اٹھارہویں ترمیم اور شیخ مجیب کے چھے نکات


باجوہ ڈاکٹرائن سے منسوب کرتے ہوے بعض صحافیوں کی طرف سے رپورٹ کیا گیا کہ اٹھارہویں ترمیم نے ملک کو فیڈریشن سے کنفڈریشن میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ کہ اٹھارہویں ترمیم شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اٹھارہویں ترمیم پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر منظور ہوئی جس کے ذریعے آئین میں موجود کل 280 آرٹیکلز میں سے 102 آرٹیکلز میں ترامیم کی گئیں۔ اس کے نتیجہ میں مجموعی طور پر 36 فیصد آئین تبدیل ہوا۔ زیادہ تر تبدیلیاں جمہوری سفر کے تسلسل میں رکاوٹ ڈالنے اور سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والی دفعات کے خاتمے اور تبدیلی کی صورت میں سامنے آئیں۔

صدر کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا، الیکشن سے قبل حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق سے عبوری حکومت کا قیام شامل کیا گیا۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور چئیرمین نیب کی تقرری کے لیے حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ضروری قرار دیا گیا۔ اعلی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا (قبل ازیں یہ اختیار عملاً چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس تصور کیا جاتا تھا)۔ جوڈیشل کمیشن کی طرف سےججوں کی تعیناتی کے لیے کی جانے والی سفارشات کو پرکھنے اور منظوری دینے کے لیے کثیرالجماعتی پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ آئین توڑنے میں کسی طالع آزما یا آمر کی اعانت کرنے والا بھی برابر کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخواہ رکھا گیا۔

یہ سب تبدیلیاں ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھ کر کی گئیں۔ چونکہ یہ ترامیم واضح طور پر جمہوری اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ہیں اس لیے ان تبدیلیوں کی مخالفت کرنے کے خواہشمند بھی ان کی کھل کر مخالفت کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے کی جانے والی سب سے بڑی تبدیلی concurrent legislative list کا خاتمہ ہے۔ جس سے آئین میں موجود صوبوں کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور یہی اضافہ دراصل مختلف حلقوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ concurrent legislative list میں موجود 47 معاملات پر وفاق اور صوبوں دونوں کو قانون سازی کا اختیار حاصل تھا لیکن آئین کی رو سے ان معاملات پر صوبوں اور وفاق کے بنائے ہوے قانون میں اختلاف کی صورت میں وفاق کا بنایا ہوا قانون موثر تصور ہوتا۔

اس طرح ان معاملات پر عملاً وفاق کہ ہی اجارہ داری تھی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے وفاق کو صرف federal legislative list میں شامل معاملات پر ہی قانون سازی کا اختیار ہے اور باقی ماندہ تمام معاملات پر قانون سازی کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔ federal legislative list دو حصوں پر مشتمل ہے جس کے پہلے حصے میں تقریبا 52 معاملات شامل ہیں جن میں دفاع، خارجہ امور، کرنسی، تجارت، بحری و ہوائی آمدو رفت، ڈاک کا نظام، قومی قرضے، انکم ٹیکس (ماسوائے زرعی آمدن)، سیلز ٹیکس (ماسوائے خدمات کی سیل)، جوہری توانائی، عدالتی اختیارات اور وفاقی ٹرائبیونلز کا قیام وغیرہ جیسے معاملات قابل ذکر ہیں۔ ان معاملات پر پارلیمنٹ کو بلا شرکت غیرےقانون سازی کا حق حاصل ہے اور ان قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا بھی وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔

federal legislative list کے دوسرے حصے میں 17 معاملات شام ہیں جن میں ریلوے، قدرتی گیس اور تیل، بجلی، وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کدہ ریگولیٹرز اور اعلی تعلیم کے معیارات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس لسٹ کے دوسرے حصہ میں شامل معاملات پر پالیسی مرتب کرنے اور انہیں regulate کرنے کا اختیار Council for common interest جسے CCI بھی کہا جاتا ہے کے پاس ہے۔ CCI کے چئیرمین وزیراعظم ہیں دیگر ارکین میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور وفاقی حکومت میں سے تین دیگر اراکین کی نامزدگی وزیر اعظم کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کونسل کا ہر 90 دن میں ایک اجلاس ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کسی صوبے کی درخواست پرکسی وقت بھی اجلاس بلایا جا سکتا ہے۔ کونسل میں فیصلے کثرت رائے سے ہوتے ہیں۔ کسی اختلاف کی صورت میں معاملہ پارلیمنٹ کی جوائینٹ سٹنگ میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر پارلیمنٹ کی جوائنٹ سٹنگ ان معاملات پر از خود بھی کوئی قرارداد منظور کرے تو اس پر عملدرآمد CCI پر لازم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو federal legislative list کے دوسرے حصے میں شامل معاملات پر وزرائے اعلی کے CCI میں شامل ہونے کی صورت میں صوبوں کو فیصلہ سازی میں شامل تو ضرور کیا گیا ہے لیکن ان معاملات پر حتمی اختیار بہر حال وفاقی حکومت کے پاس ہی ہے۔

اب ذرا اس سوال کا جائزہ لیا جائے کہ کیا واقعی اٹھارہویں ترمیم نے پاکستان کو کنفڈریشن میں بدل دیا ہے۔ کسی بھی سیاسی سیٹ اپ کو کنفڈریشن قرار دینے کے لیے بنیادی چیز وفاقی اکائیوں (صوبوں) کا اپنی مرضی سے کنفیڈریشن سے الگ ہونے کا اختیار ہے۔ اسی طرح کنفڈریشن میں ہر اکائی sovereign ہوتی ہے۔ کیا اٹھارہویں ترمیم سے صوبے sovereign ہو گئے ہیں۔ کیا ان کے پاس الگ ہونے کا اختیار آگیا ہے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو تعلیم، صحت، سلیبس مرتب کرنے، لیبر ویلفئیر اور EOBI جیسے معاملات صوبوں کے سپرد کرنے سے خطرہ کیوں محسوس کیا جا رہا ہے۔ کیوں اسے شیخ مجیب کے 6 نکات سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ شیخ مجیب کے 6 نکات میں تو صرف و صرف دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دو کرنسیوں کے اجرا اور مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان capital flight روکنے کی بات کی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ تمام ٹیکس صوبے اکٹھے کریں اور طے شدہ حصہ وفاق کو ادا کریں۔ اپنا الگ reserve bank قائم کرنے اور الگ فارن کرنسی ریزرو رکھنے کی بات ہوئی تھی۔ 6 نکات میں تو اپنی الگ پیرا ملٹری فورس اور مشرقی پاکستان میں نیوی کے ہیڈ کواٹر کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم میں تو ایسا دور دور تک کچھ نہیں نہ اٹھارہویں ترمیم پاس کرنے والی جماعتوں کا ایسا کوئی مطالبہ رہا ہے۔ پھر کیوں ہم مختلف چیزوں کو گڈ مڈ کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دیکھیے اب دنیا بدل چکی ہے۔ اب participatory democracy کا زمانہ ہے decentralisation اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہی وفاق کی مضبوطی اور لوگوں کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ آپ اختیارات استعمال ہی نہیں کرنے دیں گے تو لوگ کبھی بھی ان کا استعمال سیکھ نہیں پائیں گے۔ اگر اختیارات کا حق صرف مہارت سے انہیں استعمال کرنے والوں کا ہی ہوتا تو انگریز ان اختیارات کے استعمال میں ہم سے کہیں بہتر تھا لیکن پھر بھی ہم نے ان اختیارات کا حصول ضروری جانا۔ اگر صوبوں کو با اختیار بنانے پر پہلے سنجیدگی سے غور ہوا ہوتا تو شاید فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلانے والا شیخ مجیب کبھی بھی معاملات کو چھ نکات تک لے جانے کے قابل نہ ہوتا۔ آج فکر اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).