مبشر علی زیدی اور مجاز و تمثیل کے معاملات


آج کل فتویٰ بریگیڈ کے فتووں کا رخ عالی جناب مبشر علی زیدی کی جانب ہوا چاہتا ہے جو ایک صاحب طرز ادیب ہیں اور مختصر سے لفظوں میں معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنا بخوبی جانتے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے نازک مزاج فتویٰ بریگیڈ اپنی فہم و فراست کو حرف آخر جانتے ہیں تو قبلہ شاہ صاحب کی حالیہ ادبی کارگزاری پر فتووں کی گولہ باری جاری ہے۔

مجازی و اشاراتی اور تمثیلی انداز میں بات کو سمجھانا ہمیشہ سے ایک ادبی طرز بیان رہا ہے۔ بیان کا ظاہر مطلب جہاں ہرگز مراد نہیں ہوتا بلکہ مجاز و استعارہ کے استعمال سے بالکل الگ ہی بات کو گہرائی سے سمجھانا مقصود ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ اسلوب خود الہامی و مذہبی کتب میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔

1) بائبل میں حضرت یعقوب کے لئے لکھا ہے: “اُس نے کہا کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔”

(کتاب مقدس، پیدایش، باب 32، آیت 28)

بائبل کی اس آیت میں اشاراتی و مجازی کلام کو اختیار کرتے ہوئے حضرت یعقوب کی خدا سے کُشتی بلکہ اس میں خدا پر غالب آنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز دیکھئے کتاب مقدس بائبل (ہوسیع، باب 12، آیت 4)

2) اسی طرح ایک اور جگہ بائبل میں لکھا ہے: “اور خداوند ساؤُل کو بنی اسرائیل کا بادشاہ کر کے ملول ہوا۔”

(کتاب مقدس، 1- سموئیل، باب 15، آیت 35)

اس آیت میں اشاراتی و مجازی کلام کا استعمال کرتے ہوئے خدا کو اپنے ہی ایک عمل پر ملول و رنجیدہ دکھایا گیا ہے۔

بائبل میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جنہیں الہامی ماننے والے ہمارے مسیحی بھائی اسی طرح مجازی و تمثیلی کلام کہہ کر ظاہر کلام کی تاویل کرتے ہیں۔ مگر ہمارے اسلامی مفکرین چونکہ بائبل پر تنقید کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں تو ایسی ہی آیات کو بنیاد بنا کر اسے تحریف شدہ و توہین آمیز ثابت کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔

مگر دوسری طرح حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بھی بکثرت ایسی مثالیں موجود ہیں جنہیں ہرگز ظاہر بیان کے مطابق نہیں لیا جا سکتا بلکہ وہاں بھی مجازی و تمثیلی بیان کو طرزِ کلام بنایا گیا ہے۔

3) چنانچہ قرآن پاک میں بیعت رضوان کے واقعہ کے لئے ارشاد ہوا: “بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ الله ہی سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر الله کا ہاتھ ہے۔” (سورۃ الفتح: 10)

اس آیت میں مجازی طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی بیعت کو اللہ سے بیعت کرنا قرار دیا گیا، نیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو ہی مجازی طور پر اللہ کا ہاتھ کہا گیا۔

4) اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہوا: “کوئی ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا۔” (سورۃ البقرۃ: 245)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو مجازی طور پر اللہ کو قرض دینا کہا گیا ہے بلکہ اس بات کو اللہ کا مطالبہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اسے قرضہ حسنہ دے؟ اب یہاں نعوذباللہ یہ ہرگز مقصد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہی بندوں سے قرض کا محتاج ہے بلکہ یہاں بھی مجازی کلام کو بات سمجھانے کی غرض سے اختیار کیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں اور بھی کئی جگہ پر مجازی و تمثیلی انداز کا کلام موجود ہے لیکن اب ہم اس سلسلے میں احادیث مبارکہ کی جانب چلتے ہیں۔

5) مشہور حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کے لئے فرماتا ہے: “میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔”

(صحیح بخاری: حدیث 6502، صحیح ابن حبان: حدیث 348)

اس حدیث مبارکہ میں مجازی طور پر ہی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے بندے کا کان، آنکھ، ہاتھ حتیٰ کہ پاؤں بن جاتا ہے۔

6) اسی حدیث قدسی میں یہ بھی ہے کہ ” اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔”

(صحیح بخاری: حدیث 6502، صحیح ابن حبان: حدیث 348)

یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب مجازی طور پر تردد کو منسوب کیا گیا ہے۔

7) ایک اور مشہور حدیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ آدم کے بیٹے سے فرمائے گا: “مَیں بیمار ہوا تو نے میری خبر نہ لی؟”۔۔۔۔ “مَیں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھ کو کھانا نہ دیا؟”۔۔۔۔ “مَیں نے تجھ سے پانی مانگا، تو نے مجھ کو پانی نہ پلایا۔”

(صحیح مسلم: حدیث 2569، دارالسلام 6556)

اس حدیث مبارکہ میں بھی بندے کی بیماری، بھوک اور پیاس کو مجازی طور پر اللہ کی اپنی بیماری، بھوک اور پیاس کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

8) صحابی رسول حضرت ابی بن کعب نے فرمایا: “ہوا کو گالی مت دیا کرو کیونکہ یہ رحمٰن کا سانس ہے۔” (مستدرک حاکم: حدیث 3075)

اس روایت میں صحابی رسول حضرت ابی بن کعب کی جانب سے ہوا کو اللہ تعالیٰ کی سانس قرار دیا گیا ہے۔

اس طرح کی بے شمار اور مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جہاں خود الہامی کتب میں مجازی و تمثیلی انداز کو اختیار کرتے ہوئے کلام کیا گیا ہے، جنہیں ہرگز ان کے ظاہر مفہوم پر نہیں لیا جاتا بلکہ تاویل اختیار کی جاتی ہے۔ اگر بزرگان امت کے اقوال اس ضمن میں پیش کئے جائیں تو شاید دفتروں کے دفتر ایسی مثالوں سے بھرے جا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر مشہور بزرگ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں: “مریض کا وجود عین وجود اللہ کا ہے اور سائل کا وجود اللہ کا وجود ہے۔”

(اخبار الاخیار، ص479، اکبر بک سیلرز لاہور)

ہمارے مذہبی دوستوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایسی مجازی و تمثیلی کلام کی ایسی مثالیں جب ہماری تسلیم و ایمان شدہ کتب سے ملتی ہیں تو انہیں ادب و بلاغت کا شاندار نمونہ کہا جاتا ہے اور جب ایسی مثالیں مخالفین کی کتب سے نکلیں تو انہیں زبردستی ان کے ظاہر کلام پر محمول کر کے الزام تراشی و طعنہ زنی کی جاتی ہے۔

ہمارے ممدوح مکرمی مبشر علی زیدی صاحب آج کل ایمانی حرارت والوں کی ایسی ہی طعن و تشنیع کی زد میں ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔ ان جیسے عالی ظرف سے امید یہی کی جاتی ہے کہ معترضین کو نظر انداز فرما کر اپنا تخلیقی کام جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).