وہی کینیڈین مولانا ہیں، وہی ان کے جھوٹ اور وہی تُھوک!


میرے وطن میں تماشے ہی ختم نہیں ہو چکتے۔ جو ان تمام تماشوں کے دیوتا ہیں، وہ پردوں کے پیچھے بیٹھ کر مسکراتے ہوئے اپنی اپنی کٹھ پُتلیوں کے ناچ دیکھتے ہیں، اور ان کی انگلیوں سے بندھی ڈوروں کے ساتھ ہلتی، ناچتی، ٹھمکے لگاتی اور بلند آواز میں پہلے سے ہی شدید جذباتی گھٹن کے شکار معاشرے میں سستی جذباتیت بیچتی یہ پُتلیاں، اور پُتلے اس بات کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ پوشیدہ دیوتا، جو اب اتنے پوشیدہ بھی نہیں رہے ان کے اس ناچ اور شور پر بس اک بار مسکرا اٹھیں اور مسکراتے ہوئے اپنا سر مثبت انداز میں ہلا دیں۔

ہلنے والا سر چاہے نیچے کی جانب حرکت کرے، یا مائی باپ کی انگلی اوپر کی جانب، پُتلیاں اور پُتلے اُس عظیم سر اور عظیم تر انگلی کی حرکت کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ اس حد تک کہ انہیں مجھ جیسے غریب گھروں میں اپنا وجود کاٹ کاٹ کر بڑا کرنے والی ماؤں کے بچوں کی سرخ اور گرم خون والی لاشیں چاہیئے ہوتی ہیں۔ جتنا ناچ، اتنے تماشائی۔ جتنے تماشائی، اتنا شور۔ جتنا شور، اتنے عوام۔ جتنی عوام، اتنی لاشیں۔ جتنی لاشیں، اتنا خون۔ جتنا خون، اتنی اہمیت۔ جتنی اہمیت، اتنا بھاؤ۔ جتنا بھاؤ، اتنا قد۔ ریپیٹ! Once more

مسئلہ کینڈا سے آئے اور سستی جذباتیت ارزاں فرماتے اک مولوی باصفا کا نہیں، کہ جنہوں نے جھنگ سے اپنا سفر شروع کیا، اور کینیڈا کی سرسبز چراہگاہوں میں جا پہنچے۔ مسئلہ ان دو عظیم رہنماؤں کا ہے جن میں سے اک “سوشلزم ہماری معیشت” ہے اور دوسرا “انصاف و تبدیلی” کے نام پر اپنی اپنی شناخت قائم کیے ہوئے ہے، جو ایک کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے ووٹوں کے امین ہیں، اور اک ایسے شخص کی بجائے جانی والی بین پر ناگن ڈانس کرنے کو تیار ہیں جس کے پاکستان میں سوائے شورش اور بدنظمی کے کوئی دوسرے مقاصد نہیں۔

پڑھنے والے پاکستانیوں کو یاد دلاتا چلوں کہ موصوف پر جھنگ شہر کے اک تھانے میں اک نہایت ہی غیرپارلیمانی الزام پر اک مقدمہ تاحال قائم ہے۔ جھنگ شہر میں قائم اس مقدمہ سے فرار حاصل کرنے سے حال ہی میں انقلابی ہونے والے میاں نواز شریف صاحب کی اتفاق مسجد کی امامت، اور میرے آقا نبی پاکؐ کا نامِ مبارکہ مسلسل استعمال کرتے ہوئے پاکستان، بالخصوص دیہاتی پنجاب کے سادہ لوح، جذباتی اور مذہب کے نام پر فورا سے پہلے متشدد ہوتے لوگوں کے مذہبی جذبات کے ہمالہ پر کھڑے ہو کر خود کو اوتار ثابت کرنے والے ان کینیڈوی مولانا کی ترقی کی بنیاد مسلسل بولے جانے والے بلند آواز جھوٹوں کے اک طویل سلسلے پر قائم ہے۔ اور اگر ان جھوٹوں کا سلسلہ مسلسل قائم بھی ہے تو میرے دوستو، یہ خود پاکستانیوں اور بالخصوص ان کو اپنی امیدوں اور جذبات کا ایندھن فراہم کرنے والے پنجابی یاروں کی دانش، شعور اور انسان ہونے کی شکل پر اک بھدا تبصرہ بھی ہے۔

میں اپنے قصبہ ملکوال میں سنہ 1990 میں ہونے والے ان کینیڈوی مولانا کے جلسے میں خود شامل تھا جب انہوں نے گورنمنٹ ریلوے مڈل سکول کے سامنے موجود سڑک، جو کسی زمانے میں چرچ روڈ تھی، اب میلاد/ریلوے روڈ کہلواتی ہے، پر اک جلسے میں خود کو نبی پاکؐ کی بشارت ہونے کا ذکر کیا تھا۔ میں اس وقت 18 برس کا تھا، اور یہ سنی سنائی بات نہیں، موصوف کے دہان مبارک سے یہ ارشاد میں نے خود جیتے جاگتے اور بقائمی ہوش و حواس سنا ہے۔ مجھ جیسے گناہگار کی زبان لرز جاتی ہے کسی بھی قسم کا حوالہ آپؐ سے منسوب کرتے ہوئے۔ مولانا موصوف کے ہاں مگر اک سلسلہ ہے، کہ دراز ہے!

میرے اک سنجیدہ مزاج دوست جنہوں نے میری بھی بہت اصلاح کی، اiک سیاسی ملازمت میں تھے، انہیں جناب مولانا صاحب نے خود 2002 میں بتایا تھا کہ “مصطفوی انقلاب تو صرف نعرہ ہے، ہم الیکشنز کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔” یہ وہ سال تھا جب میرے ملک و معاشرے کے تیسرے اہم ترین مائی باپ سیاسی جماعتوں کی ٹکٹیں بانٹنے کے علاوہ، الیکشنز کے رزلٹس بھی بانٹ رہے تھے۔ تو مولانا موصوف اپنی بغل میں فائلیں دبائے ان کے آس پاس طواف کرتے ملتے تھے۔ مولانا موصوف نے حال ہی میں متشدد ہو جانے والے فرقہ کی عددی اکثریت کی بنیاد پر 86 ایم این اے کی نشستوں کا تقاضہ کیا تھا۔ یار لوگ بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پلانے کے ماہر تھے، اور ہیں، تو لہذا، “صرف” 850 فیصد کم نشستیں دے کر انہیں بمشکل تمام ایک ہی نشست پر راضی کر لیا گیا۔ موصوف راضی ہو بھی گئے اور پھر اک شریف النفس بلوچ کو وزیراعظم بنوانے میں اپنا اک ووٹ، اک وزارت کے وعدہ پر عنایت بھی فرمایا۔ کیا ہی عجب معجزہ، کہ وہ شریف النفس بلوچ، صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے ہی وزیراعظم بن پایا۔

بےشک، کینیڈا کے ان مولانا کے معجزات کا سلسلہ دراز تھا، اور ہے۔

میرے لکھے ہوئے ان چند الفاظ سے ان کینیڈین مولانا کی شان و شوکت کے علاوہ، لاشیں چاہنے والے ان کے ہمراہیوں کے پلان میں بھلا کیا فرق پڑنا ہے، مگر پڑھنے والوں سے ایک درخواست ہے، جو بنیادی طور پر جناب آئن سٹائن مرحوم سے جوڑی جاتی ہے۔ آئن سٹائن کہہ گئے تھے کہ “حماقت، انہی اجزائے ترکیبی کے ساتھ بار بار ایک ہی تجربہ کرنے مگر مختلف نتائج کی توقع کرنے کا نام ہوتی ہے!”

وہی مذہب کی بنیاد پر قصاص، دیت اور انصاف کا شور ہے۔ وہی لاہور ہے۔ بنیادی طور پر وہی سماجی، معاشرتی اور معاشی کلاس ہے جو ہمیشہ سے ایسی جذباتیت کا ایندھن بنتی رہی ہے۔ وہی احتجاج ہے کہ جس کے بطن سے میری 45 سالہ زندگی کے 38 سالہ شعوری برسوں میں کبھی کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی ہو گی۔ یہ تماشا کروانے والے تیز چینی اور تیز پتی والی چائے پیتے، سگریٹ کے مرغولے اڑاتے، اپنے موبائل فونز پر بات کرتے، بھاؤ تاؤ کرتے “ہتھ آوے فیر” کہتے، اس ملک کے سیاسی و جمہوری سفر میں بیڑیاں ڈالنے میں مشاق اور طاق ہیں۔

وہی تماشا ہے۔ وہی تماشا گر ہیں۔ وہی پُتلیاں ہیں۔ وہی تماش بین ہیں۔ وہی پاکستان ہے، اور وہی تجربہ ہے۔ وہی کینیڈین مولانا ہیں، وہی ان کے جھوٹ ہیں ، وہی ان کے تُھوک ہیں اور وہی پنجابیوں کے چہرے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).