سینیٹ انتخابات‘ جہلم سے آگے دینہ ہے


ہمیں جمہوریت پسند ہے مگر اس کی خرابیاں نہیں۔ ہم اس کیلئے راہیں متعین کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ اپنا رستہ خود بنانے پر بضد ہے۔ گائیڈڈ جمہوریت اس کے خمیر میں نہیں اور آزاد جمہوریت ہمیں قبول نہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ سینیٹ انتخابات میں کوئی بڑا اَپ سیٹ ہو مگر اس نظام کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کے پاس کسی بھی تبدیلی کیلئے خواہشات، ضروریات، ہدایات یا احکامات کی بجائے فقط ایک ہی گھسا پٹا طریقہ ہے، یعنی اکثریت کی مرضی بذریعہ ووٹ کی پرچی۔

سات عشروں پر پھیلی ملکی تاریخ میں ہمیں اپنی خواہشات نے چین سے جینے دیا ہے، نہ جمہوریت کا بیمار چلن تبدیل ہوا ہے۔ بڑے کشتے آزمائے۔ صدارتی نظام، مارشلائی تڑکے، نیکوکاروںکی مجلس شوریٰ، غیر جماعتی معجون، آئینی ترامیم کے وٹامنز اور نجانے کیا کیا، مگر جب بھی اسے موقع ملا، یہ نظام ہمارے تمام تر غیر فطری نسخہ ہائے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی حقیقی فطرت پر اتر آیا۔ ستر برس میں جمہوریت ہمارے عوارض سجھ پائی نہ ہم اس کی بیماریاں۔ وہ ہمارا علاج کر پائی نہ ہم اس کا۔ ہمارا اس کے ساتھ تعلق امجد اسلام امجدؔکے محبوب جیسا رہا ہے کہ:

کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

پارلیمنٹ کے ایوان بالاکی 52 خالی سیٹوں کیلئے منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات میں ہارس ٹریڈینگ کا بڑا غوغا تھا (یہ اسلوب بھی ہم ہی نے جمہوریت کو سکھایا ہے) خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں یہ اسلوب استعمال بھی ہوا۔ ووٹرز پر ہدایات اور دبائوکے بارے میں بھی کافی کچھ سنا گیا؛ تاہم کسی بڑے اَپ سیٹ کا خواب، خواب ہی رہا اور (ن) لیگ سینیٹ کی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔

اگرچہ ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں اس جماعت کے امیدوار آزاد قرارپائے تھے مگر زمینی حقائق یہ ہیںکہ (ن) لیگ15 سیٹیں حاصل کر کے 33 نشستوںکے ساتھ اب سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ پی پی پی اپنی 20 نشستوں کے ساتھ دوسری اور پی ٹی آئی 12 نشستوں کے ساتھ تیسری پوزیشن پر ہے۔ ایم کیو ایم، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے پاس پانچ پانچ نشستیں ہیں۔ جے یو آئی کی اب چار، جماعت اسلامی کی دو اور اے این پی، بی این پی مینگل اور مسلم لیگ فنکشنل کی ایوان بالا میں ایک ایک نشست ہے جبکہ بلوچستان اور فاٹا کے آزاد ارکان کی مجموعی تعداد 15 ہو گئی ہے۔

اگرچہ سینیٹ کے انتخابات میں کوئی بڑا اَپ سیٹ تونہ ہو سکا؛ تاہم پیپلز پارٹی سندھ اور خیبرپختونخوا میںغیر متوقع طور پر بارہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ سندھ میں پی پی پی نے دس سیٹیں جیت لیں مگر ایم کیو ایم کو سخت دھچکے کا سامناکرنا پڑا، جو صرف ایک سیٹ حاصل کر سکی۔ سندھ اسمبلی میں اس جماعت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہے مگر اسے اندرونی خلفشار اور بحران کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں کامیاب رہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں اپنا روایتی وجود برقرار نہ رکھ سکے۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ناراض اراکین نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ اکثریت کی حامل یہ حکمران جماعت اس صوبائی اسمبلی میں سینیٹ کی پانچ، (ن) لیگ دو اور غیر متوقع طور پر پی پی پی دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کو پڑنے والے 12 اضافی ووٹ اراکین تحریک انصاف کے تھے۔ یہ نتیجہ بھی اخذکیا گیا ہے کہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر اعظم سواتی کو پی ٹی آئی کے جتنے ووٹ پڑے، دوسری ترجیح میں ان اراکین نے اپنے ووٹ مولانا سمیع الحق کی بجائے (ن) لیگ کے دلاورخان کے حق میں ڈالے۔

اگر یہاں سے پی ٹی آئی کو غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس کے پیچھے اس کے اراکین کی ناراضی کے علاوہ جوڑ توڑ اور لین دین کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان اسمبلی میں (ن) لیگ کو اپنی حکومت گرنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ یہاں سے ایک سیٹ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یہ اس منصوبے کی ایک کامیابی قرار دی جا سکتی ہے، جو (ن) لیگ کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لئے شروع کیا گیا۔

اس کارخیر میں خود (ن) لیگ کے اراکین اور اصحاب ق نے حصہ لیا تھا اور اسی اتحاد نے 6 سیٹیں جیتیں جبکہ نیشنل پارٹی اور پی کے میپ کو دو، دو اور ایک سیٹ پر جے یو آئی (ف) کو کامیابی ملی۔ جمعیت علمائے اسلام کے تین اراکین اسمبلی پر بھی پارٹی ہدایات سے انحراف کرنے کا الزام ہے۔ پنجاب اسمبلی میں نتائج حسب توقع رہے اور سینیٹ کی 12 میں سے 11 نشستیں (ن) لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں نے جیت لیں۔

تحریک انصاف کے چوہدری سرورکی کامیابی (ن) لیگ کیلئے اَپ سیٹ ضرور ہے؛ تاہم یہ ان کی ذاتی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی پرانی جماعت میں اپنا اثر و رسوخ کیش کرانے میں کامیاب رہے۔ قومی اسمبلی میں ہونے والی پولنگ کے نتائج میں وفاقی دارالحکومت کی دونوں نشستیں (ن) لیگ نے جیت لیں جبکہ فاٹاکی چار نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والے آزاد امیدواروں میں سے دو (ن) لیگ اور دو پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ قرار دیئے جا رہے ہیں۔

سینیٹ کے انتخابی نتائج کے اس سرسری سے جائزے کی روشنی میں واضح ہے کہ ہر جماعت میں تھوڑی یا زیادہ ٹوٹ پھوٹ ضرور ہوئی۔ البتہ تمام تر دبائو اور لالچ کے باوجود سیاسی جماعتوں کے اراکین کی اکثریت اپنے قائدین کی قیادت میں متحد ہے اور انہوں نے اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے۔ خصوصاً پنجاب میں (ن) لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی واضح کامیابی گواہ ہے کہ ہنوز ان جماعتوں کی گرفت اپنے اپنے اکثریتی صوبوں میں مضبوط ہے اور ان پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع نہیں ہو سکا؛ تاہم ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو متوقع نتائج نہ ملنا ان کیلئے لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ اگر ان انتخابات کو جمہوریت کی فتح کہا جا رہا ہے تو یہ کچھ ایساغلط بھی نہیں۔

یقینا ایون بالا کے ان انتخابات سے جمہوریت کو استحکام ملا ہے اور عام انتخابات کے انعقاد کی راہ میں چھائی سموگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ درست ہے کہ ہمارے ہاں ابھی جمہوری رویے پختہ ہوئے ہیں نہ جمہوری روایات صحیح طریقے سے پنپ سکی ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح ڈیلورکرنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا؛ تاہم اگر ماضی کے تناظر میں اپنی سوچ کو تھوڑا مثبت زاویے پر موڑا جائے توکھلتا ہے کرپٹ اور بے ایمان سیاستدانوں میں جمہوریت کے حوالے سے تھوڑا بہت شعور ضرور آ گیا ہے اور وہ اب جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی کسی بھی سعی کے آگے ڈٹ جانے کا کچھ حوصلہ ضرور رکھتے ہیں۔

ثبوت زیرِ نظر ہے کہ بحرانی کیفیت کی بدترین حالت میں بھی (ن) لیگ کے اراکین نے اپنی قیادت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ورنہ ماضی میں تو سیاستدانوں نے کتنی بار اپنی قیادت سے بغاوت کرکے غیر جمہوری احکام کے آگے لم لیٹ ہونے کی شرمناک مثالیں قائم کی ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ بھی وہ رنگ نہیں دکھا سکی جو ماضی میں اس کا خاصا رہا ہے۔ حسن ظن رکھنا چاہیے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی تمام جماعتیں جمہوری رویے اپنائیں گی۔ باردگر عرض ہے کہ ان گزارشات کا یہ مطلب نہیں کہ اب سیاستدان مکمل باشعور ہو چکے ہیں۔ انہیں ابھی کئی اور دریا عبورکرنے ہیں؛ تاہم یہ نظر آ رہا ہے کہ اگر انہیں آزادی سے کام کرنے دیا گیا تو ملک درست سمت میں پیش قدمی کر سکتا ہے۔

بات خشک اور سنجیدہ ہو گئی ہے۔ ہم ایک تحقیقی سا کالم ”ٹرانسپورٹ کی شاعری‘‘ پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نمونے کے طور پر ایک بس کے پیچھے لکھا گیا پرانا شعر ایڈوانس سنا دیتے ہیں:

یہ جینا بھی کیا جینا ہے
جہلم کے آگے دینہ ہے

ہمارے تمام تر شکووں کا ازالہ اورعوارض کا علاج جمہوریت کے تسلسل میں پنہاں ہے۔ ہمیں جمہوریت کے علاج کی مساعی ترک کر کے اُسے اپنا محرم بنانا ہوگا۔ اب تک کے تجربات سے ہمیں بخوبی علم ہو جانا چاہیے کہ جمہوریت کی گاڑی آگے کی سمت چلتی رہے تو دینہ آتا ہے اور اگر ریورس گیئر میں چل پڑے تو کھاریاں۔ ہمیں دینہ جانا ہے اور یہی اصل جینا ہے۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).