کیا مسلمانوں کو ہولی نہیں کھیلنا چاہیے؟


ایمان کو ایمان سے ملاؤ

عرفان کو عرفان سے ملاؤ

انسان کو انسان سے ملاؤ

گیتا کو قرآن سے ملاؤ

دیر و حرم میں ہو نہ جنگ

ہولی کھیلو ہمارے سنگ

– نظیر خیامی

رام نگر کے اپنے دورے کے دوران میں نے بیٹھکی ہولی میں حصہ لیا تھا۔ یہ انڈین ریاست اتراکھنڈ کی قدیم روایات سے متاثر ہولی کا خاص طرح کا جشن ہوا کرتا تھا۔ اس دن خواتین ایک ساتھ جمع ہو کر ایک دوسرے کے گھر جاتی تھیں اور ہولی کے گیت گاتی تھیں۔ چند خواتین ڈانس بھی کرتی تھیں۔

ان خواتین نے ہمارے ماتھے پر رنگ کا ٹیکا لگا کر ہمارا استقبال کیا اور ہمارے گالوں پر بھی رنگ لگایا۔ مجھے ہولی کھیلنا پسند ہے۔ جس گرم جوشی کے ساتھ گاؤں کی خواتین نے ہم پر سوکھا رنگ لگایا تھا اس کے بعد میں خود کو ان رنگوں سے دور نہیں رکھ پائی۔

کیا رنگ لگانا حرام ہے؟

اس کے بعد جب میں نے ہولی کی یہ تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالیں تو مجھ سے کہا گیا کہ مسلمانوں کو ہولی نہیں کھیلنی چاہیے کیوں کہ اسلام میں رنگ لگانا حرام ہے۔

میں ان لوگوں سے اس بات کا ثبوت مانگنا چاہتی تھی لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ میں جانتی تھی کہ اس طرح کے عقائد جہالت اور تعصب کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا جواب دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان پر دھیان ہی نہ دیا جائے۔

نماز پڑھنے کے لیے جب ہم وضو کرتے ہیں اس وقت ہماری جلد پر ایسا کچھ بھی نہیں لگا ہونا چاہیے جو پانی اور جلد کے ملاپ کو روکتا ہو۔ رنگ لگانے کے بعد صرف اتنا ضروری ہے کہ وضو کرنے سے پہلے خشک رنگ کو پوری طرح صاف کر کے دھو لیا جائے۔

سات سو برس قبل حضرت امیر خسرو کی لکھی ایک قوالی آج بھی بے حد مقبول ہے۔

آج رنگ ہے، ہے ما رنگ ہے ری

میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری

گزشتہ برس میں ہولی کے موقعے پر خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر گئی تھی۔ میں نے وہاں کافی بھیڑ دیکھی۔ جب میں نے اتنی بھیڑ کا سبب پوچھا تو درگاہ کے گدی نشین سید سلمان چشتی نے مجھے بتایا یہ سب افراد خواجہ غریب نواز کے ساتھ ہولی کھیلنے آئے ہیں۔  وہاں موجود تمام افراد ہولی کے موقعے پر دور دراز علاقوں سے خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر آ رہے تھے۔ کسی بھی صدی کی روایات کو اس دور کے فن اور رنگ آمیزی کے ذریعہ سب سے بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔

دلی سلطنت اور مغل دور کے مسلمان صوفی اور شاعروں نے ہولی سے متعلق بڑی دلچسپ تخلیقات کی ہیں۔

بابا بلے شاہ نے لکھا ہے۔۔۔

ہوری کھیلوں گی، کہ بسم اللہ

نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی اللہ اللہ

مغل دور میں ہولی کو عید گلابی یا آب پالشی کہتے تھے اور اس تہوار کو بڑی ہی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ اگر آپ گوگل پر مغل پینٹنگ اور عید تلاش کریں گے تو آپ کو عید کی نماز ادا کرتے بادشاہ جہانگیر کی صرف ایک پینٹنگ ملے گی۔ لیکن اگر آپ مغل اور ہولی گوگل پر تلاش کریں گے تو آپ کو اس دور کے بادشاہوں اور ان کی ملکاؤں کی تمام پینٹنگز دیکھنے کو ملیں گی۔ نوابوں اور ان کی بیگمات کی تصاویر بھی مل جایں گی۔ پوری مغل بادشاہت کے دوران ہولی کا تہوار بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا۔ اس دن دربار بھی خوب سجایا جاتا تھا۔

دلی کے لال قلعے میں میلہ لگتا تھا۔ ایک دوسرے کو رنگ لگایا جاتا تھا اور گیت گائے جاتے تھے۔ شہزادے اور شہزادیاں اس منظر کا قلعے سے لطف اٹھایا کرتے تھے۔ رات کے وقت ایک اور جشن کا انتظام ہوتا تھا جس میں ناچنے اور گانے والے حصہ لیتے تھے۔ نواب محمد شاہ رنگیلا کی لال قلعے کے رنگ محل میں ہولی کھیلتے ہوئے مشہور پینٹنگ بھی موجود ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ نظیر اکبرآبادی کے علاوہ کسی اور نے ہولی کو اتنے خوبصورت انداز میں بیان نہیں کیا ہے۔

جب پھاگن رنگ برستے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

اور دف کے شور کھڑکتے ہوں، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

تاریخ ہندوستانی میں منشی ذکا اللہ کے بقول ’کون کہتا ہے کہ ہولی ہندوؤں کا تہوار ہے‘ہولی ایک خوبصورت تہوار ہے۔ اتنا خوبصورت کہ تاریخ گواہ ہے کہ اسے ہندو اور مسلمان مل کر مناتے رہے ہیں۔

آئیے ہولی کا لطف اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp