کیا ہمارا خیال ہے کہ جو خواتین می ٹو کی کہانیاں سامنے لے کر آرہی ہیں ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے؟ کچھ لوگ ذمہ داری کا احساس دلا کر ان کہانیوں کو ڈس کریڈٹ تو نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم ان عورتوں کو اس طرح ہمت نہیں دلا سکتے ہیں کہ ”ہاں تم اس لمحے کے لیے تیار ہو، جاؤ تم کامیاب ہو گی اور اگر کامیاب نہ بھی ہو ئیں تو کوئی بات نہیں ہم پھر بھی تمہارے ساتھ ہیں“ کیا ہم ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلا کر اپنی کہانی بتانے سے روک تو نہیں رہے؟
دو ا قسام کے لوگ ہیں ایک جو کہانی سنانے کی اہمیت سے واقف ہیں اور ایک جو کہانی سنانے کو فضول سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انہوں نے اپنی کہانی سنا ئی کہ ان کا استحقاق کیسے مجروح ہوا تو اس سے ان کو کیا فائدہ ہوگا؟ تو کیا ہم کو اپنی کہانی بیان کرنے کے فوائد پر نظر ڈالنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے ہیں کہ احساس شرم نے انسانی زندگیوں کو کس طرح سے جکڑا ہوا ہے؟ اگر شرم کا ایندھن اس کو راز رکھنے میں نہیں ہے؟ تو کیا اس کا توڑ اس کو بیان کرنے میں نہیں ہوگا؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ احساس شرم کا بازار ٹھنڈا ہو تو اس کا علاج اپنی کہانی سنانا ہے کہ نہیں؟ اور دوسرے کو سوائےاپنے احساس ندامت قبول کرنے کے اور کیا کرنا ہے؟
Read more