انسانیت سوز واقعات: صرف دو ہی حل ہیں!


کسی بھی زینب جیسے انسانیت سوز واقعہ پر ”ہم شرمندہ ہیں“ کی تکرار سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آتی ہے جو جذبات کے اظہار کے لیے بجا ہے لیکن یہ تو انفرادی چیخ و پکار ہے اس سے کیا معاشرتی بندوبست کے بہتر ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے؟

گذشتہ چھ مہینوں کے اخبارات اٹھا لیجیے اور ایسے واقعات کو گننا شروع کردیں جو شماریات سامنے آئیں گی وہ ہوش اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ شماریات کسی طور بھی اس پاگل پن کا اظہاریہ نہیں ہو سکتیں جو معاشرے کی بنیادوں میں سرایت کر چکا ہے۔ پاکستان میں بہت سارے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔

سیاسی و مذہبی و لسانی و صوبائی تقسیم میں معاشرتی اکائی کے خدوخال معدوم ہو رہے ہیں۔ ریاست منقسم معاشرے سے اپنے سیاسی و دیگر فوائد سمیٹنے میں مصروف ہے۔ ریاست کیوں کر اپنے مفادات پر ضرب لگائے گی۔ زینب کے واقعہ پر ایسے ردعمل بھی آپ کو پڑھنے کو مل سکتے ہیں جس میں صوبائیت (خیبر پختونخوا بمقابلہ پنجاب) دکھائی دے۔ خبیر پختونخوا کا مشال ہو یا پنجاب کی زینب یہ سب انسان ہیں۔ ان کے صوبے ان کی شناخت سے زیادہ معنی نہیں رکھتے۔ حد تو یہ ہے کہ ایسے واقعات کے بعد سیاسی لیڈر شپ اپنے اپنے صوبے کے دفاع اور دوسرے صوبے کی انتظامی صلاحیتوں پر لعن طعن کرنے کھڑی ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں پنجاب کے اندر بچوں اور بچیوں کے ساتھ بدفعلی میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ ابھی قصور کے ڈھائی سو بچوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات کل کی بات ہے۔ ایمان فاطمہ، گیارہ سالہ فوزیہ، پانچ سالہ عائشہ آصف، نو سالہ لائبہ، سات سالہ ثنا عمر، پانچ سالہ کائنات بتول اور اب سات سالہ زینب۔ گزشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ یہ سب پاکستان میں گزشتہ چھ مہینوں کے واقعات ہیں اور یاد رہے یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔

ہم شرمندہ ہیں مہم سے۔ ہم سب خود تو شرمندہ ہوتے رہے اور اپنے جیسے ایک دوسرے کو شرمندہ کرتے رہے لیکن ایسے واقعات میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کا مطلب ایک خاص مائنڈ سیٹ جو کہ مجرم ہے یا جرم کی ’صلاحیت‘ رکھتا ہے اس پر چنداں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے مجرموں کو پکڑ پکڑ کر عدالتی عمل وغیرہ سے گزارے بغیر گولی مار دی جائے تو اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا۔ آپ دیکھیں گے کہ واقعات کے تسلسل میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟

میڈیا کا کردار: میڈیا پرائیویٹ ہے اور خبر کو بطور ایک پروڈکٹ کے لیتا ہے۔ کیا یہ خبر بک سکتی ہے؟ کیا یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہے؟ ابھی ایک تازہ مثال لیں۔ ایمان فاطمہ پر یہی میڈٰیا خاموش تھا جس سے بدفعلی کر کے لاش کماد میں پھینک دی گئی تھی۔ کیونکہ ایمان فاطمہ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل نہیں ہوئی جبکہ دوسری طرف زینب کے واقعہ پر احتجاجی جلوس بعد میں نکلے میڈیا پہلے ہی مکمل ان پر فوکس ہو چکا تھا کیونکہ خبر وائرل تھی اور ٹوئٹر ٹرینڈ میں ٹاپ پر تھی۔ ایسے میں میڈیا سے کسی بڑی توقع بے سود ہی نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا البتہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے مین سٹریم میڈیا کو کسی حد تک مجبور کر سکتا ہے۔

ریاست کا کردار: ریاست کا کردار ہی فیصلہ کن کردار ہو سکتا ہے لیکن کیا ہمیں امید رکھنی چاہیے۔ اس وقت ان جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ بچوں کی نشوونما میں ایسی غفلتیں ہیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں کا سبب بن رہی ہیں۔ اس میں گھر سے سکول اور سکول سے مدرسہ سب شامل ہیں۔ جہاں پورے ملک میں سڑکوں پر مانگنے والے بچوں کا جم غفیر ہو۔ جہاں بچوں کو اغوا کر کے اپاہج کرنے کے بعد مافیا ریاست کی ناک عین نیچے سڑک پر چھوڑ دے اور دن دیہاڑے اپاہج بچوں سے مالی منفعت سمیٹے وہاں۔ وہاں ریاست سے لمبی چوڑی توقعات وابستہ رکھنا کچھ منطقی نظر نہیں آتا۔

معاشرے کا بطور کیمونٹی کردار: یہ واقعات تسلسل سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی سڑک پر یا گلی میں اکیلا کوئی بچہ یا بچی چلتی نظر آئے تو حواس اڑ جاتے ہیں کہ اس کے والدین کو نہیں معلوم کہ حالات کیا ہیں تو کیوں وہ اس قدر مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔ ریاست سے مایوسی اپنی جگہ لیکن معاشرہ اپنے طور کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتا ہے۔ ہنزہ کی طرز کی سیکیورٹی درکار ہے۔ اپنے گلی محلوں کی حفاظت خود کی جائے۔ آنے جانے والوں پر نظر رکھی جائے۔ ہنزہ میں اس سیکورٹی عمل میں ایک چھوٹے بچے سے لے کر بڑوں تک سب حصہ لیتے ہیں۔ اگر ہر گھر میں ایک رضا کار ہو تو ایک محلے میں اتنے رضاکار نکل سکتے ہیں کہ ڈیوٹی کے اوقات فی فرد دوگھنٹوں سے زیادہ نہ لیں۔ ہنزہ میں اس کام میں طالب علم پیش پیش ہوتے ہیں۔ ہنزہ کے ماڈل کو احتیاط سے سٹڈی کرنے کے بعد نافذ کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں بڑی رکاوٹ ہم خود ہیں جو کسی بھی عمل چاہے وہ نیک عمل ہی کیوں نہ ہو اس پر اتفاق نہیں کر پاتے۔ ہنزہ میں سیکورٹی اور معاشرے کے لیے دوسرے مثبت اقدامات میں جماعت خانے کا کافی انتظامی اور تعلیمی عمل دخل ہے اور وہاں کیمونٹی کے خدوخال بھی یکساں ہیں۔

ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ تقسیم کا ہے۔ اس نیک عمل میں بھی فرقہ پرستی، لسانیت، یا رنگ و نسل کا کود پڑنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اب اس تقسیم کے مسئلہ سے کس طرح نپٹنا ہے کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ہاں انسانیت سوز واقعات کے قد سے۔ شناخت کے حوالوں کا قد کہیں بلند ہے۔ ہمارے لیے ہماری سیاسی و مذہبی وابستگی، لسانی و صوبائی وابستگی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اب دو ہی صورتیں بچ جاتی ہیں۔

اگر ہمارے لیے وابستگیوں کی یہ تقسیم اس قدر اہم ہے اور ہماری وابستگیاں سلامت ہیں تو ایسے واقعات پر رونا کیسا؟

لیکن اگر ہمارے لیے زینب اور ایمان فاطمہ اہم ہیں تو وابستگیوں کے قد کو انسانی مصائب سے کم کر کے دیکھنا پڑے گا۔
مؤخر الذکر حل ہی دنیا کے ان ممالک نے اپنایا ہے جہاں بچے بغیر کسی خوف و خطر مسکرا سکتے ہیں، کھیل سکتے ہیں، دنیا دیکھ سکتے ہیں!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik