کیا ہمیں اپنے بچوں کو گڈ بائے مسٹر چپس نامی ناول پڑھانا چاہیے؟


پاکستانی کالجوں میں ہائیر سکینڈری سطح پر جیمز ہلٹن کا ناول ’ گڈ بائے مسٹر چپس‘ پڑھائے جانے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ا گر ایک طرف اس کے 40 سال سے زائد عرصہ سے پڑھائے جانے پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس پہ ایک شدت پسندانہ نظریہ سے تنقید کی جا رہی ہے۔

جہان تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے ، یہ کتاب خود ثابت کرتی ہے کہ یہ ماڈرن فکشن میں سب سے محبوب تخلیق ہے جس نے کئی نسلوں کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا ۔ 1934ء میں اپنی تخلیق سے لے کر آج تک یہ کتاب کبھی طباعت سے باہر نہیں رہی۔ ایک استاد کی زندگی کا سادہ زبان میں بیان طلباء کے دل کو چھو جاتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے اعتراض کے ضمن میں البتہ بات کو سمجھنے کے لئے ادبی رویّہ چاہئے۔

کتاب پر اعتراض اس بنیاد پر ہے کہ حقیقی زندگی کے ہیروز کو نظر انداز کر کہ ایک فرضی کردار مسٹر چپس کو پڑھنا ایک بے کار عمل ہے اعتراض کرنے والے لوگ ناول گڈ بائے مسٹر چپس کی بجائے مسلم تاریخ کے کسی کردار کی سوانح پڑھانے کی وکالت کرتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ایک انتہائی غیر مناسب تقاضا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ گڈ بائے مسٹر چپس ایک فرضی تخلیق ہے اور وہ بھی انگریزی ادب کی۔ یہ انتہائی نا معقول بات ہے کہ انگریزی ادب کی تخلیقات کی جگہ بھی مذہبی شخصیات پڑھائے جانے کی بات کی جائے۔ ہمارے سلیبس میں دیگر بہت سے ایسے مضامین ہیں جہاں مذہبی تعلیمات کو جگہ دی جا سکتی ہے۔ کیا ہم نے یہ ان کو وہاں صحیح مقام دے دیا؟

ناول پہ کئے جانے والے اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چونکہ مسٹر چپس ایک فرضی کردار ہے، اس سے طالبعلموں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیشہ سے استعاراتی کہانیاں بچوں کے ابتدائی سالوں میں اپنے فرضی کرداروں سے اخلاقی قدریں پیدا کرتی نہیں رہیں؟ مگر آئیے ، اس کو اس انداز سے دیکھتے ہیں۔۔۔کیا مسٹر چپس محض ایک فرضی کردار ہی ہے؟ یا کوئی حقیقی مسٹر چپس تھا جس نے جیمز ہلٹن کو متاثر کیا؟ یہی سوال کئی بار جیمز ہلٹن سے بھی کیا گیا۔ ہلٹن کا جواب بتاتا ہے کہ کوئی بھی کردار جو ایک مصنف تخلیق کرتا ہے، دراصل کہیں نہ کہیں ہمارے ارد گرد موجود ہوتا ہے۔ ہلٹن کے والد کے علاوہ’ مسٹر ٹاپلس‘، جنھوں نے ہلٹن کو لاطینی ، تاریخ، اور انگریزی پڑھائی۔ اور ’لیز‘ سکول کے’ مسٹر بلگارنی‘، اس انتہائی محبوب کردار مسٹر چپس میں جھلکتے ہیں۔ ادب کا طالبعلم کسی بھی کردار کو دراصل حقیقت کا آئینہ جان کر اس سے سیکھتا ہے۔

آئیے اب ناول پر تکنیکی اعتبار سے بات کرتے ہیں کہ کیوں یہ ناول ہمارے نوجوان ذہنوں کے لئے ایک اچھا انتخاب ہے۔

1۔۔۔کیا انگریزی ادب میں کوئی اور ایسا ناول موجود ہے جو ’گڈ بائے مسٹر چپس ‘ کی جگہ پڑھایا جا سکے؟ یقیناً، آپ کو لاتعداد ایسی تحریری تخلیقات ملیں گی۔ چونکہ ہم ناول کی بات کر رہے ہیں ( اس صنف کی جس کا انتخاب گیارہویں جماعت میں افسانے اور ڈرامے پڑھ لینے کے بعد کیا گیا) تو میں بھی اسی صنف یعنی ناول کی بات تک محدود رہوں گی۔ اصل کام یہ ہے کہ انگریزی ادب سے ایسا ناول منتخب کیا جائے، جو نوجوانوں کی اس حسّاس عمر میں ہمارے اصولوں کے مطابق اخلاقی تربیت کرتا ہو۔

چارلس ڈکنز کے ناول انکے مضامین کے لحاظ سے عموماً ابتدائی جماعتوں میں پڑھا دئیے جاتے ہیں ( اکثر مختصر کہانی کی صورت) ۔ جین آسٹن عمومی طور پہ طالبات کو متاثر کرتی ہے اور آئندہ سالوں میں پڑھے جانے کے لئے زیادہ مناسب موضوع معلوم ہوتی ہے۔ دیگر نصابات ( جو دیگر کالجوں میں پڑھائے جا رہے ہیں مثلاً انڈین اور برٹش نصاب) میں پڑھائے جانے والے ناولوں میں شامل ہیں، H.G. Wells کا سائنس فکشن ناول ’ دا اِنوزیبَل مین‘ ۔۔۔جہاں ایک سائنسدان غیر مرئی وجود میں تبدیل تو ہو جاتا ہے مگر پھر اس حالت کو بدل نہیں پاتا۔ ’میٹا مورفوسس‘ ۔۔۔فرانز کافکا کی لکھی ناولٹ بھی اس سطح پر پڑھائی جا رہی ہے، جس میں ایک دن مصنف صبح جاگتا ہے تو خود کو ایک مکڑے کے روپ میں پاتا ہے اور یوں معاشرے سے کٹ جاتا ہے۔

ایملے برونٹے کا ’وودرنگ ہائٹس‘ ۔۔۔متنازعہ ناول گردانا جاتا ہے۔اس میں موجود ذہنی اور جسمانی ظلم کی سفّاک منظر کشی اس عمر کے بچوں کے لئے مناسب نہیں۔ اگر آپ تھامس ہارڈی کی طرف جائیں، تو اس کے یہاں موجود واضح قنوطیت نوجوانوں کی دلچسپی کی راہ روکتی ہے ۔ان کالج کے طلباء کی بالیدہ ہوتی سوچ ’روولڈ ڈیہل‘ او ر ’ اینِڈ بلائٹن ‘ کے تخیلاتی دنیا پر مشتمل ماڈرن ناولوں سے تسکین نہیں پاتی۔ دیگر پڑھائے جانے والے ناولوں میں سے ’سیلاس میرینر‘ کی پیچیدہ کہانی ایک بہتر آپشن ہے نہ ہی اس عمر کے طلباء کو ’سکارلٹ لیٹر‘ ۔۔زنا کے موضوع پہ لکھے گئے ناول سے متعارف کرا یا جا سکتا ہے۔ ( وہ بھی اگر ہم امریکی ادب کو شامل کرنے کی بات کریں تو) ۔ ہنری فیلڈنگ کی ٹام جونز میں پیش کردہ جنسیت اس عمر کے لئے ایک اور ناقابلِ فہم موضوع ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس ناول کو نصاب سے نکالنے کی بجائے، بحث اس بات پہ کی جانی چاہئے کہ ہمیں اس کتاب کو کیوں پڑھنا چاہئے یا یہ کہ ہم گزشتہ چار نسلوں سے اسے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ (پھر بھی اس کا سحر قائم ہے)۔ ادب میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ مصنف کا قلم زندگی کا ہر پہلو ؛ جوانی، عشق، شادی، ایک عام آدمی کی خوبیاں اور خامیاں، تائید اور تردید کا یوں حق ادا کرے کہ کسی مقام پر جنسی میلان کی طرف لے کر جائے نہ ہی بہت سخت اخلاقی تعلیم کا تاثر دے۔ اس کتاب کی یہ ایک منفرد خوبی ہے۔ مسٹر چپس کی سادگی ایک اضافی جوہر کی طرح ابھرتی ہے ،اس کی شریف النفسی اور دانا رہبری کے تانے بانے میں بنی۔۔ جو طلباء کو ایک استاد سے محبت اور احترام کے رشتے میں باندھ دیتی ہے اور استاد کے کردار کو ہمیشہ کے لئے امر کردیتی ہے۔

قاری، ایک عمر رسیدہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر کی یادوں کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔۔ماضی اور حال کے بیچ ہچکولے کھاتا، غم اور خوشی، جنگ و امن کے بین بین زندگی کے بوجھ کو محسوس کئے بغیر۔۔ اور یوں یہ ناول زندگی کے درس دیتا چلا جاتا ہے ۔۔خاموشی اور متانت سے ۔۔ اپنے قاری کو جذباتی سطح پر مضبوط اور باعمل بناتا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2