سندھ یونیورسٹی کے طلبا کے لئے خیرات میں ملا کھانا


1947 میں جب پاکستان بنا تھا تو سندھ ملک کا واحد صوبہ تھا جس کا بجٹ پلس میں تھا اور اب نوبت یہاں تک پہنچادی گئی ہے کہ سندھ کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں خیرات کا کھانا بانٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

سینتیس ہزار طلبا والی سندھ یونیورسٹی جامشورو ایک مرتبہ پھراحتجاج کے نشانے پر ہے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف نہ صرف مظاہرے ہو رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی یونیورسٹی انتظامیہ پراس حوالے سے تنقید ہو رہی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے کراچی کے راستوں پرغریبوں کے لئے خیراتی کھانے کے دسترخوان لگانے والے سیلانی ٹرسٹ کو اجازت دی ہے کہ وہ سندھ یونیورسٹی میں بھی طلبا کے لئے اسی طرح کے دسترخوان لگائیں۔

سندھ میں لوگ اس طرح کے اقدام کو مستقبل کے معماروں کو بھکاری بنا نے کی کوشش قرار دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے ہزاروں غریب طلبا کا احساس مجروح ہوگا۔ وہ طلبا جو غربت کے باوجود یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے تک پہنچ گئے ہیں اور ان کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ان کو یونیورسٹی سطح تک تعلیم دلوا رہے ہیں وہ بھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچے یونیورسٹی میں کھلے عام بنے خیراتی دستر خوان پر کھانا کھائیں۔

اگر سیلانی ٹرسٹ کو سندھ یونیورسٹی میں طبا کی مدد کرنی ہی ہے تو ان کو اسکالرشپ دیں، کوئی انٹرنیٹ سسٹم لگوا کر نیٹ کا استعمال مفت کریں، یا کوئی اسپتال بنوائیں جہاں مفت علاج ہو۔ ان کے خیراتی دسترخوان کے ضرورت مند سندھ یونیورسٹی سے باہر لاکھوں بلکہ کروڑوں ہیں۔

اس سلسلے میں سندھ یونیورسٹی کی شعبہ فلاسفی کی چیئرپرسن کالم نویس اور سماجی سائنسدان محترمہ امر سندھو نے کچھ دن پہلے اپنی فیس بک وال پر یونیورسٹی میں خیراتی دسترخوان کھولنے والی خبر پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ،

”آج باخبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ سندھ یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن ہاسٹلوں میں سیلانی کے دسترخوان کھولنے جا رہی ہے۔ غربت اپنی جگہ مگر میں اس کی شدید مذمت کرتی ہوں کہ مدرسوں کے بعد اب یونیورسٹیوں میں بھی اس قسم کی خیرات کا زہر پھیلا کر طلبہ کی عزت نفس سے کھیلنے کی مکروہ کوشش کی جا رہی ہے اور ان تمام مذہبی خیراتی اداروں کو بھی یتیم خانوں اور یونیورسٹی کی ہاسٹلوں میں فرق سمجھنا چاہئیے۔ سندھ کے گورنراور وزیر اعلی سمیت تمام باشعور لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ یونیورسٹی کے سربراہان کی ذہنی تربیت کریں کہ وہ یونیورسٹیوں جیسے تحقیقی اداروں کو فقیر فیکٹری بنانے سے باز آئیں۔ سندھ بہت غریب سہی مگرسندھ یونیورسٹی میں طلبہ کے لئے سیلانی کا خیراتی دسترخوان کھول کر اس میں پڑھنے والے طلبہ کو سندھ کی غربت کا پبلسٹی پوسٹر نہ بنائیں۔“

خیراتی دسترخوان کھولنے کی خبر پرمیں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے واضع طور پر انکار کیا کہ ایسا کوئی منصوبہ زیرغور ہے۔ اس سلسلے میں سندھ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اسٹیٹ رفیق بروہی صاحب کا کہنا تھا کہ، کینٹین، کیفے ٹیریا، شاپس، ٹک شاپس ٹائپ معاملات ان کے انڈر ہی آتے ہیں اور خیراتی دسترخوان کھولنے کا معاملہ میرے پاس کبھی بھی اپروول کے لئے نہیں آیا اور میں آپ پر واضع کر دوں کہ نہ ہی ایسا کوئی معاملہ زیرغور ہے اور نہ ایسا ممکن ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی ڈاکٹر فتع محمد برفت غریب طلبا کے لئے کینٹین کے کھانے پر سبسڈی دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ میں نے ان سے جب یہ پوچھا کہ کیا اس سبسڈی میں سیلانی ٹرسٹ کا کوئی کردار ہے تہ انہوں نے اس سے صاف انکار کیا اور کہا، نہیں قطعی نہیں۔
بحرحال ایک بات بالکل صاف ہے۔ یونیورسٹی جیسے اداروں کو بھکاری نہیں بننا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).