وکیلوں کی وکالت، اماموں کی امامت


ہمیں سمجھ نہ آسکا، کہ وکیلوں کی تعداد میں اس بے بہا اضافہ پر پھپھو کا شکریہ کیسےادا کیا جائے۔ بہرحال ہمیں اپنے بعد کے ڈھائی وکیل ’منظور‘ کروانے تھے۔

ہم نے جان اینجل بیس اور تھامس میسرو وغیرہ کا نام لیا، تو پھپھو نے بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا، ”ہمیں فرنگیوں سے کیا واسطہ؟ اپنے یہاں کے وکیلوں کی بات کرو“۔
استفسار کیا، ”لطیف کھوسہ“؟
پھپھو نے کہا، ”دعویٰ جھوٹا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور“!
عرض کیا، ”شریف الدین پیرزادہ“؟
فرمایا، ”ہاں! وہ دوسرے وکیل ہوئے“۔
ہم نے مزید عرض کیا، ”خالد انور“؟
حکم ہوا، ”ہاں تین ہوگئے“۔

اس سے پہلے کہ ہم کوئی اور نام لیتے، پھپھو کہنے لگیں، ”ہاں! اور آدھا وکیل اعتزاز احسن ہوا“۔
”پھپھو غضب خدا کا، اعتزاز احسن آدھا وکیل“؟
”ہاں! ایک تو وکلاء تحریک میں اعتزاز احسن سے کچھ لغزشیں سرزرد ہوئی تھیں، اور ویسے بھی وکیل سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے تو وکیل کس بات کا“؟
”پھپھو اس کلیے کے تحت تو کوئی وکیل بچے گا ہی نہیں“!
رسان دیکھنے لائق تھا۔ ”تو یہ جو ہم نے ساڑھے تین وکیل کا کلیہ انتخاب کیا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنے سوا سب کو غیر وکیل قرار دیا جاسکے“۔

ننھی پھپھو کی اپنی ہی منطق تھی، مگر ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ اس معرکے کے بعد خاندان بھر کے دیگر متحارب گروہوں پر ہماری دھاک جم چکی تھی۔ پھپھو کا ہمارے موقف کو تسلیم کر لینے کا مطلب ہے، کہ اب کسی کی طرف سے مخالفت کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ ایک فرد ہو، کئی منتشر افراد ہوں یا منظم گروہ، ہماری قلعہ بندی کو پار کرنا ناممکن ہے۔ پھپھو نے ایک کام کی بات سمجھا دی کہ اپنے لیے جس شعبے کا انتخاب کرنا ہو، پہلے ان سے متعلق اشخاص سے مل کر اس شعبے کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلی جائیں۔

اپنے نیک عزائم کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہم نے بار کونسل کے چکر لگانے بھی شروع کردیے، تا کہ اس متبرک شعبے سے متعلق مفید معلومات حاصل کی جائیں۔ بار کونسل کے کئی دوروں کے بعد ہم پر یہ راز کھلا کہ دیگر مخلوقات کی طرح وکیلوں کی بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن کی حتمی تفصیلات بارکونسل کے مستقل چپڑاسیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ ناکام وکیلوں کی مدد سے تاحال ہم وکیلوں کی جن اقسام کو دریافت کر پائے ہیں، وہ ہمارے عزم و ہمت میں زلزلہ پیدا کردینے کے لیے کافی تھیں۔

سب سے پہلے تو اصلی وکیل۔ یہ وکیلوں کی وہ کم یاب قسم ہے، جو شاذ شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ ابتدا میں تو یوں محسوس ہوا گویا یہ قسم ناپید ہوچکی ہے، لیکن بار کونسل میں کئی بار کی حاضری کے دوران احساس ہوا کہ ابھی یہ قسم باقی ہے۔ یہ (قِسم) بار کونسل میں بہت کم نظر آتے ہیں اور نظر آتے بھی ہیں تو فقط وہاں سے گزرتے ہوئے، عموماََ ان کے جلو میں دو نہایت تابع فرماں قسم کے ننھے وکیل، یعنی جونیئر ہوتے ہیں؛ جن میں سے ایک کے ہاتھ میں مقدموں کی فائلیں اور دوسرے کے ہاتھوں میں کوئی پی ایل ڈی کی موٹی سی کتاب یا اصل وکیل کی ڈائری ہوتی ہے، جو اس کے لیے کسی کتاب سے کم نہیں ہوتی۔ یہ دونوں اصل وکیل کے دائیں بائیں چلتے ہوئے انتہائی ہنرمندی سے ایک ایسی مثلث تشکیل دے لیتے ہیں، جس میں اصلی وکیل اور ان کے درمیان شرقاََ غرباََ ڈیڑھ قدم کا فاصلہ اور آپس میں شمالََ جنوباََ ٹھیک تین قدم کا فاصلہ برقرار رہتا ہے۔

اصلی وکیل اپنے مقدمات کی پیروی خود کریں یا کسی جونیئر کو بھیجیں، ہر دو صورت میں انھیں مقدمے کی ٹھیک ٹھیک صورت احوال معلوم ہوتی ہے؛ اور یہ مقابلے کے وکیل سے ایک قدم آگے کی سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں۔ گفتگو کم کرتے ہیں، سوچتے زیادہ ہیں۔ ان کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک جملہ آئین کی پر پیچ ندیوں میں نہایا ہوا، اور قانون کی موٹی موٹی کتابوں کی ہوا سے سکھایا ہوا ہوتا ہے۔

اس پہلی قسم کے وکیلوں کو انسانوں کے بجائے کتابوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند ہوتا ہے۔ سوائے جج حضرات کے، یہ عام زندگی میں کسی سے نہیں الجھتے۔ چوں کہ یہ قسم شاذ و نادر نظر آتی ہے، لہذا اس کے بارے میں زیادہ معلومات دست یاب نہیں۔

اس کے علاوہ وکیلوں کی ایک قسم نسلی وکیل بھی ہے۔ یہ وکیلوں کی وہ قسم ہے جو نسل در نسل وکالت سے وابستہ ہے؛ ان میں کچھ صرف ددھیال کی طرف سے وکالت ورثے میں پاتے ہیں اور کچھ نجیب الطرفین وکیل ہوتے ہیں۔ یعنی ادھر ابا اور دادا وکیل اور ادھر اماں اور نانا وکیل۔ وکالت ان کی رگوں میں دوڑ تی ہے اور اگر انھیں وکالت سے دل چسپی نہ بھی ہو، تب بھی یہ کامیاب وکیل ثابت ہوتے ہیں۔ گھرانے کا گھرانا وکیل ہوتا ہے۔ نہار منہ مقدموں کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ خاندان میں کوئی جج بھی ہوجائے تو سونے پہ سہاگا۔

نسلی وکیلوں کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ انھیں بچپن ہی سے وکالت کے داؤ پیچ سکھائے جاتے ہیں، جس سے یہ اسکول میں اساتذہ اور ساتھ پڑھنے والے بچوں کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ بعد کو یہی مشق شدہ تربیت جج صاحبان کے لیے دردِ سر بنتی ہے۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ بھری عدالت میں مقدمے کی پیروی کے دوران دلائل دیتے ہوئے، وکیل صاحب نے ”آئی آبجیکٹ مائی لارڈ“ کے بجائے روانی میں ”آئی آبجیکٹ بڑے ماموں“ کَہ دیا۔

ایک اعتبار سے یہ مظلوم بھی ہوتے ہیں، کہ کسی مقدمے کی پے روی میں تاخیر سے پہنچنے پر جو ڈانٹ جج صاحب سے کمرائے عدالت میں پڑتی ہے، وہی ڈانٹ رات کو کھانے کی میز پر، انھیں جج صاحب سے بحثیت والدِ محترم دوبارہ سننے کو ملتی ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3