مشورہ بطور مشغلہ


عوام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مشغلہ وہ کام ہے جو فارغ وقت میں کیا جائے جب کہ میرا خیال ہے کہ مشغلہ وہ کام ہے جس کے لئے آپ وقت نکالیں۔ ہونے کو تو خیریہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوسکتی ہیں۔ پڑھنے والے کی اپنی مرضی جو تعریف پسند آئے اسی کو مان لے۔ مشغلے کا چناؤ آپ کی شخصیت کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

ہمارے ہاں عوام کاپسندیدہ مشغلہ ہے دوسرے کو کم تر سمجھنا۔ ہم نے نا صرف بہت شوق سے دوسروں میں کمی ڈھونڈنے کا مشغلہ پال رکھا ہے بلکہ اس کا بلا ججھک اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایک ملک کی ساٹھ سے ستر فی صد آبادی ایک ہی مشغلے میں جتی ہو تو اس مشغلے کی افادیت اور مقصدیت میں تو شک ہوسکتا ہے مگر یہ سمجھنا بالکل مشکل نہیں کہ اس مشغلہ کی مذکورہ قوم کی زندگی میں اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ قصور ہے معاشرے کے اس اجتماعی رویے کا ہے جس میں انسانوں کو پرکھنے کے لئے کوئی معیار نہیں، سوائے اس کے کہ وہ ہمارے معیار پر پورے اتریں۔ اب یہ کہاں سے فرض ہوگیا آپ کے معیار میں آنے والے پیمانے اگلے کے لئے بھی اتنے ہی معیاری ہوں۔

طالب علم رو رہا ہے کہ صبح شام اسے مشورے ملتے ہیں کہ میڈیکل میں تم نے داخلہ تو لے لیا مگر ڈاکٹری ہوتی کافی مشکل ہے۔ میڈیکل نہ کرنے والے کویہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم تھوڑے سے نمبرمزید لے لیتے، میڈیکل میں داخلہ ہوجاتا، نوکری آسانی سے مل جاتی۔ کمپیوٹر سائنسز پڑھنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹرپڑھ کر کیا کرو گے، اس فیلڈ میں تو بہت مقابلہ ہے، جگہ بنانا ہر بندے کے بس کا کام نہیں۔

پرائیویٹ نوکری کرنے والوں کو رائے دی جاتی ہے کہ میری مانو تو سرکاری نوکری کر لو۔ پرائیویٹ اداروں میں نوکری کا فائدہ نہیں۔ پینشن اور بعد از ریٹائرمنٹ کوئی مراعات نہیں ملیں گی۔ سرکاری نوکری کرنے والوں کو کہاجاتا ہے کہ تم نے مشکل میں جان پھنسا لی اچھی ڈگری لیتے تو ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری مل جاتی۔ اکاؤنٹس مینجرکڑھتے ہوئے بتاتا ہے کہ اسی منشی کہا جارہا ہے۔ جس نے فنانس مینجمنٹ پڑھنے میں آدھے بال سفید کردیے ہوں اور اسے منشی کا خطاب دے دیا جائے وہ اپنے سر کے بال تو ضرور نوچے گا۔ لیکن میری بلا سے۔ میرا تو کام ہے مفت مشورہ دینا اور بلاوجہ رائے قائم کرنا۔

ایک عورت جب بغرضِ پردہ برقعہ پہن لے، گاؤن یا سکارف اوڑھ لے۔ اس کے بارے میں یہ رائے قائم کرلی جاتی ہے کہ یقیناً پسماندہ خیالات کی مالک ہوگی۔ اگر کوئی خاتون جینز، ٹی شرٹ پہن کر آجائے تو یہ جملہ فرض ہوجاتا ہے کہ لگ دیکھا پر پرزے نکالنا شروع کردیئے ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی یہ لباس میں فہم کیسے آگیاکہ برقعہ والی خاتون پسماندہ ہو گئی اور جینز والی کو پر کیسےلگ گئے؟

دور کیوں جائیں، اپنے گھر کو ہی لے لیں۔ بس گھر میں ایک دفعہ یہ بتا دیں کہ پسند کی شادی کرنی ہے اور میرا دل ہے کہ میری شادی اس لڑکے یا لڑکی سے ہو۔ بس پھر! مشوروں اور ہدایات کا انبار۔ فریقِ ثانی کے بارے میں کچھ جانے بغیر یہ مشورہ تو یقینی ہے کہ سوچ لو تم نبھا تو لو گے، وہ گھر کے کام کرلے گی، تمہاری ضروریات پوری تو کرلے گا۔ ضروریات اس کی، تو فیصلہ بھی اسی کا ہونا چاہیے نا ں! کہ اس کے لئے کیا ضروری ہے۔ مگر کہاں جی! یہاں تو یہ احساس دلایا جائے گا، طرح طرح کہ دلائل سننے کو ملیں گے کہ تم اس کے قابل نہیں یا وہ تمہارے قابل نہیں۔ اپنی پسند سے شادی کرنے والوں کی ہر حرکت کو مشکوک نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ پسند کی شادی کی ہے ہر بات اس کی مانتا ہے یا مانتی ہے۔ اس سب کے درمیان جان بخشی ارینج میرج والوں کی بھی نہیں ہوتی، عزیز و اقارب انہیں بھی یہ کہہ جاتے ہیں کہ اگر پسند کی شادی ہوتی نا ں تو ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیتے۔

کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سوچ بچار چل رہی ہوتی ہے کہ مشورہ ڈاٹ کام والے پہنچ جاتے ہیں اپنا ڈیٹا بیس لے کر، مثبت پہلوؤں کا بتائیں یا نہیں یہ ضروری ہے کہ منفی پہلوؤں کے بارے میں بات کریں گے۔ تم پولٹری کا کام شروع کرنے لگے ہو اگر بیماری آگئی تو لاکھوں کا نقصان ہوجائے گا۔ مرغی کا تو ریٹ ہی پتا نہیں چلتا وغیرہ وغیرہ۔ مسئلہ اس دن پیدا ہوجائے گا جس دن کسی نے یہ پوچھ لیا کہ بھائی آپ کے کتنے پولٹری فارمز تھے۔ مرغیوں کی بیماریاں کون کون سی ہیں اور بیماریوں سے ممکنہ حفاظتی تدابیر کیا ہیں؟

اسی ضمن میں فاروق قیصر صاحب کا ایک کارٹون نظر سے گزرا تھا آپ بھی دیکھ لیں

بلکہ مسئلہ اس دن حل ہوجائے گا جب طنز، طعنے اور تنقیص سہنے والوں نے سوال پوچھنا شروع کردیا کہ آپ کو کس نے حق دیاکہ میری ذاتی زندگی میں مداخلت کا یا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کن بنیادوں پر یہ الزام یا سند عطا کررہے ہیں اور اس رویے کا دوسرا حل یہ بھی ہے کہ ہم بات کرنے سے پہلے تسلی کرلیں کہ واقعی ہماری اس موضوع پر گرفت اتنی مضبوط ہے کہ جس پر ہم بات کررہے ہیں کہ کیا واقعی ہم کسی شخص کے بارے میں اتنا جانتے ہیں جتنا بول رہے ہیں یا محض اپنے ’تجربات‘ کی روشنی میں ’بیانات‘ جاری کررہے ہیں۔ اور تجربات بھی ایسے جن کی سو فی صد صداقت کا خود کو بھی یقین نہیں۔

ایلک شفک نے Forty rules of Love میں کیا خوبصورت بات لکھی ہے کہ ’ خدا کی تخلیق کے وسیع دائرے میں ایک ادنیٰ سا عنصر ہوتے ہوئے میں کیسے کسی دوسرے عنصر کو کم تر سمجھ سکتا ہوں“۔ اسی طرح اگر ہم سب یہ مان لیں کے خدا کی اتنی بڑی کائنات میں ہماری حیثیت مٹی کے ذرے جتنی بھی نہیں۔ ہم کس اختیار کے تحت دوسروں میں کمی ڈھونڈتے ہیں۔ اگر ہم اس ایک عادت پر قابو پا کر لوگوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کی روش اپنا لیں تو یقیناًمعاشرے میں مثبت سوچ کی راہیں ہموار ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).