ایک ’’بُرے‘‘ جج کا مثالی فیصلہ


یقین کیجئے، میں کسی جج کے بارے میں توہین آمیز جملہ نہیں لکھ سکتا۔ یہ لفظ کسی اور نے استعمال کیا۔ مگر اُس جج کے مثالی فیصلے پر بات کرنے سے پہلے گزشتہ کالم کا ذکر کروں گا جِس میں امریکی صدر کے اختیارات کا جائزہ لیا تھا۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ امریکی نظام کے حوالے سے پاکستان میں طرزِ حکمرانی کی خرابیوں کو جواز فراہم کیا جائے۔

پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے۔ اُس کا امریکی صدارتی نظام سے تعلق نہیں۔ ہر ملک کا اپنا آئینی انتظام، اداروں کی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے۔ حیرت ہوئی کہ امریکی نظامِ حکومت کے ذکر پر ایک بزرگ بلاوجہ معترض ہوئے۔ تعجب ہوا کہ اختلاف رائے کرنے والوں کی نیت پر شک کی سیاہی پھینکی اور اُنہیں حواری، خوشامدی اور چمک کے اسیر قرار دیا۔ بہتر ہے کہ قلم یہیں روک لوں۔ اُن کا نامناسب رویہ میرے لئے کسی طور بھی قابلِ تقلید نہیں۔

امریکی نظامِ جمہوریت بہت منفرد ہے۔ اِس بارے چند ذاتی تجربات، قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ 2009ء سے 2012ء تک راقم نے وفاقی حکومت میں سیکرٹری تجارت کی ذمہ داری نبھائی۔ اِس دوران دو اہم امریکی عہدیداروں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ایک امریکی کابینہ کے رُکن Ron Kirk تھے اور دُوسرے مائیکل پنک (Michael Punk)،عالمی تجارت کے نگران ادارے W.T.O میں امریکہ کے سفیر۔ اِن اہم عہدوں پر تقرری کی سفارش صدر اوباما نے کی تھی اور کانگریس کی منظوری کے بعد اِن دونوں کو یہ عہدے تفویض ہوئے۔

اِن سے ملاقات کے بعد احساس ہوا کہ دونوں کا علم محدود اور اُن کو دی گئی ذمہ داری کے حوالے سے ناکافی ہے۔ تحقیق پر پتا چلا کہ رون کرک (Ron Kirk) ڈیمو کریٹک پارٹی کے سیاستدان تھے۔ قانون کی ڈگری لینے کے بعد، معاوضے پر ایک انرجی کمپنی کے کاروباری مفادات کو پروان چڑھاتے رہے۔ ایسے شخص کو امریکی نظامِ حکومت میں لابسٹ (Lobbyist) کہتے ہیں۔ پھر اُنہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور Texas کے میئر منتخب ہوئے۔ 1995ء سے 2002ء تک اِس سیاسی عہدے پر فائز رہے۔

سیاہ فام تھے اور صدر اوباما کی الیکشن مہم میں پیش پیش۔ اوباما، صدر بنے تو اُنہیں بین الاقوامی تجارتی معاہدے کرنے کی ذمہ داری ملی۔ تجارتی معاہدوں کے اسرار و رموز بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ اِس قسم کی سودا کاری کی مہارت بہت دیر بعد حاصل ہوتی ہے۔ اُنہیں اِس تکنیکی کام سے کبھی واسطہ نہ رہا تھا۔ اپنی ناتجربہ کاری اور کم علمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ امریکی آئین کے مطابق، کابینہ صرف پندرہ اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ اِن گنے چُنے پندرہ لوگوں میں سے ایک، ناموزوں رُکن سے مل کر مایوسی ہوئی۔ رون کرک اِس عہدے پر چار سال گزارنے کے بعد، ازخود مستعفی ہو گئے۔

دوسرے صاحب مائیکل پنک (Michael Punk) سے جنیوا میں ملاقات ہوئی۔ اِس ملاقات کے پس منظر میں 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاری اور ازالے کے لئے یورپین یونین کی طرف سے تجارتی رعایت کی پیشکش تھی۔ اِس رعایت کی منظوری W.T.O سے لینا ضروری تھی۔ اِس ضمن میں W.T.O کے لئے مقرر کردہ اہم ممالک کے سفیروں سے ملاقات کی۔ مائیکل پنک امریکہ کے سفیر تھے۔ دوپہر کے کھانے پر اُنہوں نے ازخود مجھے بتایا کہ وہ پہلے اسکول میں بائیولوجی کے اُستاد تھے۔ پھر اُنہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور ایک امریکی سینیٹر کے امدادی اسٹاف میں شامل رہے۔

صدر اوباما کی الیکشن مہم میں شریک ہوئے اور صدارت ملنے پر اوباما نے اُنہیں W.T.O میں سفیر کی ذمہ داری سونپ دی۔ W.T.O کے تکنیکی معاملات میں وہ تقریباً لاعلم تھے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ اُن کا اصل شوق ناول لکھنا ہے۔ یہ 2010ء کی بات ہے۔ وہ اُن دنوں اپنے ناول پر فلم بنانے کے لئے ہالی وڈ میں کسی ادارے کو حقوق بیچ رہے تھے۔ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ 2016ء میں اُن کے ناول پر بنائی گئی فلم Revenant کو آسکر ایوارڈ ملا۔

واشنگٹن میں ایک پاکستانی سفارت کار سے ایسی تقرریوں کے بارے میں بات ہوئی تو وہ ہنسنے لگے۔ اُنہوں نے ایک اور قصہ سُنایا۔ امریکی کابینہ کے ایک اور وزیر آرنی ڈنکن (Arne Duncan) امریکی باسکٹ بال ٹیم کے رُکن اور پیشہ ور کھلاڑی تھے۔ صدر اوباما اُن کے ساتھ باسکٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ اوباما، صدر بنے تو اُنہیں مقامی اسکولوں کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے اُٹھا کر وزیرِ تعلیم بنا دیا۔ کانگریس سے تعیناتی کی منظوری تو مل گئی مگر اُن کی شخصیت متنازع رہی۔ 2015ء کے دوران امریکہ میں اساتذہ کی سب سے بڑی تنظیم کے احتجاج کی بنا پر اُنہیں استعفیٰ دینا پڑا۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے کی گئی تقرریوں کا ذکر کروں تو بہت سی ہوش رُبا داستانیں سامنے آئیں گی۔ اِس تحریر کا مقصد امریکی جمہوریت میں کیڑے نکالنا نہیں صرف قارئین کو دُنیا کے مختلف نظامِ حکومت اور طرزِ سیاست سے رُوشنا س کرانا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ جمہوری ملک میں بھی سیاسی قیادت دُدوھ سے دُھلی نہیں ہوتی۔

اب اُس ’’بُرے‘‘ امریکی جج کا ذکر جس کا نام گونزیلو کریل (Gonzalo Curiel) ہے۔ 2016ء کے دوران اُن کی عدالت میں صدر ٹرمپ کی ملکیتی یونیورسٹی کے خلاف کیس دائر ہوا۔ الزام تھا کہ یونیورسٹی نے پندرہ سو ڈالر داخلہ فیس لے کر ایک سیمینار منعقد کیا۔ مشتہر کیا گیا کہ اِس سیمینار کے دوران ٹرمپ کی ملکیتی جائیدادوں کے راز بتائے جائیں گے۔ مگر یہ راز افشا نہ ہوئے۔ جج گونزیلو کریل نے اِس درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس بات پر گونزیلو کریل کو (A very bad judge) ایک بہت بُرا جج کہا۔ چند ہفتے پہلے اُسی جج نے Mexico کی سرحد پر دیوار بنانے سے متعلق ایک اہم سیاسی مقدمے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کے حق میں دیا۔ اُنہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا۔

Courts are vested with the authority to interpret the law; we possess neither the expertise nor the prerogative to make policy judgement. These decisions are entrusted to our nation’s elected leaders, who can be thrown out of office, if the people disagree with them. It is not our job to protect the people from the consequences of their political choices.

’’عدالتوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ قانون کی تشریح کریں۔ نہ تو ہم پالیسی سازی کے ماہر ہیں اور نہ ہمیں یہ استحقاق حاصل ہے کہ ہم اِس بارے میں فیصلے کریں۔ یہ ہمارے منتخب نمائندوں کے دائرہ کار میں آتا ہے اور اگر رائے دہندگان کو اُن سے اختلاف ہو گا تو اُنہیں (بذریعہ الیکشن ) عہدوں سے ہٹا یا جا سکتا ہے۔‘‘ اِس کے بعد جج صاحب نے جمہوریت کے حوالے سے ایک بہت گہری بات لکھی ’’یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم عوام کو (چنائو میں) اُن کی سیاسی پسند کے مضمرات سے محفوظ رکھیں۔‘‘

اِس فیصلے میں جس طرح امریکی آئین کی جمہوری روح کو تحفظ دیا گیا، اُسے بہت شہرت ملی۔ کسی جج کااپنے اختیارات بارے اِس قسم کے ضبط کا مظاہرہ قابلِ تعریف ٹھہرا۔ یہی وجہ تھی کہ نیو یارک ٹائمز نے، 2 مارچ 2018ء کو اِس مثالی فیصلے پر اداریہ لکھ کر جج کے نظریات کی تعریف کی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood