محبت، بغاوت اور نظمیں پرانی نہیں ہوتیں


اگر آپ سامراجی ہتھکنڈوں اور مظلوم و محکوم عوام کے غضب شدہ حقوق کا مطالعہ کرتے رہے ہیں تو آپ نسیم سیّد کی کتاب ’’یوروپئین نوآبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات‘‘ کو نئے دور کا وہ صحیفہ کہیں گے جس کا لفظ لفظ خود کو ، آپ سے بار بار پڑھوائے گا۔ آپ اِس کتاب کو ازبر کرنا چاہیں گے کہ الیکٹرونک میڈیا نے آپ سے تفکر اور تدبر کی جو صلاحیت چھینی ہے، اس کتاب کا مطالعہ آپ کو ازسرِنو اپنی اس نظرانداز کی ہوئی فکری قوت کی جانب رجوع کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

یہ کتاب پڑھتے ہوئے جو پہلا سوال میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ نسیم نے یہ کتاب لکھ کیسے لی؟ میں اپنے حوصلوں کی فصیل کے پار نظر دوڑاتی ہوں، اتنے کڑوے سچ کے آوے میں اپنی حسیات کے ساتھ اترنا ، میرے لئے تو ناممکن ہے۔۔ ایسی کتاب لکھنے کے لیے ذہن، سوچ اور جذبات کو تاریخ کی اس بھٹی میں جھونکا جاتا ہے ،جس بھٹی نے کئی تاریخیں، کئی کتابیں، کئی تہذیبیں اور اَن گنت بے مثال انسانوں کو ان کی سوچ کی بلند و بالا چٹانوں سمیت جلا کر خس وخاشاک کر دیا ہے۔۔ اورجلنے اور مرنے کے خوف سے،  سچائی کے دعوے داروں نے بھی راستے بدل کر نسبتًا ہموار راستوں کا انتخاب کر لیا ہے۔ مگریہ سلگتا آتش کدہ نسیم کے ارادوں اور حوصلوں کی تپش کے آگے سر نگوں ہے۔ اور سیم سید آزمائش کی اس سلگتی بھٹی سے،کندن بنی… اِک نئی آب و تاب سے، مانند ِصحیفہ یہ کتاب لیے ہمارے سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں۔

اس کتاب میں کینیڈا ، (جو اب فخریہ انگلش اسپیکنگ ممالک کی صف میں شامل ہے) کے حقیقی باشندوں، جنہیں انیوایٹس اور ایبوریجنل اور اب فرسٹ نیشن بھی کہا جاتا ہے (اور جو نوآبادیاتی نظام کے بدترین جبر کا شکار رہے ہیں) کی تاریخ کے تلخ تر دَور کو رقم کیا گیا ہے۔

یوں تو طاقت کا منفی استعمال ہر پیمانے پر قابلِ مذمت ہے مگر کسی ایک خودساختہ تہذیب کا دوسری اقوام پر غاصبانہ تسلط یعنی کولونائزیشن، طاقت کا بدترین مظہر ہے۔ آج کے ’’مہذب یورپ‘‘ کے تہذیبی ڈھانچے پر نجانے کتنی اقوام کے بہتے لہو سے نہ مٹنے والے خون کے دھبے، ہمیشہ انہیں یاد دلاتے رہیں گے کہ ان کی تہذیب، بے شمار بے گناہوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔

تاریخ انسانی میں سامراجی قوتوں کا کردار… قتل و غارت گری… ملکیّتوں اور زمینوں پر غاصبانہ قبضے اور سادہ لوح اقوام کی تہذیبوں کی پامالی سے عبارت ہے۔عورتوں کی عزتوں کی پامالی، مفتوح اقوام کی کھوپڑیوں کے مینار بنانے ،اور لاشوں کے ڈھیر لگانے کے بعد کولونیل قوتوں کا حملہ قابض زمینوں کے تہذیب و تمدن، زبان و ادب، رہن سہن اور ثقافت و روایات پر ہوتا ہے۔ سامراج، چونکہ اس خبط میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی تہذیب، زبان، بودوباش، علمیت وترقی، مفتوح قبیلے، گروہ، طبقے اور مُلک سے برتر، ارفع و اعلیٰ ہے، لہٰذا وہ مفتوح علاقوں کے محنت کشوں کے خون پسینے کی محنت سے کمائے ہوئے سرمائے سے، اپنے منتخب کردہ ٹاؤٹ حکمرانوں کے ذریعے نافذ کردہ نظامِ تعلیم کے ذریعے مفتوح اقوام کو یہ باور کرواتا ہے کہ ان کی تاریخ، ان کے آباؤاجداد کی دانائی کے قصے، ان کی کہانیاں، ان کی نظمیں،ان کی داستانیں، ان کے ہیروز۔غرض یہ کہ ان کا حال، ان کا ماضی۔سب کچھ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کے لائق ہیں۔ ان کی روایات ماضی کے چبائے ہوئے لقموں سے بدتر ہیں۔ان کی تہذیب کچرے کا ڈھیر ہے۔اور اب ان کی ایک پہچان ہے کہ وہ ’’غلام‘‘ ہیں۔ جسمانی، ذہنی، رُوحانی اور جنسی غلام۔ ان کی بقا اپنے آقا کی تقلید کرنے، اس کی زبان سیکھنے اور خود کو کمتر اور خود پر مسلط کردہ جابروں، آمروں اور لٹیروں کو عظیم، فاتح اور برتر سمجھنے میں پنہاں ہے۔

تسلط کار، ظلم، زیادتی، نفرت اورقتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ نفسیاتی داؤپیچ سے کام لیتا ہے۔ ہر غیراخلاقی ہتھکنڈے کو جائز کہتا اور منواتا ہے۔ وہ یہ جھوٹ اس شدومد سے، اِتنی بار اور اِتنی سفاکیت سے رٹواتا ہے کہ۔صدیوں کی ثقافت کے تانے بانے میں بندھے، اپنی دھرتی کی گہری جڑوں کی محبت میں گندھے، اپنے لوگوں، اپنے پیاروں، اپنے رقص و موسیقی اور اپنے لوک گیتوں کے عشق میں ڈوبے لوگ ۔حال کے جبروظلم میں زندہ رہنے کی جدوجہد میں، اپنی تاریخ، اپنا جغرافیہ، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنی بودوباش۔بدلنے اور بهولنے میں ُجت جاتےہیں۔ دن رات خود کو فراموش کرنے کی بے ُسود کاوشیں کرتے ہیں۔اور اسی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں جس رنگ میں ان کے آقا رنگے ہوتے ہیں۔

تاریخ کا یہ ذِلت آمیز دور۔جن خطوں اور تہذیبوں نے دیکھا ہے، اس میں ہم بدبخت بھی شامِل ہیں۔مگر۔ایک فرق کے ساتھ، ہم آج بھی سامراج کے گماشتوں اور لٹیروں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ مگر کینیڈا کے حقیقی باشندوں نے بد ترین مظالم کو سہتے ہوئے بھی اپنے اصل سے اپنا رشتہ نہ تو ڑا  ۔

استعما ر کے گُرگےیہ بھول گئے تھےکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کی زبان میں لکھی شاعری، ان کی بائبل ہے۔جن کے لیے ان کی دھرتی ان کی ماں ہے، جن کے لیے آسمان ان کا سائبان ہے، جن کے گیت، نظمیں اور موسیقی ان کا جزوِ ایمان ہیں۔انہوں نے بدترین مظالم سہتے ہوئے بھی۔۔۔

لٹیروں کو لٹیرا لکھا۔ غاصبوں کو غاصب کہا۔ جابروں کو جابر۔تسلط کاروں کو تسلط کار،قاتل کو قاتل، ریپسٹ کو ریپسٹ اور ظالم کو ظالم لکھا۔ یہ کینیڈا کے اصل باشندوں کا فخر ہے۔ ان کا اِفتخار ہے کہ یہ آج بھی اپنے تمدن پر شرمسار نہیں۔یہ جانتے ہیں کہ ظلم کسی بھی رنگ میں آئے ظلم ہی کہلائے گا۔قاتل کسی بھی سمت سے آئے، قاتل ہی کہلائے گا۔ سامراج کسی بھی آسمانی صحیفے کو ساتھ لائے، سامراج ہی کہلائے گا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ و ادب کے درمیان موازنہ، دُنیا کے دانا ترین یونانی فلسفیوں سے چلا آ رہا ہے۔ تاریخ انسانی سروں کا حساب رکھ سکتی ہے۔ کیلنڈروں پہ درج تاریخیں لکھ سکتی ہے کہ اسے اعدادوشمار سے سروکار ہوتا ہے، دلوں کی شکستگی اور رُوحوں کی پامالی سے نہیں۔

کینیڈا کے حقیقی باشندوں کی ایک تاریخ۔فاتح نے رقم کی تو دوسری اس کے حقیقی باشندوں نے ۔ اور ان حقیقی باشندوں کی تاریخ کو ان کی نظموں کے توسط سے دُنیائے اُردو تک پہنچانے کا بیڑہ نسیم سیّد نے اُٹھایا۔ نسیم نے چن چن کر حقائق اکٹھے کیے۔زعم برتری میں مبتلا اقوام کی سفاکیت، رُوپ و رنگ کا گھمنڈ، کولونیل ازم کی مکروہ سازشیں ،نہتی معصوم اقوام کے وسائل پہ قبضہ گیری۔اور ان کی نسلوں کو بدل دینے کا جنسی، جنگی ا ور مجرمانہ جنون،تہذیب و تمدن کے ُپرفریب نعروں میں چھپی نفرت کی سیاست، غرض کہ ہر موضوع پر نسیم نے مواد اکھٹا کیا اور ان۔سادہ لوح، پرامن، مدرسری نظام کے پروردہ،فطرت و قدرت کے مظاہر سے محبت کرنے اور غمزدہ گیت گانے والوں کی عزا داری ، اشکباری اور سوگواری میں نسیم خود بھی شامِل ہو گئیں۔وحشتوں اور بربریت کی اس ہولناک داستان کو لکھنے میں اُنگلیاں و دل تو کیا، رُوح بھی زخم زخم ہو گئی ہو گی۔مگر۔نسیم سیّد نے اس کتاب کو مکمل کر کے ہی دم لیا۔ کتاب کیا ہے؟ ایک حکایت ِخونچکاں ہے، داستانِ رنج و اَلم ہے، قصۂ درد و غم ہے، ایک ایسا نوحہ ہے جو گر ریگستان میں گایا جائے تو مانو آسمان رو رو کر دشت کو جل تھل کر دے۔

ساؤتھ ایشیا کے بے شمار باشندے ہجرت کر کے کینیڈا آئے جن میں قلم قبیلے کے افراد بھی شامِل ہیں۔۔۔مگر یہ کتاب لکھنے کا خیال، کسی کو کیوں نہ آیا؟ شاید اس لیے کہ نسیم کسی کا اُدھار نہیں رکھ سکتی۔وہ محبتوں، رفاقتوں ،دوستیوں اور زندگی کے حساب میں بہت کھری ہے۔ واضح، دو ٹوک اور بے باک۔اور جب بات حرف کی آئے۔حرف کی حرمت کی آئے اور پناہ دینے والی دھرتی کی آئے تب نسیم اپنی ذات تو کیا۔اپنے قبیلے کا ادھار چکتا کرنے پر تُل جاتی ہے۔ یہ جملے لکھتے ہوئے مجھے بے ساختہ نسیم کی نظم ”مجھ کو مہران یاد آتاہے “ یاد آئی ہے ، جس میں نسیم سید نے سندھ دھرتی اوراپنی ماں کے لیے اپنی بے پناہ محبت اور ہجرت کے درد کو لفظوں میں یوں سمویا:

ایسی بستی کہ جس کے رسم و رواج

مجھ سے مانوس، مجھ کو جانتے ہیں

جس کی گلیاں مکان باغیچے

میرے بچپن سے مجھ کو جانتے ہیں

(اب مگر بدگمان سے رہتے ہیں)

جس کی مٹی میں

سائیں سچل کے

مست گیتوں کی سوندھی خوشبو تھی

پیار کی رسم تھی بھٹائی کی

(اب جہاں صرف خاک اڑتی ہے)

اسی بستی کے اک محلے میں

بوڑھے گھر کے اداس کمرے میں

میری یادوں کی ایک ایک کتاب

کیسے کیسے محبتوں کے خواب

شیلف پر یوں سجے سے رکھے ہیں

جیسے بے جان سرد کمرے میں

زندگی کا یقیں دلانے کو

کوئ تصویریں ٹانگ دیتا ہے

پیار سے چھو کے ان کو دیکھتی ہوں

تہہ بہ تہہ گرد ان کی پونچھتی ہوں

ایک شفاف اجلی چوکی سے

اٹھ کے اجرک گلے لگاتی ہے

مامتا جیسے لمس کی راحت

میری نس نس میں پھیل جاتی ہے

میری ماں ننگے سر، شکستہ بدن

لٹ کے اس شہر میں جب آئی تھی

اسی اجرک نے اپنے آنچل سے

اس کے زخموں کی خاک پونچھی تھی

اس کے سر پہ ردا اڑھائی تھی

آج اس مہربان آنچل کی

ہر شکن سرد سرد آہیں ہیں

ایسے سارے اداس لمحوں میں

مجھ کو مہران یاد آتا ہے

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2