خلق خدا کی ، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا


الحمدللہ، ملک کے حالات معمول پر ہیں۔ بلوچستان میں نہ صرف یہ کہ فراری اور سرمچاری بغاوت کچل دی گئی ہے بلکہ جمہوریت کے بنتے بگڑتے نقشے میں بلوچستان کو کلیدی اہمیت حاصل ہو گئی ہے جیسا کہ ہر باشعور نے سینٹ کے انتخابات میں بچشم خود ملاحظہ کیا۔ پختون خوا میں امن بحال ہو چکا ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ کی تعمیر جاری ہے جب کہ بندوبستی علاقوں میں پشاور کی میٹرو تعمیرات کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھ رہی ہے۔ کراچی میں ہڑتال کی روایت ختم ہو گئی ہے، ریاست کے آہنی ہاتھوں سے بچ نکلنے والے نامعلوم موٹرسائیکل سوار نامعلوم سمت میں نکل گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کا شیرازہ اس طرح بکھرا ہے کہ کوئی ملبہ اٹھانے پر بھی تیار نہیں۔

پنجاب میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں صفائی ہو رہی ہے۔ لاہور میں دماغی ہسپتال کے معاملات پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ انصاف کی صحت یابی کے امکانات روشن ہیں۔ ہردلعزیز، مستعد، کم گو اور خودنمائی سے قطعی گریزاں محترم چیف جسٹس نے اس حرماں نصیب ملک میں اختیار و احتساب کے تمام فرسودہ تصورات ملیامیٹ کر دیے ہیں۔ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ اللہ اللہ، ٹھیک دو سو برس قبل ہندوستان میں ٹھیک ایسی ہی افراتفری کا عالم تھا جب 1803ءمیں لارڈ لیک انگریزی فوج کے ساتھ دہلی میں داخل ہوا۔ شاہ عالم ثانی کی پنشن ایک لاکھ روپیہ سالانہ مقرر کر دی اور ملک بھر میں منادی کرا دی، ’خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، اور حکم کمپنی بہادر کا‘۔ یہ حکومت انگلشیہ کی برکات کا آغاز تھا۔ 1838ء میں اکبر شاہ ثانی کی موت کے بعد مرزا عبدالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ کا لقب اختیار کر کے تخت نشین ہوا۔ بہادر شاہ آخری مغل تاج دار تھا۔ اس کے بعد نہ بادشاہ رہا اور نہ کمپنی بہادر…. جو رہی سو بے خبری رہی۔

سراج اورنگ آبادی نے تو ” بے خبری” کے قافیے میں معاملہ بندی کا مضمون بیان کیا تھا۔ آج بے خبری کی نوعیت بدل چکی ہے۔ خبر کے دریاو ¿ں میں پانی کی سطح اس قدر بلند ہوئی ہے کہ خبر نے زمین اور اہل زمین کی دنیا بدل ڈالی ہے۔ تو شب آفریدی، چراغ آفریدم۔ خبر کو روکا جاتا ہے تو وہ نئے آبی راستے نکال لیتی ہے۔ یہ امر طے ہے کہ 2018 میں پاکستان وہیں کھڑا ہے جہاں ہم 1958ء میں تھے۔ 1988ء میں تھے۔ 2008 کے بعد بادلوں کی اوٹ سے جو ایک آدھ کرن نمودار ہوئی تھی اسے دھند اور کہرے کی چادر نے ماند کر دیا ہے۔

ہمارے اعجاز صفت رہنما عمران خان صاحب دو پاکستان کو ایک پاکستان بنانے نکلنے ہیں۔ خدا ہمت دے۔ جواں سال ہیں، حوصلہ بلند رکھتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ یہ وہ بھاری پتھر ہے جس سے ٹکرا کر ہمارے بجرے کے تختے بارہا لخت لخت ہوئے ہیں۔ ہمارے قائد محترم محمد علی جناح نے گیارہ اگست 1947 کو ایک پاکستان بنانے کی نوید دی تھی لیکن اسی زمین پر وہ لوگ موجود تھے جنہیں آشنا کے نام سے پیارا تھا بے گانے کا نام…. ان مہربانوں کی بخشی ہوئی دوئی اس حد تک بڑھی کہ 1971ءمیں سنگت کا دھاگہ ٹوٹ گیا۔

مرحوم و مغفور ضیاالحق نے ایمان کے دھاگے سے رفو گری کی کوشش کی لیکن مشکل یہ ہے کہ قوم کے مختلف دھاروں میں یگانگت فرمان شاہی کے تابع نہیں ہوتی۔ یہ ایک نامیاتی عمل ہے جس میں قوم کے اجزا کو احترام دیا جاتا ہے۔ خیال اور شناخت کے اختلاف کو کمزوری بنانے کی بجائے توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہمارا آئین وہ مضبوط دھاگہ ہے جس میں وفاق کی مالا پروئی جا سکتی ہے۔ اس مالا کے دانوں کو اپنے حقوق، وسائل اور فیصلہ سازی پر اختیار دیا جائے تو پاکستان کو ایک پاکستان بنانا بھی ممکن ہے اور اس اتحاد کو ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ اس میں بحران وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں قتیل شفائی کے بقول

کچھ لوگ، خضر کے ساتھ، چلے تھے دریا کرنے پار
وہ پانی میں ڈوب گئے اور میں حیرانی میں

قوم کو خواجہ خضر کی نہیں، ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کی تائید سے اقتدار میں آئے اور ریاست کے تمام اجزا اپنے تمام ممکنہ تحفظات کے باوجود منتخب قیادت کو فیصلہ سازی کا موقع دیں۔ منتخب قیادت کی کارکردگی پرکھنا ان رائے دہندگان کا استحقاق ہے جو اپنے ووٹ سے یہ امانت کسی جماعت کو سونپتے ہیں۔ یہ ووٹ کسی فرد واحد کی نیک نیتی کا مرہون منت نہیں، قوم کی اجتماعی فراست کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ سرکاری اہلکار پیشہ ورانہ ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچتا ہے تو اس پر ایک ناقابل فہم کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کی نیند اور بیداری کی سرحدیں کچھ اس طرح گڈمڈ ہوتی ہیں کہ اسے یہ وہم لاحق ہو جاتا ہے کہ ہزاروں برس سے نرگس کی بے نوری ان کی ذات مبارکہ کے ظہور کی منتظر تھی۔

فیروز خان نون کے نام سکندر مرزا نے اپنے خط میں لکھا، ’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملک کے حالات درست کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں آئین برطرف کر کے ملک کی باگ ڈور سنبھال لوں‘۔ یہ سات اکتوبر 1958 تھا۔ ٹھیک بیس دن بعد آدھی رات کے اندھیرے میں سکندر مرزا کو شب خوابی کے لباس میں معزولی کا پروانہ تھمایا گیا تو سکندر مرزا کی خوش فہمی دور ہوئی۔ مارچ 1969ء میں یحیی خان نے ایوب خان کے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنا چاہا تو دس سال سے ملک کو انقلاب، اصلاحات اور ترقی کی نوید سنانے والے فیلڈ مارشل نے دھیمے لہجے میں کہا، ’دروازہ بند کرنے کی ضرورت نہیں، تم جو چاہتے ہو وہی ہو گا‘۔

چند برس نہیں گزرے تھے کہ ایک صاحب ہمارا قبلہ درست کرنے تشریف لائے۔ اب ان کی مساعی کی واحد نشانی پاکستانی ہوٹلوں کے ہر کمرے میں سمت قبلہ کے نشان کی صورت میں باقی بچی ہے۔ ایک مرد آہن اپنی بغلوں میں روشن خیالی کے دو نشان دبائے ایک ایک پائی کا حساب لینے اکتوبر 1999ءمیں آیا تھا، اس کے احتساب کا کچا چٹھا کچھ جنرل گلزار کیانی بیان کر گئے تھے اور باقی جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے۔ خبر ہے کہ کچھ برگزیدہ ہستیوں کو ان دنوں جہاد کا شوق ہو رہا ہے۔ یہ شوق نیا نہیں، دو صدیاں پہلے ہم سید احمد بریلوی اور اسمعیل شاہ کی قیادت میں جہاد پر نکلے تھے۔ ہم نے تحریک خلافت میں بھی ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا تھا۔

جہاد کا یہ آموختہ ہم جنرل ضیاالحق کے گیارہ برس پڑھتے رہے۔ کبھی یہ ہوا کہ جہاد کے نتیجے میں سکھ گئے اور انگریز آ گئے۔ کبھی یہ ہوا کہ ہم جس خلافت کو بچانے کے لیے جہاد پر نکلے تھے معلوم ہوا کہ خود ترکی والوں نے اس کی بساط لپیٹ دی۔ جنرل ضیا والے جہاد کے بارے میں ان خواجہ آصف کہتے ہیں کہ وہ میڈ ان امریکہ جہاد تھا۔ یہ نہیں بتاتے کہ 1989ء سے 1999ء تک جہاد کی جو فصل کاشت کی گئی تھی اس کا بیج کہاں سے برآمد کیا گیا تھا؟

ہمارے آئین میں جہاد کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ یہ اصطلاح پاکستان کی قومی ریاست کے نصب العین کا حصہ نہیں ہے، حتی کہ قرار داد مقاصد میں بھی یہ لفظ موجود نہیں۔ جہاد ایک مقدس اصطلاح ہے، اسے اپنے طے شدہ اختیار سے تجاوز کا جواز نہیں بنانا چاہئیے۔ اس کی بجائے کچھ سوالات پہ غور کر لیا جائے تو کہیں زیادہ مفید ہو گا۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ آئین کی شق 184 (3) بنیادی حقوق کے تحفظ اور مفاد عامہ سے تعلق رکھتی ہے یا یادش بخیر شق 58 دو (الف) کی بدلی ہوئی صورت ہے؟ دوسرا سوال یہ اپریل 2018ءمیں پاکستان کا چیف ایگزیکٹو کون ہے؟ اور آخری سوال یہ کہ آنے والے چند مہینے تو کسی نہ کسی صورت گزر جائیں گے۔ ہم نے نارسائی کے بہت سے ادوار دیکھ رکھے ہیں۔ اکتوبر 2018 میں پاکستان کا سیاسی نقشہ کیا ہو گا؟ ہماری معیشت، خارجہ پالیسی اور سیاسی عمل کے خطوط زیادہ متعین اور مستحکم صورت اختیار کریں گے یا ہم “خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا” نقارہ ہی پیٹتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).