یہ آگ آشیانہ جلا دے گی۔۔۔


بچپن میں ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانا محاورہ سنا تھا مگر جب اندرون لاہور کی تنگ گلیوں میں ایک عرصے کے بعد جانا ہوا تو قدیم مکانات کے درمیان کم و پیش ہر گلی میں نو تعمیر شدہ وسیع مساجد کے بلند مینار اور پختہ ٹائلوں کے درمیان جامعہ رضویہ، قاسمیہ اور قادسیہ سے ملتے جلتے نام نظر آئے۔ کسی مسجد کے باہر بعد نماز عصر تبلیغی حضرات گشت کرتے دکھائی دیے تو کسی گنبد سے نماز سے پہلے صلوۃ کی صدا بلند ہوئی. ہر مسلک کی اپنی مسجد ہے اور مذہب کے ٹھیکداروں کے ساتھ اب مساجد کے مینار بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے ہیں۔

ذرا نظر دوڑائی تو معلوم ہوا پورے شہر کی یہی صورت حال ہے کبھی کوئی دوسرے مسلک کی مسجد میں نہیں جاتا کہ مبادا مولوی صاحب قضا نماز پڑھنے کا حکم نہ دے دیں۔ ہاں اکثر یہ شکایات سننے میں ضرور آتی ہیں کہ بوقت نماز اُس شریر نے اونچی آواز میں آمین کہا یا پھر رائے ونڈ سے نکلی کسی جماعت جو “اللہ کی راہ میں” نکلی تھی پر اللہ کے گھر کے دروازے بند کر دیے گئے۔ بھلے وقتوں میں علما محرم الحرام میں زیادہ سے زیادہ حق چار یار کا ورد کر لیا کرتے تھے، میلاد کی فضلیت یا اس کے رد میں دلائل دے لیتے تھے یا مسئلہ خلف الامام اور آٹھ تراویح یا بیس تراویح کے دلائل سے دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے تھے۔ دینی حمیت زیادہ جوش مارتی تو مناظروں و مباہلوں سے کام چلا لیتے تھے۔

علما سے مسالک کی باہمی لڑائیوں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بات کی جاتی تو عموماً فقہی اختلاف قرار دے کر بات بدل لیتے تھے۔ اور کچھ تو اس اختلاف کو بھی امت کا حُسن قرار دے کر بولتی بند کردیا کرتے تھے۔ مگر 1953 کے بعد بات احمدیوں کو سبق سکھانے سے شروع ہوئی۔ پھر افغان جہاد کی برکت سے خیلجی ممالک سے موحدین کی مساجد و مدرسوں کیلئے درہم و دینار کے ساتھ امپورٹ شدہ کفر کے فتووں کی توثیق ہوئی اور اہل تشیع گستاخ کے زمرے میں شمار ہونے لگے قتل عام کے ساتھ گلی گلی کافر و گستاخ کا کھیل شروع ہوا۔ ۔ اس کے جواب میں برادر پڑوسی ملک میں انقلاب کے توسط گستاخ اہل بیت کی اصطلاح ہمارے کانوں میں گونجی نتیجتاً منبر و محراب لہو میں نہا گئے۔

 تین دہائیوں تک یہ سلسہ چلا اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اہل تشیع عالم سب ہی حسب توفیق ایک دوسرے کی معتبر کتب سے مخالف فریق کو گستاخ ثابت کرتے رہے اور اس دوران ہزاروں معصوم پاکستانی کافر و گستاخ قرار دے کر قتل کیے گئے۔ موجودہ وقت میں نیشنل ایکش پلان کی برکت اور سی ٹی ڈی کے کمالات دیکھنے کے بعد اہل تشیع تو سر بکف و سربلند علما کے بھائی بندے بن گئے اور بنجر زمیں پر پیغام پاکستان کی کونپل بھی پھوٹی۔

مگر پھر چار جنوری 2011 کا وہ منحوس دن آیا جب سلمان تاثیر مرحوم کو ایک بے قصور عورت کی دادرسی کرنے پر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ اور مذہب کے ٹھیکداروں کو ممتاز قادری کی صورت میں پہلے “غازی” اور پھر “شہید” میسر آ گیا۔ اس پر بھی پہلے دیوبندی و بریلوی حضرات دونوں نے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ دیوبندی حضرات نے اسے مولانا احمد علی لاہوری کے خانوادے کا شاگرد بتایا مگر جیت تحریک لبیک کے بریلوی علماء کی ہوئی اور پھر اس جیت نے پاکستانی معاشرے کا رنگ و روپ بدل کر رکھ دیا۔

قوم نے دیوبندی و سلفی جماعتوں کی انتہاپسندی کے بعد تحریک لبیک کی شکل میں انتہا پسندی کا ایک نیا چہرہ دیکھا جس میں ہر وہ شخص جو ان کی سوچ سے مطابقت نہ رکھتا تھا اسے اسلام دشمن اور گستاخ قرار دیا گیا۔ دین کے نام پر دھرنے ہوئے اور دھرنوں میں غلیظ گالیاں دی گئیں اور پھر گالیاں دینے کا جواز بھی دین سے ہی پیش کیا گیا۔ اس طوفان بدتمیزی کی زد میں وقت کے سالار اعلیٰ بھی آئے اور منصف وقت بھی۔ ۔ پھر طوفان کے ساتھ بجلی گرنا شروع ہوئی۔ سات مئی 2014 کو الزام توہین رسالت کے مقدمے کی پیروی کرنے والے سنئیر ایڈوکیٹ راشد رحمان کو ملتان میں نامعلوم افراد نےقتل کیا

چوبیس اگست 2017 کو چنیوٹ کے نواحی قصبے کی مسجد میں موجود تبلیغی جماعت کے بزرگ کو توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر دو بھائیوں نے مارڈالا۔ 13 اپریل 2017 کر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کا نوجوان طالب علم میں مشال خان اسی الزام کی زد میں آیا اور بدبخت ہجوم کے ہاتھوں بھری جامعہ میں نہ صرف قتل ہوا بلکہ لاش کا مثلہ بھی کیا گیا اور اب بہاولپور میں پروفیسر خالد حمید کو ویلکم پارٹی منعقد کرنے پر توہین مذہب کا الزام لگا کر ناخلف شاگرد نے مار ڈالا۔ اور اطمینان کے ساتھ گرفتاری پیش کرکے فخریہ انداز میں اقرار جرم بھی کرلیا۔ مذہب کے ٹھیکداروں کو ایک اور غازی مل گیا۔

مجرم خطیب حسین کو اس کے کیے کی سخت سزا مل بھی جائے تو انہیں اس کے جسد خاکی کی صورت میں شہید مل جائے گا اور اس کی قبر سے خوشبو آنے لگے گی۔ نام نہاد بزرگ نجی محفلوں میں اس کے خواب بیان کریں گے اور جنت میں میوے کھانے کی نوید سنائیں گے۔ پھر اس کے بعد کسی دوسرے شہر میں کوئی اور انسان توہین مذہب کے نام پر ناحق قتل کیا جائے گا۔ اور پھر کوئی اور۔ اگر اس ناسور کو ختم کرنا ہے تو اس کی جڑ تک پہنچنا ہوگا۔

قصوروار خطیب حسین نہیں بلکہ وہ وہ نیم خواندہ ملاُ و خطیب ہیں جو اپنی دکانداری چمکانے کیلئے یہ آگ بھڑکاتے ہیں۔ سادہ لوح نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور معاشرے کو اپنی جاہلانہ سوچ کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ ہم اس وقت ایک نئی قسم کی قتل و غارت دیکھ رہے ہیں جس کا نشانہ ملک کا باشعور طبقہ ہے وہ طبقہ جو مشعال خان اور پروفیسر خالد حمید کی صورت میں ہمارے جمود شدہ ذہنوں کو علم کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے۔

آج اگر ان خطیبوں و ملاؤں پر گرفت نہ کی گئی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ آگ دریا کا روپ دھار لے گی۔ آج ہمیں مارا جا رہا ہے تو کل انہیں گستاخ قرار کرمارا جائے گا جن کی داڑھیاں سینے سے بھی لمبی ہوتی ہیں اور جو بلند آواز میں آمین کہتے ہیں۔ کل کو معاف انہیں بھی نہیں کیا جائے گا جن پر الزام ہے کہ ان کے مسلک میں کوا حلال ہے اور جو سفید اور دھاری دار کسلے امامے کثرت سے پہنتے ہیں۔ اور جواب میں پھر مشرک کہہ کر مزاروں پر جانے والے زائرین پر حملے کیے جائیں گے جن کے پاس سٹریٹ پاور ہے ۔

وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔ حکومت وقت نے اگر ان پرجوش خطیبوں و ملاوں کو گرفت میں نہ لیا۔ اس آگ کو نہ بجھایا تو یہ آگ آشیانہ جلا دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).