پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک استاد حامد علی خان سے ایک گفتگو


یہ ذکر ہے ڈیئر بورن، مشی گن (امریکہ) کی ایک یادگار رات کا جب برصغیر کے ایک نامور کلاسیکی موسیقار و گلوکار سُروں کی ادائیگی کا فریضہ عبادت کی طرح ادا کررہے تھے۔ سامعین محفل ہمہ تن گو ش تھے۔ فضا میں سُروں کا فسوں سر چڑھ کر بول رہا تھا اور

لاگی رے توسے لاگے نجر سیاں لاگے

کے خوبصورت بول کی تکرار جاری تھی۔ روح پرور موسیقی کی اس محفل کو سجانے والے فنکار پٹیالہ گھرانے کے وہ فرزند  ہیں کہ جنہیں دنیائے موسیقی میں استاد حامد علی خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ ان چند معدودے فنکاروں میں ہیں کہ جو پٹیالہ گھرانے کی مخصوص کلاسیکی گائیکی سے کم و بیش چار دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ ”گھرانہ“ دراصل موسیقی کی وہ ددرسگاہیں ہیں کہ جہاں کلاسیکی خاص کر ”خیال“ موسیقی نے نمو پائی۔ چند مثالیں آگرہ، جے پور، شام چوراسی اور پٹیالہ گھرانہ ہیں کہ جن کے مخصوص رنگ اور انداز کو ان کی اولادوں اور شاگردوں نے مزید آگے بڑھایا۔

مغل بادشاہوں کے دربار میں ان گھرانوں کو ترویج ملی مگر 1857ءمیں دہلی کے اجڑنے کے بعد ان گائیکوں نے مختلف سمت کے رخ کئے۔ ان میں سے کچھ افراد پٹیالہ ریاست (پنجاب) کی طرف بھی آئے جہاں کے مہاراجہ نے استاد اللہ دتہ کو موسیقی کی مراعات دیں اور خاص کر غزل، ٹھمری اور خیال کو فروغ دیا۔ پٹیالہ گھرانے کی موسیقی کی جڑوں میں راجپوت، مغلوں اور پنجا ب کی ثقافت اور قدیم و جدید روایات کا خوبصورت امتزاج ہے۔

استاد حامد علی خان کا شجرہ نسب اسی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے دادا میاں کالوجی استاد دتہ خان کے بیٹے تھے۔ دادا استاد علی بخش، باپ اختر حسین خاں اور بھائی استاد امانت علی اور فتح علی خاں دنیائے موسیقی کا بڑا نام ہیں۔ 1997ءمیں حامد علی خان صاحب کو تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ ان سے گفتگو کا احوال درج ذیل ہے جو ان کے مشی گن میں دورہ کے وقت کی گئی۔

س: خان صاحب کچھ اپنے خاندانی پس منظر کے متعلق بتائیں؟

ج: ہمارا پٹیالہ گھرانہ 200 سال سے بھی زیادہ عرصے سے موسیقی سے وابستہ ہے۔ اس کا سلسلہ میرے پردادا میاں کالوجی سے شروع ہوتا ہے تاہم ہمارے گھرانے کو ”پٹیالہ گھرانے“ کا لقب میرے دادا جنرل علی بخش خاں صاحب اور انکے بھائی کرنل فتح علی خاں کے کارناموں کی وجہ سے ملا۔

س: ”کرنل“ اور ”جنرل“ سے کیا مراد ہے؟

ج: ہندوستان کی موسیقی میں میرے دادا اور انکے بھائی کے نمایاں کردار کی وجہ سے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ الگن اور نواب آف پٹیالہ نے 1930ءمیں کرنل اور جنرل کے اعزازی خطابات سے نوازا، یعنی وہ موسیقی کے کرنل اور جنرل سمجھے گئے۔ ان دونوں کی جوڑی ایسی تھی، جیسی میری اور اسد کی تھی۔

س: کیا پٹیالہ گھرانہ صرف آپ کے خاندان سے ہی مخصوص ہے؟

ج: دراصل میرے دادا علی بخش خان صاحب کی اولاد میرے والد اختر حسین خان صاحب تھے جن کی ہم تین اولادیں استاد امانت علی خان، استاد فتح علی خان اور میں ہوں، تاہم میرے دادا کے بھائی کی اولاد استاد عاشق علی خاں صاحب نے میڈم فریدہ خانم اورعابدہ پروین کو اپنی شاگردی میں لے لیا، اس طرح وہ بھی ہمارے گھرانے کا فرد بن گئی ہیں۔

س: خود آپ کے اپنے گھرانے کی خواتین میں بھی ”سُر“ ہوگا، کیا وہ موسیقی کی طرف آئیں؟

ج: ہمارے گھرانے کی خواتین سریلی تو ہوتی ہیں بلکہ ہمیں موسیقی سیکھنے میں مدد بھی دیتی ہیں مگر ہماری خاندانی روایات میں پردہ ہے اور خواتین گھریلو تقریبات تک محدود ہیں۔ ان کی آواز ”باہر“ نہیں جاتی، تاہم ہم ان کے یا دوسری خواتین کے گانے پر معترض بھی نہیں۔

س: کچھ اپنے متعلق بتائیں؟

ج: میری پیدائش 1953ءمیں لاہور بھاٹی گیٹ میں ہوئی۔ بچپن سے ہی گانا سیکھنا شروع کردیا تھا۔ استاد ”ابا“ تھے جو بہت سخت تھے۔ ڈانٹتے بھی تھے اور مارتے بھی، ہمارا کوئی اور کام ہی نہیں تھا سوائے ریاض کرنے کے۔ ابا کا سب سے چہیتا شاگرد اسد تھا (اسد امانت علی خان مرحوم)۔

س: پہلی بار کب پرفارم کیا؟

ج: ویسے گھریلو تقاریب میں تو گاتے رہتے تھے، یہی کوئی آٹھ، دس برس کی عمر سے لیکن عوام کے سامنے بارہ سال کی عمر میں گایا۔ کل پاکستان سالانہ کانفرنس تھی اور ریلوے والوں کا بڑا سا ہال تھا۔ ابا کے سامنے گایا جس کی وجہ سے بڑا ڈر لگ رہا تھا لیکن گانا پسند کیا گیا۔

س: جب سے آج تک سامعین میں فرق پڑا؟

جی: سننے والے تو آج بھی ہیں لیکن تھوڑا فرق ضرور آیا ہے۔ لوگ اب بھی سراہتے اور عزت و پیار دیتے ہیں لیکن حکومت کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی اور موسیقاروں کی اہمیت کم ہورہی ہے۔

س: کونسا راگ پسند ہے؟

ج: ویسے تو راگوں کے اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں بس وقت اور ماحول کی بات ہے۔ میرا پسندیدہ راگ مالکوس گل کلی ہے لیکن مجھے درباری بھی پسند ہے۔ راگ بھوپالی پٹیالہ گھرانے کی پہچان ہے۔

س: آپ موسیقی بھی مرتب کرتے ہیں؟

ج: ”سرگم“ فلم کے گانے کمپوز کئے، خود میرا پسندیدہ اپنا گانا ”گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو“ یا ”اداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے“ ہے۔

س: چونکہ آپ غزلیں شوق سے گاتے ہیں لہٰذا یقیناً آپ کے پسندیدہ غزل گو شعراء بھی ہوں گے؟

ج: مجھے فراز اور فیض کا کلام بہت پسند ہے۔ ویسے آج کل عام فہم شاعری زیادہ پسند کی جاتی ہے۔

س: کیا پاپ گلوکاروں کو کلاسیکی موسیقی سیکھنا ضروری ہے؟

ج: کلاسیکی موسیقی سیکھنے اور سُروں کی پہچان کے بغیر شہرت تو ہوجاتی ہے، کما بھی لیتے ہیں لیکن جلدی چلے بھی جاتے ہیں، ان کا فن دیرپا نہیں ہوتا۔ کلاسیکل موسیقاروں نے اس فن کی تربیت لی ہوئی ہوتی ہے۔ یوں سمجھیں ”پی ایچ ڈی“ کی ہوتی ہے اور یہی اصل کام ہے۔

س: آج کل پاپ کے مقابلے میں کلاسیکی موسیقی کو زیادہ فروغ مل رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟

ج: میڈیا پر، میرا تجربہ کہتا ہے کہ لوگ ابھی بھی کلاسیکی موسیقی سننا چاہتے ہیں البتہ رجحان تیز دھنوں میں بنی غزلوں کی طرف بھی ہے۔

س: خود آپ کے بچوں نے بھی تو موسیقی کا گروپ ”راگا بوائز“ کے نام سے بنایا تھا؟

ج: ان کے گروپ کا نام میں نے ہی دیا تھا۔ میں ان کو تربیت بھی دیتا ہوں۔ یہ گروپ کلاسیکی اور پاپ موسیقی کا ملاپ ہے اور زمانے کے ساتھ چلنے کی علامت ہے۔ آج کل خالی کلاسیکل گانے سے گزارا مشکل ہے۔

س: اپنے بچوں کی موسیقی کی تربیت کس طرح کرتے ہیں؟

ج: ان کو اہمیت دیتا ہوں، سختی اور مار آج کل کے بچے برداشت نہیں کرتے۔

س: کتنے بچے ہیں؟

ج: تین بیٹے اور دو بیٹیاں، لڑکے نایاب علی، احمد حسن، قاسم ولی اور انعام علی جبکہ بیٹیاں تابندہ اور تہمینہ ہیں۔

س: اپنے پسندیدہ گلوکاروں کے نام بتائیں گے؟

ج: سلامت علی، نزاکت علی، مہدی حسن، اقبال بانو، نورجہاں، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، محمد رفیع، غلام علی بھی ٹھیک ہیں اور اپنے بھائی تو ہیں ہی پسند، اسد کو بہت یاد کرتا ہوں۔

س: اپنے معاوضے سے مطمئن ہیں؟

ج: نہیں۔

س: کوئی مشورہ حکومت کو اس سلسلے میں؟

ج: یہی کہ حکومت پاکستان فن و ثقافت کے شعبے پر توجہ دے اور زبانی تحسین کے علاوہ مالی اعانت بھی کرے جو ان کا حق ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھے 1997ءمیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا لیکن میں مالی طور پر مطمئن نہیں۔ اس شعبہ موسیقی کو حکومتی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔ موسیقی اور دوسرے فنونِ لطیفہ پر توجہ نہیں دی جا رہی جبھی تو ملک میں اتنے دنگے اور فساد ہورہے ہیں۔

س: یہ بات تو بالکل درست ہے، آپ کا شکریہ۔

ج: آپ کا بھی شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).