وکیلوں کی وکالت، اماموں کی امامت


ایک مرتبہ بار کونسل میں کچھ شور شرابے کی آوازیں سنائی دی گئیں۔ دیکھا تو ایک خاتون وکیل کو دیگر خواتین وکلا گھیرے کھڑی یں، اور ادھر مردانے میں بھی صنف کے فرق کے ساتھ یہی منظر ہے۔ کچھ دنوں بعد بارکونسل کی دیواروں نے ہم سے بیان کیا کہ طلاق کے ایک مقدمے میں لڑکے والوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں، اور انھی وکیل کی اہلیہ جو خود بھی وکیل ہیں، انھیں لڑکی والوں نے اپنا مقدمہ سونپ دیا۔

اس نوجوان وکیل جوڑے کے درمیان عدالت کے کمروں میں ہونے والا اختلاف، ان کے گھر تک پہنچ گیا؛ جوں جوں مقدمے میں شدت آتی گئی، ان کے درمیان بھی تلخیاں بڑھتی گئیں؛ جن کا مقدمہ تھا، انھوں نے تو بعد میں صلح صفائی کرلی، لیکن خاتون وکیل نے اپنے شوہر پر خلع کا مقدمہ دائر کردیا۔

بقول شخصے، اگر جج صاحب ایک کے نانا اور ایک کے دادا نہ ہوتے، تو اس نو بیاہتا جوڑے میں علاحدگی ہو کے رہتی۔ نسلی وکیلوں کو جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔

ان کے مقابلے میں وکیلوں کی ایک دوسری قسم جسے ”کسلی وکیل“ کہا جاتا ہے، ہمیشہ آرام سے رہتی ہے۔ ان کی نسبت ان کی کسل مندی کی بنیاد پر ہے۔ یہ انتہائی سست اور کاہل قسم کے وکیل ہوتے ہیں، ایک تو عدالتی نظام کی رفتار پر پہلے ہی تنقید کی جاتی ہے، کسلی وکیل اس رفتار کو اور سست کردیتے ہیں۔ زرا زرا سی بات بلکہ بات بے بات ’پے روی‘ کی نئی تاریخ لینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ”تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ تاریخ پہ تاریخ“۔ جیسے مشہور فلمی ڈائیلاگ انھیں کسلی وکیلوں کی مرہونِ منت ہیں۔

یہ زیادہ تر وقت اپنے دفاتر میں گزارتے ہیں، بار کونسل میں کم آتے ہیں۔ عدالتوں میں اس سے بھی کم جاتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی بار کونسل کے سوفوں میں یوں دھنس کے بیٹھے نظر آتے ہیں کہ کوٹ پشت سے اٹھ کر گدی سے ہوتا ہوا سر کے اوپر آکر ایک موکلہ سا بنا لیتا ہے، جس سے منہ نکال کر یہ بے دلی اور نفرت سے چاق و چوبند وکیلوں کو گھورتے ہیں۔ ویسے تو یہ تمام لوگوں کو گھورتے ہیں مگر ان کےغضب کا سب سے زیادہ شکار، ”پسلی وکیل“ ہوتے ہیں۔

جی ہاں، ”پسلی وکیل“۔ یہ وہ وکیل ہیں جن کے لیے محاورے کا ڈیڑھ پسلی بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ معصوم معصوم چہروں والے یہ ننھے وکیل، اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھائی میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ یہ بچپن میں غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں استعمال کرتے ہیں، لہذا جسمانی نشونما کی رفتار سست پڑجاتی ہے۔ اگر ایسے چار چھہ پسلی وکیل ایک جگہ جمع ہوں اور پس منظر سے عدالت کی عمارت ہٹا دی جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے اسکول کے بچے سالانہ ٹیبلو کی تیاری کررہے ہیں۔

ایسے وکیل عموماََ جرائم کے مقدموں سے دور رہتے ہیں، عموماََ ایسے مقدمات کا انتخاب کرتے ہیں، جس میں کسی زور آور موکل سے واسطہ نہ پڑے۔ مثلاََ مالی بے ضابطگی، نام کی تبدیلی، ملکیت کی منتقلی، اور صلح نامہ وغیرہ۔

ان کے بالکل مخالف، وکیلوں کی ایک سب سے خطرناک قسم پائی جاتی ہے جسے ”ٹسلی وکیل“ کہا جاتا ہے۔ یہ ”ٹسلی“ لفظ ٹسل سے ہے۔ بمعنی اڑ جانا، ضد کرنا، کینہ رکھنا، جھگڑا کرنا، دشمنی رکھنا، اس لفظ میں یہ تمام کیفیات یک جا ہیں۔

اس نوع کے وکلا کے پاس زیادہ تر مقدمات اپنے ہی قائم کردہ ہوتے ہیں جو انھوں نے اپنے قرب و جوار کے لوگوں پر مختلف اوقات اور مختلف کیفیات میں دائر کیے ہوتے ہیں۔ جن میں عام طور سے محلے کا دھوبی، حجام، گاڑی کا مکینک، بچوں کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر، سسرالی رشتہ دار، الغرض جہاں جہاں ان کی ٹسل ہوجائے، یہ وہیں مقدمہ داغ دیتے ہیں۔ یہ وکیل اپنی وکالت کی سند کا بے دریغ استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات تو مقدمہ ہارنے کے بعد مقابلے کے وکیل تک پر مقدمہ داغ دیتے ہیں۔

البتہ وکیلوں کی سب سے زرخیز قسم وصلی وکیل ہوتے ہیں ۔ یہ صرف عدالتی شادیاں یعنی کورٹ میرج کرواتے ہیں۔ ان کے پاس کبھی مقدمات کی کمی نہیں ہوتی، بلکہ عدالتی شادیوں کے نتیجے میں عداوتی مقدمات کا ایسا بیج بوتے ہیں، جس سے دوسرے وکیلوں کا دال دلیہ بھی جاری ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ بار کونسل میں ان کی زیادہ آؤ بھگت نہیں ہوتی، مگر اعداد و شمار سے ثابت کرنا مشکل نہیں کہ یہی طبقہء وکیلاں ساٹھ فی صد وکیلوں کے لیے معاشی راہیں ہم وار کرتا ہے۔

سب سے آخر میں ان کا تذکرہ بے جا نہیں، جو وکیل ہیں ہی نہیں۔ یعنی نقلی وکیل۔ یہ بھی ایک بڑی جمعیت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس وکالت کی سند نہیں ہوتی مگر یہ روز صبح سویرے کالے کوٹ پہنے عدالتوں، بارکونسلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے سب وکیلوں سے بہت گہرے مراسم ہوتے ہیں، سب انھیں وکیل ہی سمجھتے ہیں۔ یہ صبح سویرے عدالتوں میں مقدمات ڈھونڈنے آتے ہیں۔ مصیبت زدہ انھیں وکیل سمجھ کر اپنا مقدمہ ان کے حوالے کرتے ہیں۔ یہ مقدمے کی نوعیت دیکھ کر اپنے جاننے والے مناسب وکیل سے مقدمہ لڑواتے ہیں۔ موکل سے معاوضہ خود لیتے ہیں اور اس میں سے کچھ حصہ اصل وکیل کو بھی دیتے ہیں۔ نہ کتابوں سے مغز ماری، نہ ججوں کا سامنا، نہ کالج کی فیس، نہ پڑھائی کا بوجھ۔ لیجیے صاحب، ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آیا۔

ظاہر ہے ان چشم کشا تفصیلات کے بعد وکیل بننے کے ہمارے سب خواب چکنا چور ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں سنجیدگی سے کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا ہے۔ دل میں یہ خیال پیدا ہورہا ہے کہ مولوی بن جائیں، لہذا کچھ مدرسوں کے چکر لگاتے ہیں۔ دیکھیں کیا صورت احوال بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3