شُکریہ اور خدا حافظ صبا محمود!


تعلیمی میدان میں ایک کے بعد کامیابی اور پھر علم و دانش وری کے میدان میں ایک کے بعد قدم کی خبر ملتی رہی۔ امریکا کے کسی جرنل میں چھپے ہوئے مضمون کی فوٹو کاپی بار بار بنوائی جاتی اور ایک سے دوسرے تک پہنچ جاتی۔ ان مقالوں میں وہ نئی منزلیں طے کرتی ہوئی، ذہانت کے ابتدائی نقوش کو گہرا کرتی اور مسلسل آگے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ مگر اب گفتگو اور ملاقات کی جگہ خبر نے حاصل کر لی تھی۔

کامران کے علاوہ کچھ خبر نائلہ محمود کے ذریعے بھی مل جاتی جو اب صبا کی بھابھی تھیں اور انڈس ویلی اسکول میں پڑھانے لگی تھیں۔ اس وقت پتہ چلا کہ صبا محمود اسکول کے زمانے میں میری بیگم کی ہم جماعت بھی رہ چکی ہیں۔ مگر یہ اس ماضی کا ذکر ہے جس کے بارے میں کس کو اندازہ تھا کہ مستقبل کے صفحوں پر کیا عبارت درج ہوگی۔ اور کس زبان میں؟ کسی طرح اگر ممکن ہوتا کہ وہ صفحے ہم دیکھ لیں تو کیا ہم ان پر درج عبارت پڑھ سکتے؟

صبا محمود کی اہم کتاب The Politics of Piety اشاعت کے کئی برس بعد پڑھنے کا موقع ملا جب میرے رفیق کار پروفیسر نعمان نقوی نے اس کتاب کے بارے میں تادیر گفتگو کی اور پھر میرے پڑھنے کے لیے ایک کاپی کا اہتمام کیا۔ کتاب کا نام سنتے ہی اس پورے دور کی تصویر آنکھوں میں کھنچ گئی مگر پڑھا تو اندازہ ہوا، کتاب کا موضوع اس سے زیادہ وسیع تھا۔ کتاب کی بعض باتوں سے اُلجھنے کا جی چاہا تو محسوس ہوا کہ پیچیدہ حوالوں سے مزّین استدلال میں صبا کی وہی آواز آرہی ہے جو اپنی رائے پر پوری وابستگی سے قائم رہتی، شدّت سے قائل ہونے کے باوجود احترام کی حدود کو توڑتی اور نہ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتی۔ اس کے بعد نعمان نقوی صاحب کے ذریعے سے Religious Differenace in a Secular Age: A Minority Report پڑھنے کا موقع ملا اور اس کے بعد صبا محمود سے دوبارہ ملاقات ہوئی، ان خیالات کو تفصیل سے جاننے کا موقع ملا۔ جب ان کا کراچی آنا ہوا اور حبیب یونیورسٹی بھی آئیں۔ ایسا لگتا تھا مکالمہ اتنے عرصے سے چل رہا ہے۔ کلاسیں ختم ہونے کے بعد یونیورسٹی بند ہوئے۔ ایک دن ہوا تھا مگر جتنے طالب علموں کو بلا سکتا تھا بلایا اور صبا محمود سے ایک گفتگو رکھی گئی۔ صبا نےکتاب کے حوالے سے بات کی اور آئندہ منصوبوں کے بارے میں بتایا کہ آئندہ کس نہج پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور تحقیق کے کیا پراجیکٹ تیار کررہی ہیں۔ خیال ہوا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان آجائیں اور یہاں بیٹھ کر یہ تحقیق مکمل کریں۔ ایسی بھرپور ملاقات کے طالب علمی کا پرانا دور یاد آگیا۔

امریکا واپس جانے کے بعد صبا محمود نے مجھے ای میل لکھا جس کا سبجیکٹ یوں تھا  Thanks and Khuda Hafiz!۔ اب یہ الفاظ ایک اور ہی معنی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ’’اس سفر میں تمہارے ساتھ کچھ وقت گزارنا بہت اچھا لگا۔‘‘ انھوں نے لکھا اور شکریے کے ساتھ ان ناولوں، نظموں، کتابوں کے حوالے تھے جن کا گفتگو میں ذکر آیا تھا اور جن کو وہ اپنے اگلے سفر سے پہلے پڑھ لینا چاہتی تھیں۔ اگلا سفر موسم خزاں میں طے پایا تھا۔ مگر اس سے پہلے زندگی میں خزاں آگئی۔

میرے نام آخری ای میل 28 مارچ 2016ء کو لکھا گیا۔ اس میں انھوں نے مصری ناول ’’عزازیل‘‘ کا ذکر کیا ہے اور یہ کہ وہ ادب کے ذریعے سے شیعہ، سنّی فرقوں کے باہمی تعلقات کو سمجھنا چاہتی ہیں۔‘‘ اس سے پہلے کہ یہ سفر ممکن ہو پاتا وہ کسی اور سفر پر نکل کھڑی ہوئیں۔ ان کی آمد کے بجائے ان کی صحت کی خرابی کی خبریں آنے لگیں۔ آہستہ آہستہ امید نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ابھی بہت سی کتابیں پڑھنا باقی تھیں، جانے کن موضوعات پر گفتگو ہونا تھی۔ مگر وہ سب منصوبے ادھورے چھوڑ گئیں اور ان کے سب دوستوں کی طرح میں ان کی کمی محسوس کرتا رہوں گا۔

صبا محمود کے علمی کارناموں پر دانش ور بات کرتے رہیں گے۔ اس حوالے سے یونیورسٹیوں میں تعزیتی اجلاس بھی ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں مضامین بھی سامنے آئے ہیں۔ انگلستان میں مشرق وسطیٰ کے مطالعات پر مرتکز ایک ویب سائٹ نے کسی ذریعے سے مجھ سے رابطہ کیا کہ ان کے حوالے سے کچھ لکھ دیں۔ اسی طرح اور بھی نام سامنے آرہے ہیں۔

لیکن ان کے کام سے واقفیت کا یہ دائرہ پاکستان سے زیادہ تر باہر ہی موجود ہے۔ یہ بات اس لیے اور بھی افسوس کی بات ہے کہ ان کی تحقیق اور بصیرت و انکشاف پاکستان کے لیے بڑی برمحل (relevant) ہیں۔ صبا محمود نے سیکولر ازم کے نئے مفاہیم اور ایک نیا سیاق و سباق قائم کیا جس کو ہمارے ملک میں سمجھے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن خدا جانے کیوں، اس اہم اصطلاح کا ترجمہ لادینیت کرلیا گیا اور اس کا ناتہ دُنیوی فکر کے بجائے زندیق و الحاد سے جوڑ لیا گیا۔ کاش صبا محمود کی کتابیں ہماری یونیورسٹیوں کے تعلیمی نصاب کا حصّہ ہوتیں اور ان پر تفہیم و تعبیر کا ایک سلسلہ قائم ہوتا۔ لیکن میں یہ سوچ کر ڈر جاتا ہوں کہ افکار کو سمجھنے کے بجائے یہ لوگ ذاتی حملے شروع کر دیتے اور فتویٰ عائد کردیتے۔ اب ہمارا یہ قومی شعار بن گیا ہے۔ عقیدے اور نیکوکاروں کی سیاست نے یہ رنگ اختیار کر لیا ہے۔ یہ رنگ دیکھنے کے لیے صبا محمود تو موجود نہیں رہی۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ مگر ہمارے دیکھنے اور پڑھنے کے لیے اپنی کتابیں چھوڑ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2