکی شناخت تو ملے)۔

بہرحال ہماری تو دعا ہے کہ کوئی امن کا راستہ نکلے کیونکہ فلسطینی، برمیوں سے بھی زیادہ مظلوم قوم ہے جو غیروں سے زیادہ، اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔ آمین

فلسطین کا ایشو، مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).