میرے محلے کے اچھے اور برے انکل


زینب، جس کے لیے ہر آنکھ اشکبار ہے، اور پھر ایک کے بعد ایک، کبھی قصور، توکبھی فیصل آباد تو کبھی ملتان۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے بچے سڑک پر ہیں، جنہیں بھیڑیےشکار کرنے کو بے تاب ہیں۔

آج جب اپنے بچپن میں جھانکتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ گھر میں کوئی ایک ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بچے کی ہر سرگرمی پر کڑی نظر رکھے، اس کا دوست ہو، جس سے بچہ ہر بات شئیر کرسکے، یا جس کا کم از کم اتنا رعب ضرور ہو کہ بچہ اس کی مانے اور اچھے برے کی تمیز کرسکے۔

مجھے بچپن سے اپنے بھائی سے ایک گلہ رہا، انہوں نے کبھی گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے نہیں دیا۔ میرے یہ سخت مزاج بھائی نہ مجھے کسی کے سہیلی کے گھر جانے دیتے، اور نہ ہی گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیتے۔ اس وقت وہ مجھے سخت برے لگتے تھے جب میں گلی میں اپنی دوستوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتی اور وہ مجھے ڈانٹ کر گھر بھیج دیتے۔

انہی کی وجہ سے مجھے امی سے زندگی میں پہلی اور آخری مار پڑی۔ میری امی جنہوں نے کبھی ایک تھپڑ بھی نہ لگایا تھا، اس دن انہوں نے ایسی بے دردی سے مارا کہ مجھے وہ ظالم لگنے لگیں۔ لیکن آج سوچتی ہوں کہ انہوں نے صحیح تو کیا، اگر اس دن کچھ ہوجاتا تو وہ کیا کرتیں؟ وجہ بتاوں گی تو شاید آج کل کے حالات کے حساب سے آپ کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس وقت میں مشکل سے نو دس سال کی تھی، اسکول قریب تھا اس لیے پیدل ہی جاتی تھی۔ ایک دن امی سے چھٹی کی فرمائش کرتی رہی اور امی نہ مانیں۔ میں نے بستہ اٹھایا اور امی سے ناراض گھر سے نکل گئی۔ کچھ دور جاکر نہ جانے دل میں کیا سمائی، سوچ لیا اسکول نہیں جانا۔ اور پھر اس کے بعد اپنے ہی گھر کے آس پاس علاقے میں گلیوں میں گھومتی رہی۔ اسکول ٹائم چار گھنٹے کا تھا، ان چار گھنٹوں میں پورے علاقے کا چکر لگالیا، بھری دوپہر میں جب اکا دکا لوگ ہی نظر آتے تھے، میں بے خوفی سے ”آوارہ گردی“ کرتی رہی۔ لیکن قسمت خراب تھی، جب شام ہوئی اور چھٹی کا وقت ہوگیا تو میں نے جھانک کر بہت دور اپنا گھر دیکھنے کی کوشش کی کہ کوئی کھڑا تو نہیں؟ تاکہ میں گھر واپس جاوں۔

عین اسی وقت بھائی گھر کے قریب کھڑے اپنے دوستوں سے باتیں کر رہے تھے، اور ان کی تیز نظروں نے کوسوں دور سے مجھے جھانکتے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ خاموشی سے پورے علاقے کا چکر لگا کر عین میرے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے۔ اور پھر خود کچھ نہیں کہا، لیکن مجھے لے کر سیدھا امی کے پاس پہنچے اور انہیں میرا کارنامہ بتایا۔ اس کے بعد امی نے مارو دس اور گنو ایک والی دھلائی کی۔ اور پھر دوبارہ میری کبھی ایسی ہمت نہیں ہوئی، لیکن دکھ ضرور ہوا کہ ایسا بھی کیا کہ ”اتنی سی غلطی“ پر روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔ لیکن آج سوچتی ہوں میری وہ چھوٹی سی غلطی کتنی سنگین ہوسکتی تھی؟ اس کا اندازہ میری امی اور بھائی کو اچھے سے تھا۔

زندگی کے جھمیلوں میں شاید اتنی فرصت کسی کے پاس نہیں تھی کہ اپنی نگرانی میں مختلف ایونٹس میں پک اینڈ ڈراپ کرتے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اکیلے جانے کی اجازت ہی نہ دی جائے۔ یوں پورا بچپن بغیر گلیوں میں کھیلے اور دوستوں کے گھر جائے بغیرگزر گیا۔ آج سوچتی ہوں ٹھیک ہی تھا۔ اینٹرٹینمٹ کی باری بہرحال، جان اور عزت کے بعد ہی آتی ہے۔
آج بہت سی خواتین اپنے بچپن کے دھندلکوں میں جھانک رہی ہیں تو کئی تکلیف دہ یا عجیب و غریب یادیں ذہن کے پردے پر لہرارہی ہیں۔

ایسی ہی ایک یاد میرے بچپن میں ایک دکان ہے۔ جہاں میں چیز لینے جاتی تھی۔ اس دکان کو ایک انکل اور ان کا بیٹا چلاتے تھے۔ انکل تقریباً بوڑھے اور ان کے بیٹے بیس بائیس سال کے تھے۔ اس دکان پر میں نے اچھے اور برے لوگوں کی تمیز سیکھی۔ کہتے ہیں عورت میں خدا نے حس رکھی ہے کہ وہ اچھی اور بری نیت پہچان جاتی ہے۔ اور شاید بچوں میں اس سے بھی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ خطرہ بھانپ جاتے ہیں۔

میں دس سال کی تھی، اور کہانی کی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ امی ہر ماہ جو کتابیں دلواتی تھیں وہ جب پڑھ کر فارغ ہوجاتی تو دل چاہتا اور کتابیں پڑھوں۔ انکل دکان میں نونہال، ٹوٹ بٹوٹ اور ایسی ہی بہت ساری پرانی کتابیں رکھتے تھے۔ ایک دن میں نے انکل سے کہا مجھے کہانی کی کتاب دے دیں، میں پڑھ کر واپس کردوں گی۔ انہوں نے کہا ابھی رش ہے تم تین بجے آنا۔ دوپہر تین بجے جب عام طور پر سب اپنے گھروں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں، اور دکان پر کوئی نہیں ہوتا۔ عقل نہیں تھی اس لیے پہنچ گئی کتاب لینے۔ پہلے دن تو انہوں نے کتاب کاونٹر پر دے دی۔ اور میں خوشی خوشی کتاب لیے گھر آگئی۔ فٹافٹ پڑھ کر ختم کی اور اگلے دن واپس کرنے پہنچ گئی۔ انہوں نے پھر ایک کتاب دے دی۔ یوں یہ سلسلہ کچھ دن چلتا رہا۔ ایک دن جب میں دکان پر پہنچی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ انکل نے دکان سے جھانک کر پہلے دائیں دیکھا اور پھر بائیں، پھر کہا، بیٹے اندر بہت ساری کتابیں ہیں تم خود آکر دیکھ لو۔ میں اس وقت چھوٹی تھی، لیکن نہ جانے کیوں دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان کے چہرے پر کچھ ایسا تھا کہ مجھے وہ انکل بھی ڈراونے لگنے لگے۔ اور میں نے ڈر کر گھر کی طرف دوڑ لگادی۔ اس کے بعد میں کبھی ان سے کتاب لینے نہیں گئی۔ اور جب بھی گئی امی پوچھتی ہی رہ جاتیں، ارے اتنا بڑا دوپٹہ اوڑھ کر کہاں جارہی ہو؟

اسی دکان پر میں نے اچھا انسان بھی دیکھا، انہی ”خراب“ انکل کا اچھا بیٹا۔ ان دنوں کراچی میں کرفیو لگا ہوا تھا، رینجرز گاڑی میں چکر لگاتے اور گاڑی دیکھتے ہی لوگ بھاگنا شروع کر دیتے، سمجھ نہیں آتا تھا کیوں۔

اس دن میں چیز لینے کے لیے دکان پر کھڑی تھی، بہت رش تھا۔ سب بڑے بڑے آدمی اور لڑکے۔ انکل کا بیٹا جلدی جلدی لوگوں کو سامان دے رہا تھا۔ میں واحد ”خاتون“ تھی جو اس وقت دکان پر موجود تھی۔ اچانک شور ہوا رینجرز کی گاڑی آرہی ہے۔ انکل کے بیٹے نے جلدی سے مجھے باہر دھکا دیا، اور سارے آدمیوں کو اندر لے کر شٹر بند کردیا۔ مجھے اس وقت بہت رونا آیا کہ مجھ اکیلی کو باہر چھوڑ کر دکان بند کرلی۔ اب یہ وردی والے انکل مجھے ماریں گے۔ لیکن انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ اور جلدی سے گھر بھاگ جانے کو کہا۔ جو بات اس وقت سمجھ نہیں آئی تھی، وقت کے ساتھ سمجھ آگئی۔ اس وقت میرا گلی میں رینجرز کے سامنے کھڑا ہونا خطرناک نہیں تھا، کیوں کہ میں چھوٹی سی بچی تھی، زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟ لیکن ایک بند دکان میں کچھ دیر کے لیے ہی سہی، اجنبیوں کے ساتھ بند رہنا مناسب نہیں تھا۔ اس دن میں نے ایک اچھا انسان دیکھا۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کہ ساتھ ہماری اقدار بدلی ہیں۔ اچھے برے لوگ پہلے بھی تھے، لیکن تیز رفتار اور باخبر دنیا نے جہاں سوچ کے بند دروازے کھولے ہیں وہیں بچوں اور والدین میں دوریاں بھی بڑھادی ہیں۔ بچوں کی تربیت میڈیا نے نہیں کرنی، کیوں کہ وہاں بچوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری گھر والوں کو ہی لینا پڑے گی۔ بچوں کو وقت دینا ہوگا۔ انہیں خود سے اتنا قریب کرنا ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز اور ان کا ایک ایک لمحہ آپ سے شئیر کرسکیں۔ تاکہ ان لمحات میں اگر کوئی ناخوشگوار پل آئے بھی تو آپ کو اس کی خبر ہو، اور آپ وقت سے پہلے اپنے دل کے ٹکڑے کی حفاظت ممکن بناسکیں۔ چہروں کی شرافت پر نہ جائیں۔ ”بھیڑے“ آپ کے میرے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ اللہ سب بچوں کا نگہبان ہو۔ آمین

شبانہ سید۔ نیوز پروڈیوسر، رائٹر، وائس اوورآرٹسٹ، میڈیا ٹرینر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).