ووٹ کی عزت میں اقلیتی شہری بھی مساوی حصہ مانگتے ہیں


حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی میں ہونے والے واقعے سے متعلق ملک بھر کے مسیحی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ خبروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے عارف عباسی نے پنجاب اسمبلی میں صوبائی بجٹ سیشن کے دوران بحث حکومت پارٹی کے مسیحی ایم پی اے طارق مسیح کو” چوڑا” کہہ کر چُپ کرانے کی کوشش کی۔ جس کے بعد طارق مسیح اور عارف عباسی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جو ہاتھا پائی پر منتج ہوئی۔ اس واقعے پر حکومتی پارٹی کے اقلیتی سیاستدانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور جس کا دائرہ ملک بھر میں پھیل گیا اور بہت سی اقلیتی آبادیوں میں اس واقعے سے متعلق احتجاج کیا گیا اور عارف عباسی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اقلیتی سیاستدان، شنیلا روت نے اس واقعے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عارف عباسی کی پارٹی کی طرف سے اس واقعے سے متعلق کوئی تردید یا تصدیق نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اکثریتی پارٹی والے اس واقعے کو سچا واقعہ پیش کر رہے ہیں۔

اکثریت کی طرف سے اقلیت خصوصاً کسی مسیحی کو چوڑا کہنا نئی بات نہیں ہے اور اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں جس سے اقلیتوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں کم ترین، گھٹیا اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ جو بے آواز ہیں اور جن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس لئے اُنہیں کوئی حق نہیں ہے کہ کسی صورت بھی ترقی کے میدان میں اکثریت کے ہم پلہ ہوں۔ اس حوالے سے میں یہاں یہ ایک واقعہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ دنوں بی بی سی پر ایک رپورٹ دیکھنے اور سُننے کو ملی جس کے مطابق گجرات سے تعلق رکھنے والی مسیحی اسسٹنٹ کمشنر، عزوبہ عظیم کو دھمکی دی گئی کہ یہ تو ایک بلاسفیمی لاءکی مار ہے، جس پر اُس مسیحی خاتون کا رد عمل تھا کہ ” اگر ایک اعلیٰ درجے کی ملازمت رکھنے والی کو توہینِ مذہب کے قانون سے ڈرایا جا سکتا ہے تو عام آدمی پر اس کا الزام لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔” یہاں یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے آئین اور انسانی حقوق کے عالمی منشور میں تو یہ درج ہے کہ ملک میں رہنے والے بلاِ امتیاز برابر ہیں اور ان سے برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جائے گا، لکھے جانے کی حد تک تو یہ دُرست ہے لیکن اس پر عمدرآمد ہونا ناقابل یقین امر ہے۔

اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کو بارہا یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ کمتر ہیں۔ لفظ چوڑا پر متعدد آرا سامنے آ چکی ہیں اور ہر کوئی اپنی دانست میں اس کے معنی نکالنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن راقم سمجھتا ہے کہ اقلیتوں کی تذلیل کرنے کے لئے اس سے براُ لفظ شاید آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ملک کو ستر سال قائم ہونے کے باوجود آج بھی اقلیتوں کے حوالے سے حقارت آمیز رویہ موجود ہے۔ آج بھی اقلیتوں کو ایک خاص پیشے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آج بھی مسیحی لڑکی کو مسلم سے زبردستی شادی پر مجبور کیا جاتا ہے اور انکار کی صورت میں اُس لڑکی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں جیسے حال ہی میں سیالکوٹ میں ایک مسیحی لڑکی کو شادی سے انکار پر مسلم لڑکے نے آگ لگا دی۔ اسی طرح کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے مسیحیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور جب ملتان میں مسیحیوں نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کیا تو مسلم دوستوں کی طرف سے پیغام آیا کہ کاش اس طرح کا احتجاج شام کے مسلمانوں کے لئے بھی کیا جاتا۔ غور طلب بات یہ کہ ملک میں اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کو اکثریت کی طرف سے درست قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے انسانی حقو ق کمیشن کی سال 2017ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ “توہین مذہب کے جھوٹے الزامات عائد کر کے تشدد، جبری گمشدگیوں اور ماورائے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔”

اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے حل کیا ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت اسے روک سکتی ہے؟ کیا زور بازو سے ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا آئین میں ترامیم کے ذریعے اس کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا پُرامن احتجاج کے ذریعے اس طرح کے واقعات رُک سکتے ہیں؟ کیا عوام کے ذہنوں سے اکثریت اور اقلیت کا فرق ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہ سارے ایسے سوال ہےں جن پر اقلیتیں ایک عرصے سے جدوجہد کر رہی ہیں کہ کس طرح اس جڑت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ بین المذہب ہم آہنگی کے پروگراموں میں اقلیتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں تا کہ اُن کے وجود کو قبول کیا جا سکے۔ تعلیم، صحت، کھیل اور دفاع کے میدان میں اقلیتیں اپنے آپ کو منوا کر ثابت کر رہی ہیں کہ اگر اُنہیں مواقع ملیں تو وہ اپنے آپ کو منوا سکتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کی خدمات کا دورانیہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے پر محیط ہے اور جو تاحال جاری ہے۔ غرض اقلیتوں نے ملکی ترقی کے ہر میدان میں اپنے آپ کو منوایا ہے لیکن جب اس طرح کے القابات سے اُنہیں نوازا جاتا ہے تو اقلیتیں انتہائی کرب محسوس کرتی ہیں۔

راقم سمجھتا ہے کہ مخلوط انتخابات کی جدوجہد بھی اسی لئے کی گئی تھی اکثریت اور اقلیت کے درمیان جو خلیج ہے وہ کم ہو گی۔ مسلم آبادیوں میں اقلیت کے ساتھ اکثریتی نمائندے بھی ووٹ لینے کے لئے جائیں گے۔ جس سے اقلیتوں کو مقامی سطح پر جہاں اقلیتی نمائندہ دستیاب ہو گا وہاں اکثریتی نمائندے سے بھی تعلق استوار ہو گا جو اقلیتوں کی ترقی کے لئے معاون ثابت ہوں گے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس موجودہ نظام میں اکثریتی نمائندے اقلیتی بستیوں میں ضرور آئے اور ووٹ بھی لئے لیکن اقلیتی نمائندوں کو اس نظام میں بے حیثیت کر دیا گیا اور اُسے مشروط کردیا کہ جتنی زیادہ وہ اپنی پارٹی کی چاپلوسی اور تابعداری کرے گا تو تب ہی وہ اُس جماعت کی” گڈ بک” میں شامل ہو گا اور تب ہی اُسے “سلیکٹ “کیا جا سکے گا لہذا اس بھاگ دوڑ میں اقلیتی سیاسی مفاد پرستیے منع کرنے کے باوجود اس دوڑ میں شامل ہو گئے اور حد سے زیادہ خوشامد کر کے اس نظام کا حصہ بن گئے۔ نتیجے میں کبھی اُن کو بھری محفل میں اپنے وزراء کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا کبھی اقلیتی سانحے کے موقع پر زبردستی اُن سے اپنی مرضی کے بیانات دلوائے جاتے رہے اور کبھی اسمبلی میں اُن کی تذلیل کی جاتی رہی، جیسا کہ حال ہی میں اُنہیں چوڑا کہہ کر یاد کروایا گیا کہ اقلیتوں کی حیثیت کیا ہے ؟

 اگر ہم اس کا حل تلاش کرنے کے کوشش کریں تو اس نتیجے پر آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے کہ اگر اقلیتی ممبر ووٹ لے کر اسمبلی میں آتے تو شاید اُن کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ ہوتا۔ اب اُن کے ساتھی سیاستدانوں کو بخوبی علم ہے کہ اقلیتی سیاستدانوں کو کچھ بھی کہہ دیں نہ تو یہ خود کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ان کی پشت پناہی ان کی جماعت ہی کرے گی جیسا کہ مذکورہ واقعے میں ہوا کہ اُس اقلیتی رُکن کی جماعت نے اُس کی حمایت میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا حتیٰ کہ جو احتجاج اُن کی جماعت کے اقلیتی سیاستدانوں نے کیا اُس میں بھی کوئی کلیدی سیاستدان نظر نہیں آیا۔ راقم یہ سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ شاید اقلیتی سیاستدانوں کے لئے ٹیسٹ کیس ہو اور وہ آئندہ انتخابات میں مطالبہ کر یں کہ وہ سلیکشن کی بجائے عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں آئیں گے دوسری صورت میں یہ بے عزتی تو اُن کے لئے لکھ دی گئی ہے جسے اُنہیں بہرکیف برداشت کرنا ہو گا اور اقلیتی شہریوں کو بھی اس کے لئے تیار رہنے کا درس دینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).