جنگ میں سب جائز ہے


جان للی نے اپنی کتاب ”یوفیئس“ میں لکھا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ محبت کا تو معلوم نہیں کیوں کہ ہم نے محبت میں کبھی بھی ”جائز“ حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مگرپاکستان کے ”صفِ اول“ کےاردو اخبار کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے بارے میں جان للی نے درست ہی لکھا تھا۔

غالباً ہماری عمر چار یا پانچ برس کی ہو گی جب ایک دن ہمارے سامنے ایک نوجوان نے ہمارے گھر میں کاغذات کا ایک پلندہ پھینکا۔ ہم وہ پلندہ اٹھا کر اس نوجوان کے پیچھے دوڑ گئے تھے کہ اپنا گند ہمارے گھر میں مت پھینکو بلکہ کوڑے دان میں ڈالو۔ وہ پاکستان کے ”صف اول“ کے اردو اخبار سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔ اب بیالیس برس کی عمر میں ہم واقعی اس اخبار کو کوڑے دان میں پھینکنے کے لائق ہی سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں صحافت روز بروز زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ اور اس میں ایک بڑا کردار ان میڈیا گروپس کا ہے جو اپنے مخصوص مفادات کے پیش نظر صحافیانہ اخلاقیات اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر طرح کی جائز و ناجائز حرکتیں کر گزرنے کے روادار ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں جب سے چوبیس گھنٹے نشریات دینے والے نیوز چینل متعارف ہوئے ہیں تب سے غیر محسوس طور سے اخبارات میں بھی غیر مصدقہ خبروں کی اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اخبار میں شائع ہونے والی خبر انتہائی مصدقہ سمجھی جاتی تھی۔ اخبار میں خبر شائع ہونا گویا پتھر پر لکیر لگ جانے کے مترادف ہوتا تھا۔ خبر کی صحت کے ساتھ ساتھ الفاظ کے چناؤ پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ تکلیف دہ خبریں بھی ایسے محتاط الفاظ میں لگائی جاتی تھیں کہ ان کی سنگینی بھی ظاہر ہوتی تھی اور ہیجان بھی نہیں پھیلتا تھا۔ پیشہ ورانہ اطوارکے انتہائی مقام پر فائز صحافی ہر ہر خبر کے لیے محنت کیا کرتے تھے۔ مدیران کرام نہایت محنت سے روز کا اخبار ترتیب دیا کرتے تھے۔ ایک ایک خبر پر بحث ہوتی تھی اور جب تک ان خبروں کے ذرائع معلوم نہیں ہوتے تھے، خبر کو شائع نہیں کیا جاتا تھا۔ اور اگر بالفرض محال کوئی ایسی خبر سہواً شائع ہو جاتی تھی جو غلط ثابت ہو جائے تو اگلے روز کے اخبار کے صفحہ اول پر نمایاں انداز میں اس خبر کی اشاعت پر معذرت شائع کر دی جاتی تھی۔

بچپن سے ہمارے گھروں میں اخبار روزانہ کی بنیاد پر آیا کرتے تھے اور ہم ان اخبارات کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔ اردو زبان میں روزنامہ جنگ اور نوائے وقت جبکہ انگریزی میں ڈان اخبار کا طوطی بولتا تھا۔ فرنٹیئر پوسٹ اور مارننگ نیوز بھی تھے مگر وہ ہمارے گھر میں نہیں آتے تھے۔ اس زمانے میں جنگ اخبار کا معیار دیگر تمام معاصر اخبارات سے بدرجہا بہتر تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست مالی مفاد کے لیے استعمال ہونا شروع نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی بڑے بڑے میڈیا گروپس معرض وجود میں آئے تھے۔

پھر وقت نے کروٹ لی اور پاکستان میں ایک نئے صحافتی دور کا آغاز ہوا۔ یہ دور نجی چینلز کا دور ہے۔ نیوز چینلز کی بھرمار نے صحافت کے مستحکم اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ شروع ہوئی تو مائک اور کیمرہ سے لیس کم تربیت یافتہ، ناتجربہ کار اور ہیجان خیز لب و لہجہ رکھنے والے ”اینکر“ خواتین و حضرا ت کا راج شروع ہوا۔ کوئی نیوز اینکر ہوا تو کوئی تجزیہ نگاراور کوئی رپورٹر بن گیا۔ اس پر تسلی نہیں ہوئی تو سینئر اینکر، سینئر تجزیہ نگار اور سینئر رپورٹر نظر آنے شروع ہو گئے۔ ان سینئر رپورٹرز اور سینئر تجزیہ نگاروں میں وہ حضرات بھی شامل ہو گئے جن کی خبروں اور تجزیوں پر سوائے حیرت کے اور کسی بات کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔

اس رحجان سے پرنٹ میڈیا بھی متاثر ہوا۔ محتاط الفاظ کی جگہ چسکے دار الفاظ نے لے لی۔ خبروں میں معلومات سے زیادہ ہیجان کا پہلو نمایاں ہونے لگا۔ غیر مصدقہ اور من گھڑت خبریں صفِ اول کے اخبارات کی زینت بننے لگیں۔ پاکستان کے ”صفِ اول ”کے میڈیا گروپ کے اخبار سے محض چند خبروں کا حوالہ اس بارے کافی ہو گا۔ ہم زیادہ دور نہیں جاتے۔ پانامہ کیس میں اس ”صفِ اول ” کے میڈیا گروپ کے ایک اخبار میں کچھ ایسی خبریں شائع ہوئیں جن کا نوٹس عدالت عظمیٰ بھی لینے پر مجبور ہو گئی۔ ایک غیر مصدقہ خبر پر جو بعد میں بے بنیاد ثابت ہوئی، مذکورہ ”صف اول“ کے میڈیا گروپ کے مالکان اور ایک ”سینئر رپورٹر“ پر توہین عدالت کی کارروائی ہوئی۔ ابھی اس کارروائی کا غبار بیٹھا نہ تھا کہ اسی ”صف اول“ کے میڈیا گروٌپ کے روزنامہ کے صفحات پر عدالت عظمیٰ اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے حوالے سے واٹس ایپ والی کہانی شائع ہوئی۔ یہ کہانی اتنی مشہور ہوئی اور اس کو اتنا دوہرایا گیا کہ اب جے آئی ٹی اور واٹس ایپ لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔

حال ہی میں اسی ”صفِ اول“ کے میڈیا گروپ کےاخبار کے صفحات پر عمران خان کی مبینہ تیسری شادی کے حوالے سے خبر شائع ہوئی۔ ذرائع کے حوالے سے سند یافتہ اس خبر نے گویا آگ لگا دی۔ جلتی پر تیل اس ”صف اول“ کے میڈیا گروپ کے نجی چینل نے ڈالا اور وہ طوفانِ بدتمیزی بپا کیا کہ بے چاری صحافت بھی کسی کونے میں منہ چھپا کر سسکیاں لیتی محسوس ہوئی۔

کسی بھی پیشہ میں اچھی ساکھ کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ میں لگ کر ہمارا میڈیا اپنی ساکھ تیزی سے کھوتا چلا رہا ہے۔ صحافت برائےفروخت کا بورڈ لگائے ملک کے میڈیا گروپس ذاتی اور سیاسی مفادات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ وقت آ گیا ہے کہ اخبار میں چھپی خبر کی صحت بھی مشکوک ہو چکی ہے۔ اور جان للی کے جملےکے اس حصے پر دل و جان سے یقین آ گیا ہے کہ جنگ میں سب جائز ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad