مسلم لیگ (ن) کا احتجاج ہی اس کی کامیابی ہے


بسا اوقات محتاط رویہ حالات کو سدھارنے کی بجائے بدترین حالات کے قیام کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور جس سبب سے احتیاط روا رکھی جا رہی ہوتی ہے۔ اس معاملے کے وقوع پذیر ہونے کو مزید آسان بنا ڈالتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں خواجہ ناظم الدین کی بطور وزیر اعظم برطرفی گورنر جنرل غلام محمد کا ایسا بھیانک اقدام تھا کہ جس نے پھر مسلسل وطن عزیز کو زخمی کرتے رہنے کا ایک ہتھیار بنا دیا۔خواجہ ناظم الدین ایک صاف ستھرے سیاستدان تھے۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ جب غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو اقتدار سے بے دخل کیا تو بالخصوص مشرقی پاکستان میں عوامی سطح پر شدید غم و غصے کے جذبات پائے جاتے تھے۔

وہاں فی الفور یہ تصور راسخ ہو گیا کہ یہ اقدام ہمارے خلاف کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ صرف اقتدار کی طرف سے مجبور ایک شخص کا اقدام تھا۔ نور الامین اس وقت مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ عوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے وہ خود کراچی جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا تشریف لائے ۔ انہیں ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہنے کے واسطے گورنر جنرل غلام محمد کا نمائندہ موجود تھا۔ مگر انہوں نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ اور سیدھے خواجہ ناظم الدین کے پاس پہنچ گئے۔ اور خواجہ صاحب کو اس اقدام کے خلاف سیاسی تحریک چلانے کا مشورہ دے دیا۔ مگر خواجہ صاحب نے منع کر دیا۔ نورالامین بیان کرتے تھے کہ گورنر جنرل کے اقدام کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی حمایت حاصل تھی اور خواجہ ناظم الدین کو یہ خدشہ تھا کہ اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی تحریک چلائی گئی یا مسلم لیگ پارٹی نے کسی رد عمل کا مظاہرہ کیا تو پھر فوج کی مدد سے گورنر جنرل ملک میں مارشل لاء نافذ کردے گا۔ اور اسطرح جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

خواجہ ناظم الدین کی اس احتیاط کی وجہ سے مسلم لیگ کے لئے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ کوئی رد عمل دے سکے۔ لہٰذا بعد میں مسلم لیگ کٹھ پتلی بھی بن گئی اور خواجہ صاحب کے احتیاط کے باوجود اسی کمانڈر انچیف نے کچھ عرصے بعد جمہوریت کا بوریا بسترا گول کر دیا اور مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اگر خواجہ صاحب اس وقت گورنر جنرل کے غیرجمہوری اقدام کے خلاف سیاسی اقدام کر ڈالتے تو بہت ممکن تھا کہ پہلے معرکے میں ہی عوام آمریت پر فتح یاب ہو جاتی۔ اور روز روز کے تماشے بند ہو جاتے۔ مگر احتیاط کے سبب سے ولن دیدہ دلیر ہوتا چلا گیا۔ آج بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو احتیاط کے مشورے دینے والے جارحانہ رویے کے سبب سے سخت آزمائش کی نوید مسلم لیگی قیادت کو دے رہے ہیں۔ مشورے نیک نیتی کی ہی بنیاد پر لازماً ہونگے۔ مگر احتیاط اس وقت سیاسی عمل کا بیڑا غرق کر کے رکھ دے گی۔

مسلم لیگ (ـن) آج ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت کیوں ہے اور 28جولائی کے فیصلے بعد بھی ٹوٹ پھوٹ کیوں نہ ہو سکی تو اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے 12 اکتوبر 1999ء کے دن کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ جب بغاوت ہو چکی تو جنرل محمود اس عالم میں نوازشریف سے بضد تھے کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔مگر نوازشریف نے کسی تردد کے بغیر صاف انکار کر دیا۔ موت کے منہ میں انکا آئین ایک اورطرح کا کھلونا بننے سے بچ گیا۔ کیونکہ اگر اپنی اور اہلخانہ کی جان بچانے کی غرض سے نوازشریف اس وقت استعفیٰ دے دیتے تو طریقہ کار ہی یہ بن جاتا کہ چھڑی ہلاتے ہوئے جائو اور وزیر اعظم سے استعفیٰ لے ڈالو۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ نوازشریف کے لئے سخت آزمائش جاری تھی جب 22 نومبر 1999ء کو پہلی بار ان کے خاندان سے ان کی ملاقات کروائی گئی تو ملاقات کے خاتمے پر ان کے ننھے نواسے نے ان کی گود سے اترنے سے انکار کر دیا۔ بچہ جدا کر دیا گیا۔ دل پر کیا گزری ہو گی۔ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مینگنیوں والوں سے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کلثوم نواز تھی یا مریم نواز کیونکہ خاندان کے مرد تو پابند سلاسل تھے۔ اس سب کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ شریف برادران اور ان کی اولاد نے انتہائی سخت دنوں کا تقریباً 2 دہائیوں قبل سامنا کر لیا تھا۔ اور جب انسان ایک بار حالات سے گزر جائے تو پھر اس کو ان حالات سے دوبارہ خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔

موجودہ حالات میں سخت موقف کے سبب سے حالات کے مزید سنگین ہونے کا خدشہ یقیناً موجود ہے ۔ لیکن اگر خدشات کی بنیاد پر احتیاط یا خاموشی کا راستہ اختیار کیا گیا تو وہ دروازہ جو خواجہ ناظم الدین کی احتیاط اور خاموشی کے سبب سے کھل گیا تھا اور اب بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کو بند کرنا مزید کئی عشروں تک تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ آخر کبھی نہ کبھی اس دروازے کو بند ہونا ہی ہے۔ تو اب سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کیوں نہ بند کر دیا جائے۔ کیونکہ آج قوم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہوئی ہے۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).