کیا ہم واقعی مردہ قوم ہیں


گزشتہ کئی روز سےطبیعت میں اضطراب سا تھا۔ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر بار بار ”زینب کو انصاف دو“ کی گونجیں سن سن کر طبعیت میں ناسازی سی بڑھتی چلی جارہی تھی، کئی بار تو میں خود کو ایسے محسوس کرتا کہ زندہ ہوکر بھی مر چکا ہوں۔ حالیہ دنوں کی بات ہے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں گرہ مٹ میں ایک نوجواں لڑکی شریفہ بی بی کو بھیڑیا صفت انسانوں نے سر بازار برہنہ کرکے بے آبرو کردیا تو کئی روز بعد تب بھی میری قوم نے سوشل میڈیا پر جسٹس فار شریفہ بی بی کو نمبر ون ٹرینڈ بنا کر جیسے مجھے مطمئن کردیا کہ آئیندہ ایسا ظلم کبھی دیکھنے کو ہی شاید نہ ملے مگر یہ ظلم، زیادتی جبر و ستم، اس بڑھ نا اہل حکمران اور بے ضمیر سیاستدان جیسے ہمارے مقدر میں لکھے جاچکے ہیں۔

کچھ ہی دن بعد جسٹس فار زینب سوشل میڈیا پر پچھلے ٹرینڈ سے بھی زیادہ نمبر پر گردش کرنے لگا لیکن اس بار میں مطمئن ہونے کے بجائے زیادہ متزلزل سا ہوگیا۔ مجھے جھٹکا تو اس وقت لگا جب اپنے گاؤں کی خبر ملی کہ چند دن قبل ایک 70 سالہ وڈیرے نے اپنے پڑوسی غریب خاندان کی ایک 9 سالہ بچی سے زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ بچی نے ہوشیاری سے کام لیا اور وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ عمومی طور پر ایسے علاقوں میں بچوں کے ساتھ خدانخواستہ اگر کوئی ایسی ناگزیر حرکت ہو بھی جائے تو وہ اپنے والدین کو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتاتے مگر اس بہادر بیٹی نے اپنے والدین کو بتایا تو گھروالوں نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ غریب لوگ تھے ایک زمیندار وڈیرے کا کیا کرتے؟ شریفہ بی بی کا واقعہ بھی ان کے سامنے تھا جس میں پولیس کی ملی بھگت سے ایک نہتی لڑکی کو اول تو سرعام برہنہ کیاگیا پھر اسی حالت میں گاؤں کی گلی کوچوں میں گھومایا گیا۔ یہی سوچ کر اس بے بس خاندان نے بھی خاموشی اختیار کرلی اور اس بات کو مکمل طور چھپانے کی پوری کوشش کی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میں نے بڑی جدوجہد کی کہ اس بچی کے لواحقین کے دلوں میں سے وڈیرہ ازم کا خوف نکال دوں مگر میں ایسا کرنے میں ناکام رہا۔

ایک بہت مشہور ملی نغمے کی ایک لائن ہے، ”ہم زندہ قوم ہیں“، اگر میں یہ نغمہ لکھتا تو ” ہم مردہ قوم ہیں“ لکھتا کیونکہ ہمارا ضمیر درحقیقت مر چکا ہے۔ ہمارا یہ ضمیر بس اس وقت تھوڑا سا جاگتا ہے جب کوئی بڑا سانحہ رونما ہوجائے اور ہمیں اس پر اپنی سیاست، صحافت اور حب الوطنی چمکانے کا موقع مل جائے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ جب ”سانحہ شریفہ بی بی“ اور ”سانحہ عاصمہ بی بی“ ہوا تو محترم عمران خان نے ان واقعات پر ایک لفظ تک بھی نہیں کہا کیونکہ یہ ظلم و ستم نئے خیبر پختونخوا میں اس محکمے کے اہلکاروں کی ملی بھگت اور غفلت کی وجہ سے ہوا۔

کیا واقعی ہم مردہ قوم نہیں؟ ہمارے اسلامی معاشرے میں بچے بچیاں تک محفوظ نہیں رہیں۔ پہلے چھوٹے بڑوں کو بازار میں جانے پر اپنی جان کا خوف لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی خودکش حملہ نہ ہوجائے مگر اب اپنی جان سے بڑھ کر اپنے بچوں کی عزت نفس اور جان کی فکر رہتی ہے کہ اسکول، مدرسہ، بازار سے خیریت سے واپس آئیں گے بھی یا نہیں؟ ہم سوچتے ہیں کہ پاکستان سے قبل بچے بچیوں کے ساتھ ریپ کے بعد قتل کے واقعات پڑوسی ملک بھارت میں سنائی دیتے تھے مگر پڑوس میں لگی آگ کی چنگاریاں ہم تک بھی پہنچ گئی ہے

میرا آپ سب سے ایک چھوٹا سوال ہے کہ آپ نے جب کبھی اس طرح کے واقعات کو آس پاس محسوس کیا تو کیا آپ نے اس پر آواز اٹھائی؟ کیا ہمارے مدارس اور اسکولوں میں بچے بچیوں کے ساتھ ریپ نہیں کیے جاتے؟ یقیناً ایسا ہوتا رہتا ہے مگر ہم نے اس پر کبھی آواز نہیں اٹھائی کیونکہ ہماری یا ہمارے رشتہ داروں کی عزت ہمارے بچوں کی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔

اس میں ہمارے میڈیا کا بھی برابر کا قصور ہے۔ جب بات ہو ریٹنگ کی تو سارا میڈیا حق و باطل کی تمیز کیئے بغیر نمبر1 بننے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ اس دوڑ سے ہٹتا ہے تو بس سیاستدانوں اور دیگر بڑے اور اہم لوگوں کی کوریج کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ نام نہاد بڑے بڑے میڈیا گروپ بڑے شہروں کے چھوٹے گناہ تو دکھا دیتے ہیں مگر چھوٹے علاقوں کے بڑے بڑے گناہ شاید چھپا دیتے ہیں یا پھر ان کی نظر سے چھپا دیے جاتے ہیں؟

اب ہمیں اس ہوس اور درندگی کے خلاف عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ ہم بطور قوم زندہ ہوکر بھی مردہ ہوتے چلےجائیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو جنسی تعلیم دینی ہوگی اور انہیں اپنے جسم کی حفاظت کرنا سکھانی ہوگی۔ قرآن کریم میں قوم لوط اور اس جیسے واقعات کا اردو ترجمہ کرکے اپنے نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔

باقی رہی بات ان ہوس کے پجاری اور مردہ ضمیر کے حامل مجرم افراد کی جو ہمارے بچوں کے ساتھ یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل کرتے ہیں، ان کو تو قانون کے تحت عدالتوں سے سزا دلوا کر سر بازار عوام کے سامنے تختہ دار پر لٹکا کر عبرت ناک مثال بنانا چاہئیے تاکہ آئیندہ کسی کی ایسا کرنے کی جرات نہ ہو۔ گزشتہ سال ایران کے شہر پارسہ آباد میں 7سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جس کا والد کپڑے کا تاجر تھا۔ بچی پانی پینے کی غرض سے والد کے دوست کی قریبی دوکان پر گئی اور غائب ہوگئی۔ لواحقین بچی کی گمشدگی کو اغواء سمجھ رہے تھے لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج نکالی گئی تو وہی بچی اسماعیل جعفرزادے کی قریبی دوکان میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی۔ پولیس کو دورانِ تفتیش بچی کی نعش پارکنگ سے مل گئی، ملک بھر میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ واقعہ 19 جون کو پیش آیا، 20 جون کو مجرم گرفتار ہوگیا اور 11 سمتبر کو عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنادی لیکن حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس کی پھانسی کو عبرت ناک بنایا جائے لہٰذا 20 ستمبر کو مجرم کو سرعام ہزاروں لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ اگر ہم نے بھی پاکستان سے جرائم کا خاتمہ کرنا ہے تو اپنی سزاؤں کو قرآن و سنت کے مطابق کرنا ہوگا اور ساتھ ہی مجرم کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرستی یا مدد کرنے والوں کو بھی سخت سے سخت سزائیں دلوانی ہوں گی۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra