شکر خدا کا ہم بیٹی کے ماں باپ نہیں


والدین کی شادی کے ساڑھے چار سال بعد جب میں پیدا ہوئی تو میرے والدین نے میرے ناز نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ شہر کے مشہور حلوائی سے آرڈر پر موتی چور لڈو بنوائے اور ان کو بھی کھلائے جنھوں نے منہ میٹھا کر نے کے بعد کہا ’ عجیب شخص ہے بیٹی کے پیدا ہونے پر مٹھائیاں بانٹ رہا ہے‘۔ میں نے ابا کے پیروں پر کھڑا ہو کر چلنا شروع کیا۔ رات میں امی نے خالہ کی صلاح پر مجھے فیڈر دینا چھوڑ دیا کہ پیتے پیتے سوگئی تو کچھ برا نہ ہوجائے۔ امی بتاتی ہے کہ رات چوری چھپے ابو بستر سے اٹھا کر مجھے لاونج میں لے جاتے اور فیڈر بنا کر پلاتے اور پھر کندھے سے لگا کر چکر کاٹتے کہ بیٹی سو جائے۔ یہ حرکت روز ہوتی امی کو پتہ نہ چلتا لیکن ایک رات پکڑ ہو گئی۔

امی نے واویلا کیا تو ابو نے گرجتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی رات بھر بھوکی رہے تم اپنی احتیاط اپنے پاس رکھو میں یہ ذمہ داری پوری کرلوں گا۔ امی حیران تھی کہ اس سب کارروائی میں بستر سے اٹھاتے ہوئے میں چوں نہیں کرتی پٹر پٹر آنکھیں کھولے غٹاغٹ فیڈر پی کر واپس سو جاتی ہوں اور اماں کو خبر تک نہیں ہوپاتی تھی۔

روز ایک نیا فراک میچنگ کے جوتے اور بالوں میں رنگین کلپس لگا کر ابا کا صحن میں ٹہل ٹہل کر انتظار کرتی کہ ابو دفتر سے آئیں اور پارک لے جائیں۔ تب کہاں احساس تھا کہ باپ تھکا ہوا آئے تو تھوڑا آرام کرتا ہے ہاتھ منہ دھو کر کوئی چائے پیتا ہے۔ پر وہ عمر ایسی ہوتی ہے جب بچے ماں باپ کو خوب تھکاتے ہیں اور والدین ہنسی خوشی تھکنے کو بیتاب رہتے ہیں۔ تھوڑا بڑے ہوئے تو امی کو حکم صادر ہوا کہ بچے جو بھی شوق سے کھاتے ہیں گھر آجائے گا دکان نہیں بھیجنا۔ پھر بھی ضد کریں تو کہنا کہ شام میں ابو کے ساتھ جانا۔

گھر میں سودا سلف کے ساتھ ’چیز‘ میسر ہوتی جو دکان سے لینے کی آرزو ہر بچے کے دل میں ہوتی ہے۔ گلی میں کھیلنا شروع کیا تو ابو کوئی اخبار لئے بیٹھ جاتے اور دیکھتے رہتے جس روز اخبار نہ ہو تا اپنی بائیک کی صفائی میں مصروف ہوجاتے آج سمجھ آتا ہے کہ یہ تو محض بہانے تھے۔ ٹیوشن گلی سے باہر کہیں جاکر پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ مرد ٹیوٹر تو کبھی پڑھا ہی نہیں سکتا تھا۔ گلی میں گھر سے چار پانچ گھروں کے فاصلے پر ٹیوشن ہوتی پھر بھی باہر کھڑے ہوجاتے چھٹی کا وقت ہوتا تو بھی باہر نظر آتے۔

اسکول، کالج، یونیورسٹی، کوچنگ ہر جگہ سایہ بنے رہتے۔ باقی بہن بھائی جو ان کے ساتھ نہ جا پاتے ان کی وین ڈرائیورز کے نمبرز سے لے کر اساتذہ سے علیحدہ سے ملاقاتیں ان کا معمول رہتیں۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ محسوس ہوتا گیا کہ ابو کی مداخلت اور لوگوں کے بارے میں رائے کا منفی ہونا کچھ زیادہ ہی بڑھ گیاہے۔ رونا اماں کے سامنے روتے تو جواب ملتا وہ ٹھیک ہیں تم لوگوں کو ابھی سمجھ نہیں آئے گی۔ خاندان میں کسی کی شادی آتی تو صاف گھر سے کہہ دیا جاتا کہ بھلے جتنی رات ہوجائے کوئی کتنی ہی منت سماجت کرے رات نہیں رکو گے۔ سارا خاندان جانتا تھا کہ اس گھر پر یہ اصول لاگو ہے تو پیشکش ہی نہ کرو۔ محلے میں اگر کوئی خاتون کہیں جاتیں تو میری والدہ کو یہ تلقین کرتیں کہ میری عدم موجودگی میں میری بیٹی آپ کے گھر رکے گی جب تک میں نہ آجاوں۔ لیکن یہ معاملہ ہمارے ساتھ کبھی نہ رہا جہاں بھی جانا سب ساتھ جائیں گے گھر کوئی اکیلے نہیں رکے گا۔ کبھی کبھی شدید گھٹن محسوس ہوتی کہ یہ سب کیا ہے؟

سختی کا یہ عالم کہ اخبار میں چھپنے والی کوئی ایسی ویسی خبر ہم نہ پڑھ لیں اس روز صبح سویرے وہ اخبار غائب کردیا جاتا تھا۔ یہ تمام اخبارات ابو کی وفات کے بعد الماری سے ملے وہ الگ بات ہے کہ آج ان سے زیادہ سنگیں خبریں میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ان کی بیماری میں ہی میں نے اپنے شوق سے نوکری شروع کی تو مجھے بٹھا کر انھوں نے کچھ باتیں سمجھائیں کہ آج تم اس قابل ہو گئی ہو کہ میں تمہیں اس دنیا کے حوالے کرسکتا ہوں جیسے کوئی کشتی اس نئے ملاح کے ہمراہ سمندر کے حوالے کی جاتی ہے جس نے بوڑھے ملاح کو منہ زور طوفانی لہروں میں کمال مہارت سے کشتی بچاتے کنارے لگاتی روز دیکھی ہو لیکن یاد رکھنا یہ دنیا بہت ظالم ہے اپنا خیال رکھنا۔ کل تک ابا کی غیر ضروری حد تک احتیاط کو غلط اور خود پر مسلط سمجھنے والی آج میں بھی وہ سب کرتی اور سوچتی ہوں جو وہ کرتے تھے اب سمجھ آتا ہے کہ ماں باپ کا بیٹی ذات کو لے کر کیا کیا خوف ہوتے ہیں جو انھیں ہر لمحے پریشان کیے رکھتے ہیں۔

قصور میں وحشی درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھنے والی ننھی زینب کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس بیچاری کے والدین خدا کے گھر شکر ادا کرنے گئے تھے کہ تو نے ہمیں وہ سب نوازا جس کے ہم قابل کہاں تھے۔ تو خوش تھا تب ہی تو، تو نے ہم پر رحمت نازل کی، تو ہم سے راضی تھا تب ہی تو بیٹی کو پالنے کے قابل تو نے ہمیں جانا۔ ابھی تو خدا کے گھر کو سامنے پا کر آنکھوں سے آنسو ٹپکے ہوں گے، الفاظ کہیں کھو گئے ہوں گے۔ انھیں ڈھونڈنے اور سمیٹنے میں دونوں میاں بیوی کو یہ بھی یاد آیا ہوگا کہ اب حاضری دی ہے نہ جانے اگلا بلاوا کب آئے تو بیٹی کے اچھے نصیب کی بھی دعا کرتے ہی جائیں۔ خدا سے اس کی محفوظ زندگی اور کبھی نہ ختم ہونے والی خوشیوں کی سفارش کر کے جائیں گے۔ عرضی ڈال جائیں گے تو نے ہمیں اس رحمت کے قابل جانا تو ہمیں یہ بھی طاقت دینا کہ ہم اپنی بچی کی پرورش کرنے میں کوئی کوتاہی نہ برتیں۔ دعا خدا کی بارگاہ میں ابھی پہنچی نہ ہوگی کہ ننھی زینب کی روح پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھی۔

زینب کے باپ نے بھی وہی سب کیا ہوگا جو میرے باپ نے میرے لئے کیا تھا۔ وہ بھی اس کا سایہ ایسے ہی بنتا ہوگا جیسے میرا باپ میرے کھیل کھیل کر تھکنے کے بعد گھر لوٹ آنے تک میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ نہ جانے کون کون اس پیاری سی گڑیا کو پیار کرنے کے لئے مچلتا ہوگا تو روز شام ماں اپنی بیٹی کی بلائیں اتارتی ہوگی، کسی اجنبی کی جانب سے اس ننھی پری پر پڑنے والی نگاہ پر باپ کا خون کھول سا جاتا ہوگا۔ روز رات بیٹی کے سوجانے پر باپ اس کیماں سے کہتا ہوگا کہ فلاں شخص مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا میری بیٹی کو پاس بلائے تو بہانے سے ہٹا دینا تم عورتیں کیا جانو ایک مرد ہی مرد کو پہنچان سکتا ہے۔ اس کے پیدا ہونے پر بھی منہ میٹھا کیا گیا ہوگا تو کئی رشتے داروں نے منہ بھر کر کہا ہوگا کہ بھلا کوئی بیٹی ہونے پر بھی مٹھائی بانٹتا ہے؟

نانی صدقے واری جاتی ہوگی، خالہ فراکیں سی سی کر بھیجا کرتی ہوگی، پھپھی کو بازار میں کوئی گڑیا نظر آتی ہوگی تو جھٹ سے ذہن میں اپنی زینب کا چہرہ سامنے آجاتا ہوگا۔ الماری میں رکھے رنگ برنگی کپڑے جوتے وہ پری چہرہ جب بھی دیکھتی ہوگی تو اپنے بابا سے کہتی ہوگی کہ یہ سب پرانے ہوگئے ہیں اب میں بڑی ہورہی ہوں نئے کپڑے بنا کر دیں۔ اسکول میں جو بھی پڑھتی ہوگی مٹھو کی طرح رٹ رٹ کر سب کو سناتی ہوگی۔ جس روز اسکول کی چھٹی ہو اس روز ماں کی سینڈل اور دوپٹہ اوڑھ کر استانی بن کر کھلونوں کی شامت لاتی ہوگی۔ جب کرنے کو کچھ نہیں ملتا ہو گا تو اپنی گڑیا کے بال سنوارتی ہوگی۔

اللہ کے گھر سے جب اس کے بابا اور ماما کا بلاوا آیا ہوگا تو خوشی کے ساتھ ماں باپ کو یہ فکر بھی ستائی ہوگی کہ پل پل ساتھ رہنے والی زینب کو کہاں چھوڑیں جہاں اس کو ہماری یاد بھی کم ستائے اور ناز بھی اٹھائے جائیں۔ زینب نے ہنستے ہنستے کہا ہوگا آپ جائیں میں اسکول بھی جاوں گی، ٹیوشن بھی پڑھوں گی میں اب بڑی ہوگئی ہوں اپنی گڑیا بھی سنبھال لوں گی۔ اللہ میاں کو میرا سلام دیجئے گا اور کہہ دیجئے گا کہ اس بار نہ سہی پر زینب جلد ہی آئے گی آپ کے گھر۔

آج اس ننھی پری کی زیادتی اور موت پر پورا ملک ماتم کدہ بن چکا ہے، قصور میں احتجاج پر تشدد بن چکا، ٹی وی، ویب سائیٹس، سوشل میڈیا اس معصوم بچی کے لئے چیخ چیخ کر ان بے حس حکمرانوں اور عوام کی جان و، مال و عزت کی حفاظت کا دعوی کرنے والوں سے سوال کر رہا ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کب تک ہو تا رہےگا؟ کب تک ہوس پرست یوں کھلے عام پھرتے رہیں گے کب تک ہماری بچیوں کی ردا تار تار ہوتی رہے گی؟ کب تلک ہم بنا انصاف کے اپنی بیٹیوں کی لاشوں کو من و مٹی دفناتے رہیں گے؟ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں کیا اب بھی اس بیٹی کے دکھ کو نظر انداز کیا جائے گا؟ کیا اب بھی اس سانحے کو فراموش کردیا جائے گا؟

کیا اب بھی بابا رحمتے سزاوں کو سیل میں لگے سستے جوتے کی طرح چیخ چیخ کر بیچا کرے گا کہ گاہک آئے نہ آئے، خریدے نہ خریدے دکانداری کا وقت پورا ہوجائے۔ کیا اب بھی نیچرل میک اپ سے جھریاں اور برینڈڈ ملبوسات سے دل کا چور چھپا کر سیاست سیکھیں اور حساسیت سے عاری چہرے ٹوئیٹس کر کے یہ گھناونا جرم کرنے والوں کو ٹوئیٹر پر پھانسی چڑھا دیں گی؟ یہ بیٹی قصور کی تو نہیں تھی یہ بیٹی آپ کی بھی تو تھی یہ سوال اس ملک کے طاقتور حکمرانوں کو خود سے پوچھنا چائیے ایک بار اپنے ہی گھر میں گڑیا سے کھیلنے والی بیٹی، پوتی اور نواسی کو دیکھ کر کرنا چائیے۔

آج میں مجبور ہوں یہ کہنے پر کہ مبارک ہو آپ بیٹی کے باپ نہیں۔ آپ کا دل دکھتا ہے ناں کہ گھر میں رونق نہیں آپ کا گھر اس رحمت سے محروم ہے تو جناب آج زینب کی تصویر کو دیکھئے اور اس کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کو دیکھ کر اپنی بیوی کو تسلی دیں کہ نیک بخت ناشکرا پن نہ کر ہم پر کرم ہوا ہے۔ یہ دیکھ! وحشی اب بھی پھرتے ہیں تاک میں رہتے ہیں خدا نہ کرے جو یہ ہمارے بیٹی کے ساتھ ہوتا تو ہم تو جیتے جی مر جاتے۔ شکر خدا کا جو ہم بیٹی کے ماں باپ نہیں، بس چپ کر جا اور نہ رو۔ اچھا ہی ہوا جو ہم بیٹی کے والدین نہیں۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar