خلافت کی سازش اور پلاٹوں کا مقدمہ


\"ibarhimیہ کہانی دو باریش بظاہر بزرگ لگنے والے ریٹائرڈ فوجی افسروں کی ہے۔ ان کی کہانی دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ آج سے اور ایک حصہ ماضی سے وابستہ ہے۔ آج والی کہانی کو ہم اس طرح شروع کر سکتے ہیں کہ دو سفید پوش، باریش، پر اعتماد، ملکی نظام سے اکھڑے اکھڑے پر ملک کی بڑی عدالت سے انصاف کی آس لگائے ہوئے اور کافی حد تک پرامید بھی دکھائی دے رہے تھے،  دونوں کی عمرساٹھ سے متجاوز ہے اور بڑی خود اعتمادی سے اپنا مقدمہ خود لڑ رہے تھے اور عام وکلا کی نسبت قانون اور آئین سے زیادہ واقف، باخبر اور ہوشیار لگ رہے تھے۔

کئی برس کے بعد وہ دونوں مدعی مظلوم بن کر انصاف کی تلاش میں سپریم کورٹ میں آئے۔ جس انداز سے وہ اپنا دکھڑا تین معزز ججوں کے سامنے رکھ رہے تھے اس سے عدالت میں موجود لوگ نہ صرف متاثر ہو رہے تھے لیکن بظاہر لگ رہا تھا کہ ان بزرگوں کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے اور بے چارے کئی دہایئوں سےعدالتوں کے چکر میں ہیں۔

اعلیٰ عدالت میں کھڑی دونوں عمر رسیدہ شخصیات نے اپنے کئے (ان کا کہنا ہے کہ ناکردہ جرائم ) کی سزا بھی کاٹ لی تھی لیکن اب بھی وہ اس امید پر بڑی عدالت کے دروازے پر آئے تھے کہ شاید ان کی شنوائی ہو جائے۔ عدالت میں ان دو ریٹائرڈ فوجی افسران کا کہنا تھا کہ \’\’رونے کی بات یہ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی ہمارا کیس نہیں سنتی، حالانکہ سپریم کورٹ تو ملک کے سب شہریوں کے لئے ہونی چاہئے\’\’۔ آپس کی بات ہے یہ ان کا ریٹائرمنٹ کے بعد کا ہی موقف ہے ان کی سروس ایک سال اور ہوتی تب بھی یہ اس طرح کی بات نہیں کرتے۔ انھوں نے مقدمہ لڑتے ہوئے اپنے پرانے ادارے (ماضی میں جس سے وابستہ تھے) کے پورے نظام، قانون اور اپنی ہی عدالت میں سے کئی نقص اور خامیاں نکالیں۔ انہوں نے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے اپنے ہی منصف کو وہ وہ کچھ کہہ ڈالا کہ توبہ۔ ان کا مدعا تھا کہ \’\’ہم ملکی مفاد میں کام رہے تھے، ملک دشمنوں نے ہمارے خلاف بڑی سازش کی\’\’۔ اس ملک میں ملک دشمنی، ملکی مفاد، قومی مفاد، وسیع تر مفاد والے جملے تو ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں، اور تو اور آئے دن ان جیسے الزامات بھی کئی لوگوں پر لگتے رہتے ہیں، ہمارے ہاں ایسے سرٹییفکیٹ دینے والی فیکٹریز کی کمی نہیں۔

اب آتے ہیں کہانی کے اس حصے پر جس کا تعلق ماضی سے ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں. اس کہانی سے جڑے کئی کردار اب بھی نہ صرف زندہ و جاوید ہیں لیکن اسی طرح سوچتے ہیں. اور ان کرداروں کے چاہنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں. یہ جو دو مدعی پاکستان کی سپریم کورٹ سے انصاف لینے آئے تھے ان کا کیس بلکل سادہ سا ہے. عدالت میں ان کا کیس بھی تقریباََ دس سال کے بعد سماعت کے لئے لگا تھا۔ سرکاری وکیل بتا رہا تھا کہ جناب ان لوگوں کو 1996 میں سزا ملی. اور انھوں نے 2006 میں اس عدالت میں درخواستیں دائر کی ہیں، اتنا عرصہ گذرجانے کے بعد ان کا کیس کیسے سنا جا سکتا ہے؟


معزز عدالت خود بھی یہ ہی سوال اٹھا رہی تھی کہ\’\’ آئین کی شق 186 تین کے تحت آپ کیا سوچ کر اس عدالت میں آئے ہیں؟ کیونکہ یہ آئینی شق عوامی مفاد سے منسلک بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا حق دیتی ہے\’\’۔ صرف یہ ہی نہیں، چیف جسٹس کا یہاں تک کہنا تھا کہ\’\’ ہمارے عدالتی نظام میں اگر ملازمین کی سطح پر کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو اس پر ہم خود فیصلہ کرتے ہیں ہمارہ فیصلہ کوئی اور ادارہ آ کر نہیں کرتا، اسی طرح آپ کے ادارے نے قانون کے مطابق آپ کے خلاف کارروائی کی ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں یا کس بنیاد پر اس فیصلے کو ختم کرسکتے ہیں\’\’؟


\"ZI
یہ تمام کارروائی کسی عام مقدمہ سے جڑی نہیں ہے، اس کیس کو سمجھنے کے لئے ہمیں کافی پیچھے جانا پڑے گا۔ ماضی کو تھوڑا سا یاد کیجئے، 1995 کا زمانہ ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم، سردار فاروق لغاری صدر اور عبدالوحید کاکڑ فوج کے سربراہ تھے۔ اسی زمانے میں ایک رات اچانک ایک خبر پھیل گئی کہ حکومت کے خلاف فوج میں بغاوت کی سازش بے نقاب ہو گئی ہے، فوجی ڈسپلین کی خلاف ورزی پر ایک میجر جنرل سمیت کئی فوجی افسران اور ملازمین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ایک کے بعد کئی خبریں نکلیں۔ اس وقت کی حزب اختلاف کا ردعمل بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور پھر یہ معاملہ کورٹ مارشل تک گیا۔

ان خبروں میں سب سے بڑا نام میجر جنرل ظہیر السلام عباسی اور برگیڈئیر مستنصر بلا کا سنا گیا۔ یہاں وہاں سے چلنے والی تمام خبروں میں سب نے یہ ہی سنا کہ میجر جنرل ظہیر السلام عباسی نے اپنے ساتھیوں سے مل کر اس وقت کی وزیراعظم، صدر، آرمی چیف، اہم وزرا اورکئی فوجی اور سویلین افسران کو مارنے اور پھر اسلامی نظام لانے کی سازش کی ہے، اس کو عام طور پر\’\’خلافت\” سازش کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔


معاملہ آگے بڑھا اور کئی فوجی افسروں اور ملازمین کے خلاف اٹک قلعے میں میجر جنرل زاھد حسن کی سربراہی میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی ہوئی۔ اس فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں دو بریگیڈئیر اور دو کرنل بھی شامل تھے۔ پاکستان آرمی ایکٹ 1925 اور تعزیرات پاکستان کے تحت ملزموں کے خلاف تین مختلف الزامات کی بنیاد پر کارروائی شروع ہوئی۔ ان الزاموں میں فوجی ڈسپلین کی خلاف ورزی، پاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کی سازش کرنا اور لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کا الزام شامل تھا۔ کورٹ مارشل کی کارروائی 30 اکتوبر  1996 کو مکمل ہوئی۔ اس میں سب سے بڑا شریک ملزم قاری سیف اللہ وعدہ معاف گواہ بن چکا تھا۔ اس مقدمہ میں 26 سرکاری اور اتنے ہی دفاع کے گواہان پیش ہوئے تھے۔

\"BrigMustansir_Billah09-12\"اس فوجی مقدمہ میں سازش کے الزامات میں باقی ملزموں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے جیسی چھوٹی سزائیں ملیں جبکہ سازش میں براہ راست ملوث ہونے پر میجر جنرل ظہیر السلام عباسی کو سات سال قید، برگیڈئیر مستنصر بلا کو 16 سال قید کے ساتھ فوج سے برطرفی، پینشن اور تمام مراعات ضبط کرنے کی سزائیں ملیں. جبکہ ان کے دو ساتھیوں کرنل آزاد منہاس اور کرنل عنایت اللہ خان پر فوجی ڈسپلین کی خلاف ورزی اور سازش کا پتا ہونے کے باوجودافسران بالا کو اطلاع نہ دینے کا الزام ثابت ہونے پر ایک کو چار سال اور دوسرے کو دو سال قید، برطرفی، پینشن اور باقی فوجی مراعات ضبط کرنے کی سزائیں ملیں۔ کورٹ مارشل میں ثابت ہوا کہ کرنل عنایت اور کرنل آزاد دونوں برگیڈئیر مستنصر بلا اور میجرجنرل ظہیرالسلام عباسی کے ساتھی تھے۔ اس وقت ان کی عمریں چالیس سے بتالیس برس تھیں۔

آگے چل کر جنرل ظہیر السلام نے کورٹ مارشل کے فیصلے کو 1996 میں سپریم کورٹ میں چینلج کیا جس پر عدالت نے اسی برس تب کے آرمی چیف کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کر دیا۔ لیکن بعد میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے ایک وضاحت جاری کردی گئی کہ فوجی سربراہ کو بذات خود نہیں بلایا لیکن وزارت دفاع کی معرفت ان کا موقف طلب کیا ہے۔ آخر میں سپریم کورٹ نے یہ درخواست خارج کر دیں. ایسی ہی ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی لیکن وہ بھی اسی بنیاد پر خارج کردی گئی۔

اب کہانی کے اختتام پر آتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ میں جو باریش اور سفید پوش مدعی اپنا مقدمہ خود لڑ رہے تھے ان میں سے ایک وہ ہی ریٹائرڈ کرنل عنایت اللہ خان تھے اور دوسرے ریٹائرڈ کرنل محمد آزاد منہاس تھے۔ وہ دونوں اسی مشہور کورٹ مارشل کے ملزم تھے اور اپنی دو اور چار سال قید کی سزا بھی کاٹ چکے تھے۔ پینشن ان کی ضبط ہو چکی تھی اور ان کو وہ پینشن ملنے کی امید بھی نہیں لیکن ان کو یہ امید سپریم کورٹ تک کھینچ لائی ہے کہ دونوں کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز ون اسکیم اسلام آباد میں ایک کنال کنال کے پلاٹ ملے تھے وہ کسی بھی طرح واپس مل جائیں۔ عدالت عظمیٰ میں کھڑے ہو کر ان دونوں ریٹائرڈ افسران کا اپنے پورے نظام، قانون اور جزا سزا کے عدالتی سسٹم کے خلاف بات کرنے کے ساتھ وہ اس سازش کو ماننے سے انکار تو کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہم ملکی مفاد میں کام کر رہے تھے۔

اس ملک میں آج تک جو کچھ ہوا ہے وہ ملکی مفادات میں ہی ہوا ہے۔  ملک کو دو لخت کرنے کے حالات پیدا کرنا ہو، وسیع تر مفاد میں ملک کے اندر فرقہ واریت، انتہاپسندی اور دہشت گردی کا بیج بونے سے لے کر صوبوں میں منافرت پھیلانا ہو سب شاید ملک کے وسیع مفاد میں کیا جاتا رہا ہے اور کرنے والوں کو ابھی تک یہ تمام بھلائی کے کام سے روکنے سے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ چھوڑیں اس بات کو اب اگلی پیشی کا انتظار ہے کہ خلافت سازش مقدمہ کے ملزموں کو پلاٹ ملتے ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ ڈی ایچ اے کے پلاٹ کی آج کل کافی قیمت ہے بھائی۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments