ملاؤں نے ہمارے ہیروز کو بدعتی بنا کے کیوں پیش کیا؟


ان وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جن کی بنا پہ ہمارے متعصب ملائیت کے نظام نے ابتدا سے اب تک اسلام کے”روشن معتدل”راستے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

وہ لوگ جو سائنس اور منطق پہ سوچتے رہے وہ بہت سے ایسے سوالات کے ساتھ سامنے آئے جن کا جواب ابتدا میں نہیں دیا جا سکا تھا۔ اسلام کے سنہرے دور کا زوال عقلیت پر عقیدے کی فوقیت کی وجہ سے ہوا۔ جیسے عقل اور عقیدے کے فرق کو نہیں سمجھا گیا۔ اسی وجہ سے مسلم عرب دنیا جس وقت سائنسی طور پہ خوابیدہ تھی وہی وقت عیسائی دنیا کی سائنسی بیداری کا تھا۔ اسلام کے زوال کے اسباب میں طرفین کی تباہی کا موجب جنگیں، لڑائیاں اور عقلیت پسندی کا خاتمہ ہے۔ اس بات پہ اکثر بحث کی جاتی ہے کہ مسلمان دنیا کی آبادی کا 6۔ 19٪یعنی 2 بلین ہونے کے باوجود صرف تین نوبل پرائز حاصل کر سکے۔ جبکہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف 2۔ 0٪یعنی 1۔ 14٪ملین ہونے کے باوجود سائنس، معاشیات، طب اور ادب کے میدان 122نوبل پرائز حاصل کر چکے ہیں۔

اسلام کے گم گشتہ سنہرے دور کو تعلیمی خلا کے پس منظر کو فراموش کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ قابل بھروسہ جنرلائزیشن کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت کے نمایاں ملاوں نے بنا سوچے سمجھے ایسے بیانات دیے جو عقلیت کے راستے کو بند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ”مسلمان اپنے زوال کی وجوہات کے علم کے بغیر محض مطالعہ کے کلچر کو فروغ دے کر اپنی گمشدہ عظمت کو حاصل کر سکتے ہیں۔” ہر کوئی کھوئی ہوئی عظمت کا رونا روتے نظر آتا ہے۔ لیکن اس زوال کی وجوہات پر شاذ ہی بات کی جاتی ہے۔ عقلیت پسندی اسلام کے سنہرے دور میں مسلمان مفکرین کا لازمی رحجان تھا؛ یہ ان تصورات سے متعلق رواداری تھی جس میں اسلام کے سنہری دور نے ترقی کی۔ اس وقت مفکرین کسی طے شدہ عقیدے یا ایمان کے نظام جو کہ انہیں موروثی ملا تھا کی نسبت اپنے شعور و عقل پہ زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔ قرآن کے حکم کہ علم حاصل کرو اور قدیم یونانی علم سے بھرپور مسلمانوں نے قرون وسطٰی میں ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جو دنیا کے لیےسائنسی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں سب نے علم اور سوچنے کی ترویج میں اپنا اپنا حصہ ڈالا جو کہ 500 سال تک قائم رہا یہ یونان سے ایران تک پھیلا ہوا تھا۔

مسلمان خلا سے نہیں ابھرے؛ انہوں نے یونانی، زرتشت اور مصریوں کی روحانی اور تہذیبی اقدارکو اپنی اقدار میں شامل کیا۔ یہ ان اقدار کا مجموعہ تھا جس نے نشاۃ ثانیہ کے دور کو ابتدا سے پروان چڑھا۔ مسلمانوں نے یونانی سائنس، ادب اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ ایران کی فتح کے ساتھ، بازنطینی اور ساسانی جڑواں شہروں کی تہذیب عرب افواج کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس تہذیب کو جلانے کی بجائے انہوں نے اس خزانے کو اپنی حکومت کی اہم بنیاد بنا لیا۔ 633 میں خسرو کا پوتا بازید گرد تخت نشین ہوا۔ اور اسی سال عربوں کے پہلے منظم گروہ نے ایرانی سلطنت پہ پہلا حملہ کیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یونانی۔ روم تہذیب کا آغاز تھا لیکن ایرانی تہذیب اس سے کہیں زیادہ قدیم اور یونانی تہذیب سے کہیں زیادہ زرخیز تھی۔ ایرانی تہذیب کا پوری دنیا کی تاریخی اور ثقافتی ترقی میں کافی بڑاحصہ ہے۔ عربوں نے مشرقی تہذیب کواپنی اقدار کے ساتھ شامل کرنےکی وجہ سے اشرافیہ کے روشن حصے کو باہر نکال دیا جو اس دور کی ترقی کا باعث تھا۔ سعدی کی دانائی بغیر کسی پس منظر کے وجود میں نہیں آئی بلکہ یہ ہزاروں سال کی یونانی زرخیز ثقافت جو عقلیت پسندی اور منطق پر مبنی سوچ پر مشتعمل تھی جس کی وجہ سے علم کے نئے راستے دریافت ہوئے۔ سعدی یہ کہنے پہ مجبور ہو گیا :

”ابن آدم ایک دوسرے کے جزو بدن کی طرح ہیں جو ایک ہی بنیاد سے بنے ہیں۔ اگر ایک عضو کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو دوسرے اعضا آرام سے نہیں رہ سکتے۔ ”

یہ ممکن ہے کہ روشن اور عقائد سے آزاد ذہن سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئی سرحدوں کو بہتر سمجھ سکتے ہوں کیونکہ ایک تنگ ذہن کی ترقی کٹر عقیدے کی حدود سے جکڑے ہونے کی وجہ سے آزاد تحقیق سے محروم ہوتی ہے۔ بلاشبہ اگر نوبل پرائز چودہ سو سال پہلے ہوتے تو مسلمان بہت بڑی تعداد میں انہیں حاصل کر چکے ہوتے۔ اسلام نے سائنس کے میدان میں 790-850میں خوارزمی، 800-860 میں جواہری، 805-873 میں الکندی، 870-950 میں فارابی، 953-1029 میں کاراجی، 965-1039 میں ہیثم، 970-1036 میں منصور، 980-1037 میں ابوسینا، 973-1048 میں بیرونی، 1048-1122 میں خیام کی صورت میں حصہ ڈالا۔

یہ بہت دل شکن بات ہے کہ مسلم عرب جنہوں نے ابتدا میں یونانیوں اور ہندوں پر الجبرا میں برتری حاصل کی ان میں خوارزمی (نویں صدی میں۔ جس کے نام سے لفظ الوگرتھم شروع ہوا اور اس کی کتاب جبر والمغبلہ یعنی توازن و بحالی ہے اور اس کے پہلے لفظ جو عنوان میں ہے سے ہمارے پاس الجبرا کا لفظ ہے)، ابن رشد، ابن حیان، ابن الہیثم اور دیگر افراد کو سائنس اورطب کے میدان میں کوئی انعامات نہیں ملے۔ 735 سے 1300 تک ادب سائنس اور فلسفے کے میدانوں میں بلاشبہ اسلام کے اثر کا غلبہ تھا۔

یہ فلسفیوں اور مفکرین کی وسیع درجہ بندی ہے جو قرون وسطیٰ کے اسلامی فاتحیں کے نام زندہ ہونے کا باعث ہے۔ روایتی طور پہ اسلام سائنس اور علم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کیونکہ جزیرہ نما عرب کے فاتحین عقائد میں دھنسے ہوئے نہیں تھے؛ ان کے ذہن صاف سلیٹ کی مانند تھے، وہ اپنے عقائد کے نظام سے آزاد تھے، ان فاتحین نے مفکرین کی ایک نئی نسل کو پروان چڑھایا۔ شاعر الرازی اور المعاری نئے عقلیت پسندوں کے طور پہ سامنے آئے۔ اتنے روشن ذہن علم کے خلا اور آزاد سوچ کی کمی کے دور میں پیدا نہیں ہو سکے جتنے اس دور میں پیدا ہوئے۔ یہ تہذیبوں کا اشتراک تھا جس نے عوام کو ثقافتی اور علم کے لحاظ سے اتنا زرخیز کیا۔ یہ سب مفکرین اپنے ماضی کے لیے یونانی، زرتشت اور تینوں الہامی مذاہب کے مقروض ہیں۔ بعد میں یہ اسی دوغلی نسل اور کیژالجہتی علم کا مغربی یورپ میں دخول تھا جس کی وجہ سے”نشاہ ثانیہ” اور سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی۔ جدید دنیا کے واقعات اسلام کی زرخیز دانشوری کی تاریخ کو جھٹلاتے ہیں؛ یہ زرخیز دانش کی تاریخ اپنی ابتدا کے لیے تصورات کے باہم ملنے اور تین عظیم تہذیبوں یونانی، زرتشت اور الہامی مذاہب کی مرہوں منت ہے۔ صحرائے عرب کے حملہ آور جو عقیدےکی پابندیوں اور پہلے سے طے شدہ تصورات سے مبرا تھے انہوں نے تینوں الہامی مذاہب عیسائیت۔ یہودیت اور اسلام کی سچائیوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے نیچے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4