بدل چکا ہے خیبر پختونخوا


موبائل سکرین پر جب کبھی آصف ندیم کا نام نمودار ہوتا ہے، پاکستان کے کسی حصے کی سیر کا پیغام ساتھ لاتا ہے۔ پچھلے ہفتے ان کی کال آئی، خیبر پختونخوا میں شروع ہونے والی ینگ لیڈرز کانفرنس کے لیے مدعو کیا جس کا عنوان تھا ‘ہم سے ہے پاکستان’۔

اللہ خوش رکھے ذیشان ہوتی اور عابد اتوزئی کو جو نوجوانوں کی صوبائی اسمبلی (پی وائے اے) کے ذریعے صوبہ خیبر پختونخوا کے نئے امیج کو پاکستان بھر کے نوجوانوں سے متعارف کروانے کے لیے اکثر اس قسم کی کانفرنسز کرواتے رہتے ہیں جن کا حقیقتاً زبردست فائدہ ہوتا ہے۔  پچھلے چند سالوں سے ‘گوزسٹ’ نامی کانفرنس بھی یہی نو جوان کروا رہے ہیں۔

‘ہم سے ہے پاکستان’ کانفرنس صوبائی حکومت، نوشہرہ کی ضلعی انتظامیہ اور پی وائے اے نے کروانی تھی۔ دعوت ملنے پر ہم نے بھی چھوٹا سا بوریا باندھا (کیونکہ بستر کی سہولت وہاں موجود تھی) اور مقررہ تاریخ کو فیض آباد پہنچے۔

فیض آباد سے پتا چلا کہ نوشہرہ کے لیے گاڑیاں منڈی موڑ سے جاتی ہیں۔ منڈی موڑ پہنچ کے خشک میوہ جات فروخت کرنے والے ایک خان صاحب سے گاڑی کا پوچھا تو انہوں نے نوشہرہ کے اڈے کا بتایا اور ساتھ مشورہ بھی دیا کہ بذریعہ جی ٹی روڈ جانا کیونکہ موٹر وے سے جانے والی گاڑیاں شہر سے دور اتارتی ہیں۔

ایک ویگن پر نوشہرہ لکھا تھا، دبلے پتلے کنڈکٹر بھائی سے جی ٹی روڈ والی بات بھی لگے ہاتھوں پوچھ لی جس کا جواب ہاں میں تھا۔ ویسے یہ کنڈکٹری بھی بہت محنت طلب کام ہے، شاید اسی لیے موٹے کنڈکٹرز نا پید ہیں۔ مجھے آخری سیٹ ملی اور ویگن میں میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک باریش بزرگ بیٹھے تھے جن کی منزل بھی نوشہرہ تھی۔ راستے میں ان سے خیبر پختونخوا کے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی جس نے اس صوبے سے جڑی درجنوں دقیانوسی باتوں کا جواب دے ڈالا۔

بابا جی بہت ملنسار اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے جو میرے بے تکے سوالات کا بھی بڑی توجہ سے جواب دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومیں رویوں کی تبدیلی سے بنتی ہیں اور صوبہ میں سرکاری ملازمین کے رویوں میں زیادہ تو نہیں لیکن مثبت تبدیلی پہلی بار آئی ضرور ہے۔

پنجاب سے خیبر پختونخوا میں داخلے کے وقت بھی زیادہ دیر نہیں لگی، بس ایک منٹ کے لیے گاڑی رکی، ایک باوردی نوجوان نے اندر جھانک کر سواریوں کا جائزہ لیا اور جانے دیا۔

نوشہرہ اترا تو خلیل بھائی نے بولا کہ رکیں ہم لینے آ رہے ہیں۔ میں وہیں اڈے پر تادیر رکا رہا لیکن خلیل میاں نہ آسکے۔ حکم ہوا کہ کسی رکشے پر ڈی سی ہاؤس آ جائیں لیکن رکشے والے کو 30 روپے سے زیادہ نہیں دینے۔ بھلا ہو رکشے والے بابو کا، اس نے 20 ہی کاٹے۔

ڈی سی ہاؤس نوشہرہ میں افتتاحی تقریب ہونی تھی۔ میں جب وہاں پہنچا تو پرانے دوستوں کے ساتھ ساتھ کچھ نئے مہربان چہرے بھی تقریب کے انتظامات کو تیزی سے ترتیب دلوا رہے تھے۔ انہی نئے چہروں میں ڈی سی اور اے سی نوشہرہ بھی تھے جو انتہائی نرم دلی اور خوش اسلوبی سے انتظامات بھی دیکھ رہے تھے اور پاکستان بھر سے نوشہرہ پہنچنے والے مہمانوں کو گرمجوشی سے خوش آمدید بھی کہہ رہے تھے۔ جس خوش دلی کے ساتھ ڈی سی خواجہ سکندر ذیشان اور اے سی جمشید خان ہر آنے والے مہمان سے مل رہے تھے وہ قابل ستائش ہے۔

 ہمارے پنجاب میں تو ڈی سی اور اے سی صاحبان خود کو اوتار سمجھتے ہیں کام چاہے ٹکے کا نہ آتا ہو۔ سرکاری افسران کو یوں بچوں کے ساتھ گھلتے ملتے دیکھا تو دلی خوشی محسوس ہوئ کہ چلو چند ہی سہی لیکن امید کے چراغ روشن تو ہیں۔ اگلے دن مختلف اقسام کے ڈھیروں سیشنز خوشحال خان خٹک آڈیٹوریم میں تھے۔ شام کو ہر صوبے نے اپنی ثقافتی پرفارمنس دی جس میں کلچر کو فروغ دیا گیا۔

اس سے اگلے دن 4 ہزار فٹ سے بھی بلند شاہینوں کے بسیرے چراٹ کا دورہ کرایا گیا جہاں مومن فولاد اور نمبر ون بنتے ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بنا اسپیشل سروس گروپ کمانڈوز کا یہ مسکن وطن سے لازوال محبت اور وفا کا استعارہ ہے۔ میجر عامر نے اسپیشل سروس گروپ کی تمام بنیادی معلومات فراہم کی اور ساتھ میں ایس ایس جی کی طرف سے تمام شرکاء کے لیے ہائی ٹی کا بھی انتظام کیا گیا۔ چراٹ میں قائم شدہ ایس ایس جی میوزیم خاص توجہ کا مرکز رہا۔ چراٹ کے اس پورے سفر میں اے سی پبی جہانگیر خان صاحب بھی ہم سفر رہے۔ میرے ساتھ تعارف ہوا تو انہوں نے بتایا کہ انکے بیٹے کا نام بھی عمر ہے۔ ایک ایک نوجوان کی خواہش پر انکے ساتھ سیلفیز بناتے رہے۔ یہی خوش دلی سکندر ذیشان صاحب اور جمشید خان صاحب کی طرف سے تھی۔

پبی اڈے پر پہنچے تو پتا چلا کہ قافلے کی کچھ گاڑیاں پیچھے رہ گئ ہیں۔ اتنی دیر میں سندھ اور لاہور سے آنے والے کچھ دوست گاڑی سے بڑے سپیکر اٹھا لائے اور اڈے پر ہی بھنگڑے، جھومر، اٹن، چاپ اور ہو جمالو کا دور چلایا۔ ہر علاقے کے لوگ اپنے ثقافتی رقص بہترین انداز میں کرتے ہیں لیکن ناچنے میں میرے خیبر پختونخوا کے بھائیوں کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ یہ شیر گھنٹوں بغیر رکے لگے رہتے ہیں اور باقی صوبے والوں کا بھی ساتھ نبھاتے ہیں۔

میں اس طرح ایک اڈے پر کھڑے ہو کر ڈانس کرنے کے حق میں نہیں تھا لیکن پشتون دوستوں نے یقین دلایا کہ صوبہ اب بدل چکا ہے اور اللہ کے کرم سے کسی قسم کا خطرہ نہیں۔

اسکے بعد نوشہرہ کی آرمرڈ کور کا دورہ کرایا گیا جہاں پاکستان کی جنگی ساز و سامان کے حوالے سے قابلیت پر ایک بہترین بریفنگ دی گئ اور ساتھ ہی تھکے ہارے مسافروں کو لنگر بھی کھلایا گیا۔ لنگر کے دوران وافر مقدار میں الائچی والی چائے کی ترسیل پر تمام فوجی بھائیوں سمیت عابد بھائی، ذیشان بھائی اور آصف ندیم خصوصی طور پر شاباشی کے مستحق ہیں۔

اسکے بعد کنڈ کے گیسٹ ہاؤس میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مدعو لوک گلوکاروں نے سماں باندھ دیا۔ زیڈان بھائی اور عزیز اللہ بنگش نے تقریب کی میزبانی انتہائی خوبصورت انداز میں کی۔ پی وائے اے کی جانب سے تمام شرکاء کو سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ ڈی سی نوشہرہ خواجہ سکندر ذیشان صاحب کی طرف سے خواتین کو پشاور کی خصوصی شالیں اور مرد حضرات کو گرم ٹوپیاں عطا کی گئیں۔

خواجہ سکندر ذیشان صاحب نے الوداعی خطاب میں کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ اسکی تمام تر اچھائیوں کے ذمہ دار اگر ہم خود ہیں تو اس میں موجود کمی کوتاہیوں کی ذمہ داری بھی ہمیں ہی لینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہر پاکستانی اگر تندہی کے ساتھ اس ملک کے امیج کو روشن کرنے کی کوشش کرے تو بہت جلد ہم پورا پاکستان بدل سکتے ہیں۔ ان کی عزم و استقلال سے بھرپور تقریر کے ساتھ ہی یہ سفر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اسی وقت اور کچھ اگلی صبح اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہوگئے۔

میں نے اس سفر کے دوران دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے میں کسی ایک جگہ بھی کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں دیکھا۔ خیبر پختونخوا بدل چکا ہے۔ یہ پہلے سے زیادہ خوبصورت، پر امن اور قابل ہو چکا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس خوبصورت وادی سمیت اس وطن عزیز کے ایک ایک چپے کو تاقیامت شاد و آباد رکھے۔ آمین۔

آخر میں ایک شکوہ، ایک بھائی ریاض علی نامی حیدر آباد سے تشریف لائے تھے۔ اپنا ڈی ایس ایل آر کیمرہ اور اس کے کافی سارے لینز مع آلات ساتھ لائے تھے۔ مجھ سے پورے وزٹ میں پوزیشنیں بنوا بنوا کر تصویریں بناتے رہے۔ ان کے فیس بکی صفحے پر اب تک تقریباً 1200 تصاویر آ چکی ہیں جس میں 130 ان کی اپنی اور باقی ان کے گروپ کی ہیں جبکہ فدوی کی کوئی تصویر نہیں آئی۔ ریاض بھیا، اگر اس طرح کرنا تھا تو دل ناتواں کو امید دلائی ہی کیوں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).