وکیلوں کی وکالت، اماموں کی امامت


ہماری یہ پکی ٹھکی رائے ہے کہ اگر انسان کے نام کے ساتھ سابقہ کے طور پہ ”ڈاکٹر“ لگ جائے تو انسان کی قدر و منزلت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ سننے والوں پر آپ کے علم کا ایسا بوجھ پڑ جاتا ہے، جس کی آڑ میں آپ اُن خیالات کا اظہار بھی کرسکتے ہیں، جو بغیر ڈاکٹر کے سابقہ کے معاشرتی ندامت کا سبب بن سکتے ہیں۔ ”ڈاکٹر“ کے سابقے میں فقط علمی وزن ہے۔ ہاں اگر یہی سابقہ ”بیرسٹر“ ہوجائے تو علم کے ساتھ ساتھ مالی استحکام کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم نے خیالاتِ سابقہ کے تحت، پختہ ارادہ کرلیا کہ ہم وکالت سے وابستہ ہوجائیں گے۔ اس فیصلے کی اطلاع پہلے پہل تو خاندان بھر میں چہ مگوئیوں کی صورت ہوتی رہی، مگر بعد میں ہمیں خاندان بھر کی غیر منافقانہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمیں اندازہ تو تھا کہ اس مستقبل مخالف تحریک بپا کرنے کا اگر کوئی سرخیل ہوسکتا ہے، تو وہ سوائے اپنی ننھی پھپھو کے اور کوئی نہیں۔ پھر جس دوران یہ تحریک زور پکڑ رہی تھی، اس دوران ننھی پھپھو کے خاندان بھر میں پراسرار دورے بھی جاری تھے۔ چناں چہ ہمارا خیال تقویت پکڑتا چلا گیا، کہ وہ محلاتی سازشیں جو اب پورے محلے میں پھیلتی جارہی ہیں، ان کے پیچھے ننھی پھپھو ہی کا چہرہ ہے اور ویسے بھی:

تیر جب بھی کماں سے نکلا ہے
حلقہء دوستاں سے نکلا ہے

جیسے جمہوری حکومت کے اختتامی سالوں اور آمریت کی ابتدا سے کچھ پہلے، کچھ بااثر شخصیات ادھر سے اُدھر با مقصد دورے کرتی نظر آتی ہیں، اسی طرح ننھی پھپھو خاندان بھر میں ہر تقریب، ہر واقعے، ہر جھگڑے سے پہلے ادھر سے اُدھر منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ خاندان کے کچھ منہ پھٹ لوگوں کا خیال ہے کہ ننھی پھپھو کے تواتر کے ساتھ دورے، خاندان بھر میں خفیہ دوسری شادی، منگنی ٹوٹنے اور زبردستی طلاق جیسے سنگین مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ اس سے پیش تر کے ننھی پھپھو ہماری اعلیٰ تعلیم کی راہ میں اپنے اعلیٰ فنِ تعمیر سے ایک دیوار کھڑی کردیں، ہم نے طے کیا کہ ہم ننھی پھپھو سے بنفس نفیس اس موضوع پر بات کریں گے۔ لہذا شام کی چائے پر ہم نے ”بقلم خود“ ننھی پھپھو کو مذاکرات کی دعوت دی۔

ننھی پھھپو نے شروع میں تو یہ ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی، کہ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں، لیکن گفتگو آگے بڑھی تو انھوں نے برملا اپنی ”تحریک نفاذِ ناخواندگی“ کا اعلان کردیا۔ پھپھو کا خیال تھا کہ آواز کو ہائی نوٹس پر لے جا کر وہ ہمیں دھمکا لیں گی، مگر ہم نے بھی طے کرلیا تھا کہ جو عزت افزائی وکالت کی ڈگری ملنے کے بعد جج صاحبان سے ہونے کی امید ہے، اس کی ابتدائی مشقیں گھر ہی سے کرکے جائیں گے۔

پھپو کو وکالت سے کیا بیر تھا یہ تو انھوں کھل کر نہیں بتایا، لیکن ہمیں سمجھانے کی غرض سے وکیلوں کی بخشش کے حوالے سے اپنے سنگین خدشات کا اظہار کرنے لگیں۔
”تم دیکھ لینا، روزِ محشر ان وکیلوں کی زبانیں گز گز بھر لمبی کر کے، ان پر آرڈر، آرڈر کے آہنی ہتھوڑے مارے جائیں گے اور مقدمات کی فائلیں، پھانسی کی رسیوں سے ان کے چہرے پر لپیٹ کر آگ میں بھونا جائے گا“۔
”پھپھو آپ اپنا اعتراض احسن طریقے سے بھی پیش کرسکتی ہیں، اس معمولی اعتراض کے لیے ہمیں روحانی بلیک میلنگ کی ضرورت ہرگز نہیں ہے“۔

پھپھو کے دعوؤں کی بنیاد چوں کہ محض موروثی جذبات اور روایات پر تھی، اس لیے ہم کو انھیں رام کرنے میں چنداں دشواری نہیں ہوئی، نہایت اطمینان سے ان کی بات سنی اور پھر اپنے دلائل کا آغاز کیا، جن کی طوالت سے پھپھو کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اُن کے اعتراض ہی کی طرح، ہمارے شوق کا تعلق بھی دلیل سے نہیں ہے۔ اور جن ارادوں کے ستون دلیل کے بجائے جذبات پر قائم ہوں ان سے کسی طور ٹکر نہیں لی جاسکتی۔

ہم نے وکیلوں کی وہ وکالت کی، کہ پھپھو کو یقین ہوگیا کہ وکیل نہ صرف یہ کہ بخشے جائیں گے بلکہ حافظوں اور شہیدوں کی طرح وکیلوں کے لیے بھی اس بات کے امکانات موجود ہیں، کہ وہ اپنے ساتھ اپنے بزرگوں کی بخشش بھی کرواسکیں۔ پھپھو جہاں دیدہ خاتون تھیں، ہمارے راستے میں بندھ باندھنے کے بجائے انھوں نے ہماری ہاں میں ہاں ملانے میں ہی دوجہان کی کامیابی دیکھی اور اسی کے ساتھ اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازنے لگیں۔ ہم نے اپنی تعلیم کی راہ میں حائل اس پہلے ہی مقدمے میں کامیابی کے بعد سے اپنے آپ کو ایک ماہر وکیل تصور کرنا شروع کردیا تھا۔ پھپھو کے مشوروں کے بعد تو ہمارے دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔

بقول ننھی پھپھو، ان کا مشاہدہ ہے کہ جب تک وکیل اور شاعر خود اپنے آپ کو اپنے معاصرین میں سب سے اعلیٰ تصور نہ کریں کوئی اور یہ کارِ خیر انجام نہیں دیتا، اسی لیے جیسے دنیا میں ڈھائی قلندر اور ڈھائی شاعر مشہور ہیں، ہمیں بھی ”ڈھائی وکیل“ کا اعلان کردینا چاہیے۔

ان مشوروں کو تسلیم کرنے میں سب سے بڑی دشواری ان وکیلوں کا انتخاب تھا، جنھیں ہم اپنے ہم پلہ قرار دے سکیں۔ ہم نے فوراََ پھپھو سے پوچھا، ”پھپھو پھر پہلے درجے پر کس وکیل کو رکھیں“؟ پھپو نے غضب ناک انداز میں ہمیں گھورا اور فرمایا، ”ایسی روایات میں پہلا درجہ ہمیشہ اپنے پاس رکھا جاتا ہے، تمھیں صرف باقی کے ڈیڑھ وکیل منتخب کرنے ہیں“۔ ہم نے عرض کیا، ”پھپھو جان، کرہِ ارض پر بڑے بڑے وکیل موجود ہیں، ان میں سے فقط ڈیڑھ وکیل کیسے منتخب کیے جاسکتے ہیں“؟ پھپو نے بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، کہنے لگیں، ”اچھا چلو تم یوں کَہ کر اس میں اضافہ کرلینا کِہ دنیا میں ڈھائی قلندر ڈھائی شاعر اور وکیل ساڑھے تین ہیں“۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3