عاصمہ جہانگیر جنت میں رہ کر بھی انصاف کی پکار بنی رہیں گی


میری دوست نوشین قمبرانی نے عاصمہ جہانگیر کی موت پر ایک نظم لکھی ہے،

اے موت
تجھے اس نامراد خطے کی غیرت مند آواز مبارک ہو
اے موت
آج دل چاہتا ہے کہ
تجھے آنکھوں سے لگالوں
اور
تیرے چہرے کے بدنما ڈراونے داغوں سے روشنی پھوٹنے لگے
اور پھر تجھ سے کبھی کوئی خوفزدہ نہ ہو
کہ تونے ہمارے محبوبوں کو گلے لگایا ہے۔

فیس بک پر کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ خدا ان کو جنت نصیب کرے۔
نوشین نے عاصمہ کی کمٹمنٹ کو اس مقام تک پہنچایا کہ جواب میں کہا کہ فرض کریں اگر جنت میں بھی نا انصافی جیسی چیز ہوتی تو عاصمہ وہاں بھی آواز اٹھائے گی۔
کیا پاکستان میں کوئی شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ کوئی بلوچ پنجاب کی بیٹی کو محبوبہ کہے اور ان کی خاطر موت کو آنکھوں سے لگانے کی خواہش کرے؟
ہاں ایسا اس وقت ہوسکتا ہے کہ اگر پنجاب کی بیٹی عاصمہ جہانگیر ہو۔

عاصمہ کی شناخت پنجاب سے جڑی ہوئی تھی لیکن ان کا ضمیر مظلوموں کے لئے زندہ تھا۔
اس مظلوم کا جو بھی رنگ، نسل، زبان اور عقیدہ ہو۔
چی گویرا نے اپنے بچوں کو الوداعی خط میں نصیحت کی تھی کہ حساس دل رکھو اور دنیا کے کسی کونے میں نا انصافی ہو رہی ہو اس کے خلاف کھڑے ہو جاؤ۔
عاصمہ کا دل حساس تھا جو سرحدات کی قید سے آزاد ہر کسی کے لئے دھڑکتا تھا۔
جہاں اور جب بھی بلوچستان پر بحث ہوتی وہ بلوچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر ڈٹ کر بولتی تھیں۔

نواب اکبر خان بگٹی پر جب ڈیرہ بگٹی کی زمیں تنگ کردی گئی تو پنجاب کی عاصمہ ہی تھیں جنہوں نے انتہائی کشیدہ حالات میں ان سے ملاقات کی، واپس آئیں اور ان کے لئے آواز اٹھائی۔
نواب بگٹی کا علیحدگی پسند نواسا براہمداغ بگٹی جو اکثر پاکستان سے نہیں پنجاب سے آزادی کی بات کرتے ہیں نے، ادی پنجاب کی عاصمہ کی وفات کی خبر سنی تو ٹویٹ کی،
”اگر عاصمہ جیسے دس لوگ اور ہوتے تو گارنٹی دیتا ہوں ملک کے حالات مختلف ہوتے“
براہمداغ سے ایسی بات کہنے کی توقع اس لئے کی جاسکتی ہے کہ نواب بگٹی اور عاصمہ کے والد دیرینہ دوست تھے۔

مگر بلوچ گوریلا لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اگر پنجاب کی کسی شخصیت کی موت پر دل گرفتہ ہو کر خراج تحسین پیش کرے تو شاید حالات کی گہرائی کو جاننے والے اس بات پر یقین نہ کرسکیں۔
اللہ نظر نے ٹویٹ کی ہے کہ عاصمہ جہانگیر کے وفات کی دکھ بھری خبر سنی۔ وہ ساری زندگی تمام قوموں کے انسانی حقوق کی دفاع کے لئے فولاد کی طرح کھڑی رہیں۔

میرے فیس بک اور ٹویٹر کے پشتون دوستوں میں سے بعض نے اپنی پروفائل پکچر کی جگہ پر عاصمہ جہانگیر کی تصویر لگائی ہے اور بعض نے ان کی جرات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
پشتو کے نامور گلوکار ہارون باچا نے زندگی می پہلی بار اگر کسی غیر پشتون کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے گانا کمپوز کیا ہے تو وہ عاصمہ جہانگیر ہی ہیں۔

بہت سے پشتونوں کے ذہن میں عاصمہ جہانگیر کے وہ الفاظ ابھی تک محو گردش ہیں جو انہوں نے چند دن قبل اسلام آباد میں پشتونوں کے دھرنے میں شرکت کے وقت تقریر کرنے کے دوران ادا کیے تھے،
”میں سمجھتی ہوں باچا خان اور پشتونوں کے بغیر پاکستان تنگ نظر پاکستان ہوگا۔ “

جب سوات میں طالبان کا راج تھا تب عاصمہ جہانگیر پشتونوں کے ساتھ کھڑی تھی اور جب وہاں ملٹری آپریشن کے بعد لاپتہ افراد کا ایشو سامنے آیا تب بھی انہوں نے سوات جاکر بڑی جرات کے ساتھ اس مسئلے کو اجاگر کیا تھا۔

میرے سندھی دوست بھی ماتم کناں ہیں۔
پشتون عاصمہ میں میوند کے ملالئی، سندھی ماروی اور بلوچ ان میں ہانی کا عکس دیکھتے ہیں۔
سیاسی اصطلاح میں عاصمہ جہانگیر ایک حقیقی جمہوری وفاقی پاکستان کا استعارہ تھیں۔

بعض پشتون، بلوچ اور سندھی پارٹیاں اور شخصیات اگرچہ پاکستان کے آئین کے ساتھ مکمل طور پر متفق نہیں مگر وہ عاصمہ کو اپنا متفقہ آئین مانتے ہیں۔
جس کسی کو ریاست تحفظ نہیں دے سکتی تھی اس سے عاصمہ جہانگیر تحفظ دیا کرتی تھیں۔

اس سیریز کے دیگر حصےنفرتوں کی امین قومتم نے کس کو کھو دیا لوگو !

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالحئی کاکڑ

عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور مشال ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہیں

abdul-hai-kakar has 42 posts and counting.See all posts by abdul-hai-kakar