رابرٹ فراسٹ، بوڑھا شخص اور جاڑوں کی رات


شہرہ آفاق امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی نظم An old man‘s winter night کا منظر سادہ سا ہے جس میں ایک بوڑھا شخص اپنے فارم ہاؤس پہ تنہا پھرتا ہے۔ سردیوں کی ایک گھپ اندھیری اور یخ بستہ رات ہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ لالٹین ہاتھ میں لیے وہ تہہ خانے میں اداس کھڑا ہے۔ اسے یاد نہیں آ رہا کہ وہ کمرے میں کیا کرنے آیا ہے۔ ایک ان جانا سا خوف اس پہ طاری ہے۔ عجیب ذہنی مخمسے کا شکار ہے۔ بس اسی الجھن کی کیفیت میں اس پہ نیند کا غلبہ ہونے لگتا ہے اور وہ گہری نیند سو جاتا ہے۔

سادہ اور آسان زبان میں دیہاتی زندگی کی عکاسی کرنا رابرٹ فراسٹ کی شاعری کا خاصہ ہے۔ اس کی نظموں کے اکثر کردار کسان ہیں جو اپنے معمول کے کاموں میں جتے نظر آتے ہیں۔ سادہ لفظوں اور کھیتی باڑی سے جڑے دیہاتیوں کی عام زندگی کے پردے کے پیچھے ایک نہایت وسیع، حیران کن اور پر پیچ جہاں آباد ہے۔ چھوٹے واقعات کو عام سے لفظوں میں بیان کرکے زندگی کے پیچیدہ معاملات کو سمجھانا رابرٹ فراسٹ کے قلم کا کمال ہے۔ رابرٹ فراسٹ کے نزدیک ’ایک نظم کا آغاز خوشی سے ہوتا ہے اور اختتام دانائی پر۔ ‘ رابرٹ فراسٹ کی کوئی نظم پڑھ لیجیے آپ کو اس بات پہ یقین آ جائے گا۔

نظم An old man‘s winter night پڑھنے والوں کو سوچنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ نظم پڑھنے سے سوچ کے پنچھی بہت اونچی اڑان بھر جاتے ہیں۔ سطر سطر دانش ٹپکتی ہے اور قاری اس کے سحر میں جکڑا چلا جاتا ہے۔

نظم میں بلا کی خاموشی ہے۔ بوڑھا شخص تن تنہا ہے۔ اس کی تنہائی کی کئی پرتیں ہیں۔ بات کرنے اور وقت اچھا بیتانے کے لیے کوئی آدم ہے نہ آدم زاد۔ سرما کا برفیلا سکوت ہے اور اندھیری رات جو دیکھنے کے امکان کو بھی محدود کر دے۔ بس شاخوں کے کڑک جانے ایسی ایک آواز آتی ہے۔ پھر گہری خاموشی۔ کمرے کے فرش پہ پاؤں پٹخ کر وہ خاموشی اور تنہائی کو ختم کرنے کی اک ناکام سی کوشش کرتا ہے۔

بوڑھا شخص گویا گونگا بہرہ کردار ہو جو لالٹین لیے کمرے میں حواس باختہ کھڑا ہے اور یہ تک بھول چکا ہے کہ کمرے میں کیا کام کرنے آیا ہے۔ اس سے زیادہ جان لیوا تنہائی کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی یاداشت بھی کھو بیٹھے اور پرانے بیتے کھٹے میٹھے چند لمحات کو یاد کر کے تنہائی کا مقابلہ نہ کر سکے۔ رابرٹ فراسٹ کے سارے کردار ہزاروں لوگوں کی بستی میں رہتے ہوئے بھی اکیلے پن میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ وہ تنہائی کے اس آسیب سے لڑتے رہتے ہیں۔ نظم Pasture میں ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے کہ میں چراگاہ میں جا رہا ہوں جہاں کھیتوں کو سیراب کرتے کھال سے درختوں کے پتے نکالوں گا۔ اور پھر تھوڑی دیر ندیا کنارے بیٹھ کر بہتے پانی کو دیکھوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں۔

اس کی نظموں کے اداس اور تنہا مسافروں کے دلوں میں یہ خواہش تڑپتی رہتی ہے کہ کاش ان کے ساتھ چلنے والا کوئی ہم سفر ہوتا تو سفر اچھا کٹ جاتا۔
بوڑھے شخص کو یہ احساس کھائے جاتا ہے کہ اس کیزندگی بے کار کٹ گئی اور کسی کے لیے مشعل راہ نہ بن سکا۔ مضطر خیر آبادی نے بے معنی زندگی کے اس اضطراب کو کچھ یوں اظہار بخشا ہے۔

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

علامتوں کا استعمال رابرٹ فراسٹ کی شاعری کا ایک اہم جزو ہے۔ An old man‘s winter night بھی ایک علامتی نظم ہے۔ بوڑھا شخص، فارم ہاؤس، رات، اندھیرا، لالٹین، چاند، برف الغرض نظم کی ہر چیز علامت کے طور پہ استعمال ہوئی ہے۔ بوڑھا شخص دنیا کے ہر انسان کی علامت ہے جو اس دنیا کی بھول بھلیوں میں الجھا ہوا ہے۔ دنیا کا ہر شخص بوڑھا شخص ہے جو اندھیری رات میں بے مقصد گھومتا پھرتا ہے اور جسمانی اور ذہنی مصیبتوں سے نبردآزما رہتا ہے۔ بوڑھے آدمی کا بڑھاپا انسان کی طاقتور اور بے پرواہ فطرت کے مقابلے میں ابدی کمزوری اور بے بسی کا استعارہ ہے۔ دنیا میں انسان کی حالت اس بوڑھے کی سی ہے جو اپنی یاداشت کھو بیٹھا ہے اور دنیا میں آنے کا مقصد ڈھونڈتا پھرتا ہے۔

رابرٹ فراسٹ کتنی سادگی سے ایک بنیادی سوال اٹھاتا ہے۔ انسان کا دنیا میں وقت گزارنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کا جواب نظم میں نہیں ملتا۔ یا شاید شاعر یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسے سوالوں کے جواب نہیں ہوتے۔

فارم ہاؤس دنیا کی علامت بن جاتا ہے جس میں جاڑوں کی ٹھنڈ بھی ہے اور اندھیرے بھی۔ لالٹین انسان کی اس کوشش کی علامت ہے جو وہ اپنی زندگی کے اندھیرے مٹانے کے لیے کرتا ہے۔ زندگی کی مشکلوں سے لڑنا انسان کی فطرت ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارا ہی نہیں۔ دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں جو چنا جائے۔ بوڑھے آدمی کی اس کوشش کو داد دیں لیکن اس کی بد قسمتی ملاحظہ ہو کہ لالٹین کی روشنی ہی اس کیآنکھوں کو چندھیا دیتی ہے اور اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ انسان اپنی زندگی میں سکھ اور آسانیاں پیدا کرنے کی تگ و دو کرتا ہے۔ بعض اوقات یہی تگ و دو اس کو دکھوں کی کھائی میں گرا دیتی ہے۔ بس اسی کا نام زندگی ہے۔ ساغر صدیقی کا یہ شعر بھی ایسی صورتحال بیان کرتا ہے۔

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

انسان کے من میں طرح طرح کے خوف پر پھیلائے پڑے رہتے ہیں اور انسان ان سے جان چھڑانے کی اپنے تیئں کوشش کرتا رہتا ہے۔ بوڑھے شخص کا فرش پہ پاؤں مارنا اسی کوشش کا استعارہ ہے۔
زندگی ایک فن ہے لمحوں کا
اپنے انداز سے گنوانے کا (جون ایلیا)

یہ نظم پڑھتے ہوئے نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ہیمنگ وے کا ناول ’بوڑھا آدمی اور سمندر‘ یاد آتا ہے جس میں بوڑھا مچھیرا سان تیاگو ایک بڑی مچھلی شکار کرتا ہے اور اسے ساحل تک کھینچ لانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک کٹھن کام ہے۔ ایک طرف اکیلا، بوڑھا اور کمزور مچھیرا ہے دوسری طرف سمندر، طوفان، تیز جھکڑ اور شکار کو جھپٹتی شارک مچھلیاں ہیں۔ تھکاوٹ کا مارا بوڑھا سان تیاگو ہمت نہیں ہارتا اگرچے وہ مچھلی کو شارکس سے بچا نہیں پاتا۔ ساحل تک صرف مچھلی کا ڈھانچہ پہنچ پاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہار اس کا مقدر ہے مگر پھر بھی بوڑھا ماہی گیر ہار نہیں مانتا۔ ہیمنگوے اس ناول میں لکھتا ہے ’انسان کو تباہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے ہرایا نہیں جا سکتا‘۔

رابرٹ فراسٹ کی اس نظم میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں نہ صرف اکیلا ہے بلکہ اس کی زندگی حدود و قیود میں گھری ہے۔ مجبوری اور بے بسی کی قید میں گھرا انسان بوکھلایا سا رہتا ہے۔ انسان وہ سب حاصل نہیں کر پاتا جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔ رابرٹ فراسٹ کی نظم Stopping by woods on snowy evening میں گھوڑا گاڑی پہ سوار کسان جنگل کے پاس سے گزرتے ہوئے کچھ پل کے لیے ٹھہر جاتا ہے۔ برف کی چادر اوڑھے شجر، برف سی جھیل اور جنگل اسے بہت بھلے لگتے ہیں۔ اس کیتمنا ہے کہ وہ اس نظارے کا لطف زیادہ دیر تک اٹھا سکے۔ لیکن زندگی کے جھمیلے ان خوبصورت لمحات کا لطف اٹھانے نہیں دیتے اور بوجھل دل وہ اپنی راہ لیتا ہے۔ نظم کا آخری بند کتنی خوبصورتی سے عالمگیر حقیقت بیان کرتا ہے۔ اس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔ ’اگرچہ جنگل بہت دلکش اور گہرا ہے مگر کچھ وعدے اور ذمہ داریاں ہیں جو مجھے نبھانی ہیں۔ اور سونے سے پہلے میلوں کا سفر طے کرنا ہے‘۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti