سوشلستان:’کھیل کے میدان میں طاقتور بازو کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ نرم ملائم ہاتھ’
سوشلستان میں خواجہ آصف، اقامہ اور نااہلیوں کی فہرست میں نئے آنے والے چہروں کی بات کی جا رہی ہے۔ کپتان نے تین دن پہلے پیش گوئی کر دی تھی کہ ایک بڑی وکٹ گرنے والی ہے۔
لوگ سمجھتے رہے کہ چوہدری نثار کی وکٹ ہو گی مگر اب سوشلستان میں کہا جا رہا ہے کہہ شاید لوگوں کو کپتان کی دور اندیشی کا اندازہ نہیں تھا۔ کپتان کو اس فیصلے کا پہلے سے اندازہ تھا۔ اسی لیے ن لیگی یہ کہتے پائے گئے کہ ‘یہ فیصلہ اوپر سے آیا تھا۔
عثمان ڈار نے تو فیصلہ آنے سے ایک رات پہلے ہی سکرینیں نصب کروائی تھیں۔’
خیر اس فیصلے پر بہت بات ہو چکی اس لیے ہم آج پاکستان میں ہیئر ریموول کریم کے اشتہار اور اس پر کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان کی تنقید پر بات کریں۔
‘ کھیل کے میدان میں طاقتور بازو کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ نرم ملائم ہاتھوں کی۔’
گذشتہ کچھ دنوں سے ایک ہیئر ریموول کریم کا اشتہار پاکستانی ٹی وی سکرین پر چل رہا ہے جس میں گلابی لباس میں ملبوس ماہرہ خان سلیم ڈنک کر رہی ہوتی ہیں۔
اب پاکستانی اشتہارات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
شادی شدہ جوڑے کو ماں باپ سے جھوٹ بولنے کی ترغیب، بچوں کے ‘کچھ نیا کرو’ کے چکر میں ڈرامے جن میں جھوٹ شامل ہے یہ سب چلتا ہے۔
وہ داغ جو شاید ‘جلانے سے بھی نہ جائیں’ مشہور سابق کرکٹر انہیں چند سیکنڈ میں صاف کردیتا ہے۔ اور سب سے مشہور بات جہاں دنیا بھر میں قدرتی یا آرگینک غذا کھانے کا رجحان فروغ پا رہا ہے وہاں ایک سابق کرکٹر اسپغول کا کوئی نیا ورژن بیچ رہا ہوتا ہے۔
پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کے بارے میں مزید پڑھیے
ثنا میر کپتانی سے فارغ، بسمہ معروف نئی کپتان
ثنا میر کی 100 وکٹیں اور بسمہ کے 2000 رنز
تو ماہرہ خان اس اشتہار میں ایک پریشان اور دلبرداشتہ لڑکی کو کریم بیچ رہی ہوتی ہے
اس معاملے پر بہت کم بات ہوئی مگر جب پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر نے اسے آڑے ہاتھوں لیا تو یہ ایک بحث کی صورت اختیار کر گئی۔
ثنا میر نے نوجوان لڑکیوں کو سوشل میڈیا پر پیغام دیا ہے کہ وہ لڑکیاں جو کھیل کے میدان میں اپنے جوہر دکھانا چاہتی ہیں انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ‘کھیل کے میدان میں آپ کو نرم و ملائم ہاتھ نہیں بلکہ طاقتور بازو کی ضرورت ہوتی ہے۔’
فیس بک پر لکھے گئے اپنے پیغام میں ثنا میر نے کہا کہ کارپوریٹ سپانسرز اور معروف شخصیات ہمیشہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ہم خواتین کی نمائش کے خلاف ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اس کی تنقید کرتی ہیں۔ ‘لیکن جب ہم پر خود ذمہ داری آتی ہے تو میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے جو ان خواتین کا ساتھ دیں جو اپنی ذات میں خود کو مکمل سمجھتی ہیں۔’
اس اشتہار کے بارے میں بات ذکر کرتے ہوئے ثنا میر نے اپنے پیغام میں لکھا کہ اس اشتہار کو دیکھ کر وہ مجبور ہوئی ہیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ فیس بک پر ان کا یہ پیغام 33 ہزار بار ‘لائیک’ کیا جا چکا ہے اور ٹوئٹر پر اسے 11 سو مرتبہ ری ٹویٹ کیا گیا ہے۔
‘مجھے اس اشتہاری مہم کا علم ہوا ہے جس میں ایک لڑکی اس بات پر پریشان ہے کہ وہ باسکٹ بال کھیلتے ہوئے کیسی لگ رہی ہے۔ یہ انتہائی غلط بات ہے کہ بجائے ہم لڑکیوں کو یہ بتائیں کہ ان کی جلد کا رنگ اور بناوٹ کوئی معنی نہیں رکھتے، ہم خواتین کے جسم کی نمائش اور جسم کی ساخت پر شرمندگی جیسے پیغام کو فروغ دے رہے ہیں۔’
ثنا نے اس بارے میں سوال اٹھایا کہ کیا لڑکیوں کا جذبہ، مہارت اور صلاحیت ان کی کامیابی کے لیے کافی نہیں ہے؟
‘اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہیں: کھیل کے میدان میں آپ کو طاقتور بازو کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ نرم ملائم ہاتھوں کی۔’
ثنا میر نے مزید لکھا کہ انھوں نے اپنے 12 سالہ کیرئیر میں کئی بار ایسے اشتہارات میں کام کرنے سے انکار کیا ہے جس کا تعلق خواتین کے جسمانی حسن کی مصنوعات سے ہو۔
‘میں تمام سپانسرز اور معروف شخصیات سے درخواست کروں گی کہ وہ نوجوان لڑکیوں کو ان کا خواب پورا کرنے میں مدد دیں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جس کی وجہ سے وہ کسی بھی احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں۔’
ثنا میر کے اس پیغام کے بعد سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اس کو سراہا اور اپنے جوابات میں اس کی تائید کی۔
پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم نے ٹوئٹر پر ثنا میر کو کہا کہ ‘تم بہت زبردست ہو اور ہمارے ملک کو بالکل ایسی ہی خواتین کی ضرورت ہے۔ اگر میری بیٹی کو تمہارا پوسٹر لگانا ہو گا تو میں خود اس کی مدد کروں گی۔’
سابق آسٹریلوی خاتون کرکٹر میل جونز نے بھی ثنا میر کی حمایت میں ٹویٹ کی اور ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں کمپنیوں کی جیبیں بھرنے کے بجائے نوجوانوں میں خود اعتمادی بڑھانا چاہیے۔’
ثنا میر کی ساتھی اور پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان بسمہ معروف نے بھی اپنی ٹویٹ کہا کہ ‘خواتین کی غلط عکاسی صرف اسی وقت ختم ہوگی جب ہم ایسے اشتہارات کی حمایت نہ کریں اور ہم سب مل کر ایسا کر سکتے ہیں۔’
ٹوئٹر پر ایک صارف شاہ بانو عالیانی نے لکھا کہ ‘اپنی ذات کے لیے فیمینسٹ ہونا تو بہت آسان ہے لیکن بہت کم لوگ ہیں جو دوسری خواتین کے لیے بات کریں اور اس کی خاطر نفع بخش اشتہارات اور معاہدے چھوڑ دیں۔’
انڈیا سے صارف انانیا اپندران لکھتی ہیں کہ ‘شکر ہے کسی نے اس بارے میں بات کی اور میرے خیال میں ثنا میر سے زیادہ کوئی اور اس سے بہتر طریقے سے یہ پیغام نہیں دے سکتا تھا۔’
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے جاری کردہ خواتین کی ایک روزہ کرکٹ میں بولروں کی درجہ بندی میں ثنا میر 620 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان اشتہارات کو جنہیں ہمارے بچے اور جوان سب شوق سے دیکھتے ہیں منفی رجحانات اور غلط باتوں کی ترویج کرنے دینا چاہیے یا ان کے معیار اور ان میں شامل کیے گئے مواد کی بھی اسی طرح جانچ ہوی چاہیے جس طرح ڈراموں یا نیوز اور کرنٹ افیئرز کی ہوتی ہے۔
اس ہفتے کی تصاویر
- انڈیا میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی پانے والے مسلمان طلبہ: ’سخت محنت کا کوئی نعم البدل نہیں‘ - 20/04/2024
- ایرانی جوہری تنصیب اور ڈرون و بیلسٹک میزائل تیار کرنے والی فیکٹریوں کے مرکز اصفہان کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟ - 20/04/2024
- غزہ کی وہ تصویر جسے ’ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ ملا: ’اس لمحے میں غزہ کے درد کی داستان موجود ہے‘ - 19/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).